Ruh-ul-Quran - Az-Zumar : 9
وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَكَانَ اَبَوٰهُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَاۤ اَنْ یُّرْهِقَهُمَا طُغْیَانًا وَّ كُفْرًاۚ
وَاَمَّا : اور رہا الْغُلٰمُ : لڑکا فَكَانَ : تو تھے اَبَوٰهُ : اس کے ماں باپ مُؤْمِنَيْنِ : دونوں مومن فَخَشِيْنَآ : سو ہمیں اندیشہ ہوا اَنْ يُّرْهِقَهُمَا : کہ انہی پھنسا دے طُغْيَانًا : سرکشی میں وَّكُفْرًا : اور کفر میں
اور رہا لڑکا تو اس کے ماں باپ صاحب ایمان تھے، ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ بڑا ہو کر سرکشی اور ناشکری سے ان پر تعدّی نہ کرے۔
وَاَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَیْنِ فَخَشِیْنَآ اَنْ یُّرْھِقَھُمَا طُغْیَانًا وَّکُـفْرًا۔ فَاَرَدْنَـآ اَنْ یُّبْدِلَہُمَا رَبُّھُمَا خَیْرًا مِّنْہُ زَکٰوۃً وَّاَقْرَبَ رُحْمًا۔ (الکہف : 80، 81) (اور رہا لڑکا تو اس کے ماں باپ صاحب ایمان تھے، ہمیں اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ بڑا ہو کر سرکشی اور ناشکری سے ان پر تعدّی نہ کرے۔ پس ہم نے چاہا کہ ان کا رب ان کو اس کی جگہ بہتر بدلہ (اولاد) عطا فرمائے پاکیزہ نفسی میں اور وہ بڑھ کر ہو مروت و دردمندی میں۔ ) زَکٰوۃ …کا معنی ہے طبیعت اور اخلاق کی پاکیزگی یعنی پاکیزہ نفسی۔ رُحْم … کا معنی ہے رقت قلب، ہمدردی اور محبت و شفقت۔ لڑکے کے قتل کی حکمت حضرت خضر (علیہ السلام) نے ایک لڑکا قتل کردیا تھا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس پر برہم ہوگئے تھے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لڑکے کے قتل کی حکمت یہ تھی کہ اس کے ماں باپ مومن تھے، یعنی ایسے صاحب ایمان جن کی زندگی ایمان کا پیکر تھی اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے علم میں تھی کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر سرکشی اور ناشکری سے اپنے ماں باپ کو مبتلائے اذیت کرے گا اور ایک فتنہ بن جائے گا اور اس کی محبت ماں باپ کے لیے ایک آزمائش بن جائے گی۔ ہم نے ارادہ کیا کہ اسے واپس لے لیں یعنی اس کی زندگی ہماری دین ہے، اسے واپس لے کر ہم اس کے بدلے میں ایک ایسی بہتر اولاد دیں جو اعمال و اخلاق میں بھی پاکیزہ ہو اور ماں باپ کے حقوق بھی احسن طریقہ سے ادا کرے۔ ممکن ہے کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر سرکش نکلے گا تو پھر اس کو بڑا نہ ہونے دینا یہ تو ایک طرح سے اللہ تعالیٰ کے علم کو ناتمام کرنے کی ایک کوشش ہے، لیکن یہ محض غلط فہمی ہے اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ اگر یہ بڑا ہوگا تو سرکش ہوگا لیکن ماں باپ کی فرمانبرداری اور سعادت مندی نے اللہ تعالیٰ سے یہ انعام حاصل کرلیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بیٹے کو ان کے لیے آزمائش بننے سے پہلے اٹھا لیا۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ والدین کو چونکہ اس بچے سے محبت تھی اس لیے اس کا قتل کیا جانا یقینا ان کے لیے ایک بڑے صدمے کی بات تھی تو کیا ان کے ایمان کا یہ صلہ تھا کہ انھیں ایسا سخت صدمہ پہنچایا جاتا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض دفعہ اہل ایمان کو کسی تکلیف میں اس لیے مبتلا کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس پر صبر کرکے اپنے لیے جنت میں کوئی بڑا مقام پیدا کرلیں۔ ان کے لیے اس سے بڑا مقام اور کیا ہوگا کہ انھیں اس کے بدلے میں بہتر اولاد بھی دی گئی اور قیامت تک کے لیے ان کے ذکر کو دوام بھی بخش دیا گیا جس کا نتیجہ یقینا یہ ہوگا کہ وہ قیامت کے دن کسی بڑے مقام سے نوازے جائیں گے۔ ابن ابی شیبہ، ابن المنذر اور ابن ابی حاتم نے بروایت عطیہ نقل کیا ہے کہ مقتول لڑکے کے والدین کو اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں ایک لڑکی عطا فرمائی جس کے بطن سے ایک نبی پیدا ہوا۔ اور حضرت ابن عباس ( رض) کی ایک روایت یہ ہے کہ اس کے بطن سے دو نبی پیدا ہوئے اور بعض روایات میں ہے کہ اس کے بطن سے پیدا ہونے والے نبی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی امت کو ہدایت فرمائی۔
Top