Ruh-ul-Quran - Maryam : 59
فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ
فَخَلَفَ : پھر جانشین ہوئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد خَلْفٌ : چند جانشین (ناخلف) اَضَاعُوا : انہوں نے گنوادی الصَّلٰوةَ : نماز وَاتَّبَعُوا : اور پیروی کی الشَّهَوٰتِ : خواہشات فَسَوْفَ : پس عنقریب يَلْقَوْنَ : انہیں ملے گی غَيًّا : گمراہی
پھر ان کے بعد ان کی جگہ آئے نا خلف جنھوں نے نماز ضائع کردی اور خواہشوں کے پیچھے پڑگئے تو یہ لوگ عنقریب اپنی گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں گے۔
فَخَلَفَ مِنْ م بَعْدِھِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّھَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا۔ (پھر ان کے بعد ان کی جگہ آئے نا خلف جنھوں نے نماز ضائع کردی اور خواہشوں کے پیچھے پڑگئے تو یہ لوگ عنقریب اپنی گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں گے۔ ) (مریم : 59) خَلْفٌ … لام کے سکون کے ساتھ، ناخلف یعنی برے جانشین کو کہتے ہیں۔ اور خلف لام کے فتحہ کے ساتھ، اچھے اور صالح جانشین پر بولا جاتا ہے۔ ناخلف جانشینوں کا تذکرہ سابقہ آیت کریمہ میں چند اولوالعزم اور برگزیدہ رسولوں اور انہی کے راستے پر چلنے والے چنیدہ لوگوں کا ذکر فرماتے ہوئے بطور خاص یہ بات فرمائی کہ جب ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ یہ سوچ کر کہ یہ اس اللہ کا کلام ہے جو خالق کائنات اور قادرمطلق ہے، اس کی عظمت کے سامنے جھک جاتے ہیں اور روتے ہوئے اس کی پناہ طلب کرتے اور اس کی توفیق کی آرزو کرتے ہیں۔ ان کا یہی وہ خصوصی طرزعمل ہے جس نے انھیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے وابستہ رکھا ہے اور ان کی زندگی ہمیشہ شریعت کی پابند رہی ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ ان کی زندگی کا اصل رنگ اور اس کا حقیقی مقصد صرف یہ رہا کہ ہم کسی طرح اپنے اللہ کو راضی کرلیں اور اس کی خوشنودی کا حصول ہمارا مقدر بن جائے۔ پیش نظر آیت کریمہ میں یہ فرمایا جارہا ہے کہ ان کے بعد پھر ایسے لوگ آئے جو بظاہر ان کے نام لیوا تھے جو اللہ تعالیٰ کا کلام سن کر سجدہ ریز ہوجاتے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت سے ان کی آنکھیں اشکبار ہوجاتیں، لیکن ان کا حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے یکسر غافل ہوگئے۔ نماز جو اس کے استحضار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جس سے بار بار آدمی کو تجدیدِ عہد کا موقع ملتا ہے اور بار بار اسے اللہ تعالیٰ کے سامنے رکوع، سجود اور قیام کے ذریعے یہ بات تازہ رہتی ہے کہ تم ہرحال میں اور مکمل طور پر اللہ تعالیٰ ہی کے بندے ہو اور اسی کی یاد تمہاری زندگی کا اصل سرمایہ ہے۔ لیکن ان کے نالائق جانشینوں کی زندگیوں سے یہ نماز جیسی عظیم دولت خارج ہوگئی۔ نماز ہی ہے جو آدمی کو برائی کے کاموں سے روکتی ہے۔ جب وہ چیز جو برائی کے راستے میں رکاوٹ تھی باقی نہ رہی تو ان کی زندگیوں پر خواہشاتِ نفس کا غلبہ ہوگیا اور وہ اس راستے پر چل پڑے جو نفس اور شیطان کا راستہ ہے جس کا نتیجہ بالآخر تباہی ہے۔ ضیاعِ صلوٰۃ کا مفہوم آیتِ کریمہ میں اَضَاعُوا الصَّلٰوۃ کا جملہ استعمال ہوا ہے جس کا معنی ہے کہ ان نالائق جانشینوں نے نماز کو ضائع کردیا۔ ضیاع صلوٰۃ کا لفظ دو معنوں کے لیے بولا جاسکتا ہے۔ ایک تو یہ کہ انھوں نے سرے سے نماز کو اپنی زندگیوں سے خارج کردیا۔ تورات سے معلوم ہوتا ہے کہ شروع شروع میں تو نماز میں تبدیلیاں کی گئیں بالآخر اس کی انتہا یہ ہوئی کہ اگر کسی شخص نے ساری زندگی میں ایک دفعہ بھی نماز کی نیت سے کسی جگہ اپنی پیشانی رکھ دی اور ماتھا ٹیک دیا تو اس نے گویا کہ نماز کا حق ادا کردیا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ انھوں نے حقیقتِ صلوٰۃ گم کردی کیونکہ نماز درحقیقت اللہ تعالیٰ کی کبریائی کا اعتراف، اپنی بندگی کا اعلان اور اللہ تعالیٰ کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالنے کا نام ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ تصورات اسی وقت تک ایک نمازی کے اندر رہ سکتے ہیں جب تک وہ نماز کی اس حقیقت کو سمجھ کر نماز ادا کرتا ہے۔ اس لیے صحابہ کرام ( رض) جب کسی شخص کو دیکھتے تھے کہ وہ نماز کے اعمال تو بجا لاتا ہے لیکن اس میں نہ خشوع ہے نہ خضوع، نہ تعدیلِ ارکان، نہ وقت کی پابندی اور نہ اس کا اہتمام۔ ایسی نماز ظاہر ہے نماز کہلانے کی مستحق نہیں، تو وہ صاف فرما دیتے تھے کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ حضرت حذیفہ ( رض) نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز کے آداب اور تعدیلِ ارکان میں کوتاہی کرتا ہے۔ تو اس سے دریافت کیا کہ تم کب سے نماز پڑھتے ہو ؟ اس نے کہا کہ چالیس سال سے۔ حضرت حذیفہ ( رض) نے فرمایا کہ تم نے ایک بھی نماز نہیں پڑھی۔ اگر تم اسی طرح کی نمازیں پڑھتے ہوئے مرگئے تو یاد رکھو کہ فطرتِ محمد ﷺ کے خلاف مرو گے۔ ترمذی میں حضرت ابومسعود انصاری ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو نماز میں اقامت نہ کرے۔ مراد یہ ہے کہ جو رکوع اور سجدہ میں اور رکوع سے کھڑے ہو کر یا دو سجدوں کے درمیان سیدھا کھڑا ہونا یا سیدھا بیٹھنے کا اہتمام نہ کرے، اس کی نماز نہیں ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں معنوں میں کوئی تضاد نہیں۔ ضیاع صلوٰۃ کا عمل آداب صلوٰۃ کے چھوٹنے سے شروع ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص لاپرواہی سے نماز پڑھتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر سے حقیقتِ صلوٰۃ نکل چکی ہے۔ پھر یہ لاپرواہی رفتہ رفتہ نماز کی پابندی کو ختم کرنے کا ذریعہ بنتی ہے اور پھر آخر ایک وقت آتا ہے جب نماز بالکل چھوٹ جاتی ہے۔ جب تک نماز کی عادت رہتی ہے تو نماز کے چھوٹ جانے سے ایک انقباض سا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن چند دفعہ نماز چھوٹنے سے انقباض بھی ختم ہوجاتا ہے۔ تو نماز جو ارکانِ صلوٰۃ میں بہت اہمیت کا حامل رکن ہے، جب وہ چھوٹ جاتا ہے تو دین کے باقی احکام بھی قدر و قیمت کھو دیتے ہیں۔ اسی لیے حضرت عمرفاروق ( رض) نے ایک موقع پر اپنے سب عمال حکومت کو ایک ہدایت نامہ جاری کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ ان اہم امرکم عندی الصلوٰۃ، فمن ضیعھا فھو لماسواھا اضیع ” میرے نزدیک تمہارے سب کاموں میں سب سے زیادہ اہم نماز ہے، تو جو شخص نماز کو ضائع کرتا ہے تو دوسرے تمام احکامِ دین کو بھی اور زیادہ ضائع کرے گا۔ “ نماز چونکہ اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے اور یاد رکھنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ تو جب ایسا ذریعہ زندگی سے نکل جاتا ہے تو پھر شہوات کے حملوں کو روکنے کے لیے کوئی مانع باقی نہیں رہتا۔ تو پھر ایک شخص مومن ہوتے ہوئے بھی شہوات کا پیروکار ہو کے رہ جاتا ہے۔ غَیًّاکا مفہوم فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا…اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جن لوگوں نے نماز کو چھوڑ دیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شہوات کے راستے پر چل پڑے تو بالآخر تم دیکھو گے کہ وہ گمراہی کا شکار ہوجائیں گے۔ اب ان کی زندگیوں میں خیر کے سوتے خشک ہوجائیں گے اور گمراہی کا سرطان پھیلتا چلا جائے گا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہاں گمراہی سے مراد گمراہی پر ملنے والی سزا ہے یا گمراہی کا انجام ہے۔ دنیا میں اس کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں اور آخرت میں اس کا انجام جہنم ہے۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) نے فرمایا کہ غَیٌّ جہنم کی ایک غار کا نام ہے جس سے جہنم بھی پناہ مانگتی ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے اس زنا کار کے لیے تیار کیا ہے کہ جو اپنی زنا کاری پر اصرار کرتا ہے، اور اس شراب پینے والے کے لیے ہے جو شراب کا عادی ہے اور کسی قیمت پر شراب کو چھوڑنا نہیں چاہتا، اور اس سود خور کے لیے ہے جو سودخوری سے باز نہیں آتا، اور ان لوگوں کے لیے ہے جو ماں باپ کی نافرمانی کرتے ہیں، اور جھوٹی شہادت دینے والوں کے لیے اور اس عورت کے لیے جو دوسرے کے بچہ کو اپنے شوہر کا بچہ بنا دے۔ (قرطبی)
Top