Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ
: بیشک
الَّذِينَ
: جن لوگوں نے
کَفَرُوا
: کفر کیا
سَوَاءٌ
: برابر
عَلَيْهِمْ
: ان پر
أَ أَنْذَرْتَهُمْ
: خواہ آپ انہیں ڈرائیں
أَمْ لَمْ
: یا نہ
تُنْذِرْهُمْ
: ڈرائیں انہیں
لَا يُؤْمِنُونَ
: ایمان نہ لائیں گے
جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے یکساں ہے ڈرائو یا نہ ڈرائو۔ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاسَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْ ھُمْ لَایُؤْمِنُوْنَ ۔ خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْط وَعَلٰٓی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ ز وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ (البقرۃ : 6 تا 7) (جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے یکساں ہے ڈرائو یا نہ ڈرائو۔ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے ) انسانوں میں کوئی تفریق نہیں سوائے ایمان اور کفر کے اسلامی تعلیمات کے مطابق تمام انسان ایک وحدت میں شریک ہیں۔ جس کی بنیاد وحدت رب اور وحدت اب ہے یعنی ان کا رب بھی ایک ہے اور ان کا باپ (حضرت آدم۔ ) بھی ایک ہے۔ اس لحاظ سے انسانوں میں کوئی تقسیم نہیں کوئی انسان کسی جغرافیائی علاقے سے تعلق رکھتاہو، رنگ اس کا کوئی سا بھی ہو، وہ تعلیم یافتہ ہو یا جاہل، دولت مند ہو یا نان شبینہ کا محتاج، انسان ہونے کے اعتبار سے وہ اسی زنجیر کی ایک کڑی ہے جسے ہم نوع انسانی کہتے ہیں۔ انسانی حقوق میں رنگ و نسل اور جغرافیہ کے حوالے سے کوئی فرق نہیں۔ جو حقوق ابوبکر وعمر ( رض) کو خالص عرب ہونے کے لحاظ سے حاصل ہیں وہی حقوق بلال حبشی، صہیب رومی، حسن بصری اور سلمان فارسی کو حاصل ہیں۔ البتہ ایک تقسیم ہے، جس کا اسلام قائل ہے اور وہ اس تقسیم پر اصرار بھی کرتا ہے اور اس کے علاوہ ہر تقسیم کو قبول کرنے سے یکسر انکار کرتا ہے۔ وہ تقسیم ہے، مومن اور کافر کی۔ چونکہ یہ کائنات اللہ کی ملکیت ہے، اس زمین اور اس پر بسنے والوں پر اللہ کی حاکمیت ہے اس حاکم کی مخلوقات میں جن وانس کو مکلف مخلوق بنایا گیا ہے۔ کسی انسان اور کسی جن کو انسان اور جن ہونے کے لحاظ سے تو کسی پر کوئی برتری نہیں، البتہ ان میں اگر کوئی فرق ہوسکتا ہے تو وہ ان کے حاکم حقیقی کے اعتبار سے ہوسکتا ہے۔ جس طرح کسی ملک میں رہنے والے شہری، اس وقت تک سب برابر ہیں۔ جب تک وہ اس ملک کے اقتدار کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن جب ان میں سے کوئی اس ملک کی مقتدرذات کا انکار کردیتا ہے، تو وہ فوراً دوسروں سے الگ ہوجاتا ہے۔ ملک کا قانون حرکت میں آتا ہے اور اب انکار کرنے والے کے ساتھ بالکل مختلف سلوک ہوتا ہے۔ یہی حال اس زمین پر بسنے والوں کا بھی ہے کہ ان میں سے جو لوگ اللہ کی حاکمیت کو اور اس کے دیئے ہوئے قانون کو تسلیم کرکے مومن بن جاتے ہیں۔ تو وہ اللہ کے پسندیدہ بندے ٹھہرتے ہیں اور جو اسے ماننے یا اس کے قانون کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں، تو انہیں منکر اور باغی قرار دے کر اپنے پسندیدہ اور فرماں بردار بندوں سے الگ کردیا جاتا ہے۔ پیش نظر آیات میں اسی بنیادی حقیقت کے اعتبار سے انسانوں کی تقسیم کی گئی ہے۔ پہلی چار آیتوں میں، ان انسانوں کا ذکر کیا گیا ہے، جو اللہ کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور دنیوی اور اخروی کامیابیاں جن کا مقدر ہیں۔ اور ان آیات میں ان لوگوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جو اللہ کے ناپسندیدہ بندے ہیں۔ وہ اپنی محنت اور صلاحیت سے دنیا میں بظاہر کیسی ہی کامیابی حاصل کرلیں، لیکن آخر کار وہ اللہ کی طرف سے عذاب عظیم کا شکار ہوں گے۔ پیش نظر دو آیتوں میں ان نا مقبول بندوں کی ایک حالت یا ایک قسم کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے بعد مسلسل تیرہ آیات میں انہی نامقبول بندوں میں سے دوسری قسم کے لوگوں کے حالات اور خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے ایک قاری کو مسلسل اپنی حالت پر نظر رکھنی چاہیے کہ اللہ کے مقبول بندوں کی جو پانچ بنیادی صفات بیان کی گئی ہیں، کیا یہ صفات میرے اندر ہیں یان ہیں اور اگر اس اعتبار سے کوئی کمی محسوس ہو تو فوراً اس کے ازالے کے لیے فکر مند ہونا چاہیے اور پھر نامقبول بندوں کی دونوں قسموں کو، جس طرح پندرہ آیات میں بیان کیا گیا ہے، اسے پڑھتے ہوئے مسلسل اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ان میں سے کوئی خرابی میرے اندر تو موجود نہیں اور اگر کسی ایسی بری صفت کا اپنے اندر شبہ بھی ہو تو اسے دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح اپنی حالت کے ساتھ ساتھ امت کی حالت کا جائزہ بھی لیتے رہنا چاہیے کہ قرآن کریم کے بیان کردہ اس معیار کے حوالے سے امت کہاں کھڑی ہے اور اس لحاظ سے مجھ پر کیا ذمہ داریاں ہیں، کیونکہ قیامت کے دن جس طرح آدمی ذاتی زندگی کے بارے میں مسئول اور ماخوذ ہوگا اسی طرح اپنے گردو پیش، اپنے زیر اثر اور اپنے دائرہ کار کے بارے میں بھی اسے جواب دہی کرنا پڑے گی۔ کفر کا معنی اور مفہوم اب ہم پیش نظر آیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے الفاظ کو دیکھئے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا (بےشک جن لوگوں نے کفر کیا “ کفر کے اصل معنی ڈھانکنے اور چھپانے کے ہیں۔ قرآن کریم نے اسے دو طرح استعمال کیا ہے۔ کبھی شکر کی ضد کی حیثیت سے اور کبھی ایمان کی ضد کی حیثیت سے۔ اگر شکر کی ضد کی حیثیت سے استعمال ہو تو پھر اس کا معنی ہوتا ہے ناشکری، مثلاً : لَئِنْ شَکَرْتُمْ لاَ زِیْدَنَّـکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد (اگر تم شکر کروگے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر کفر یعنی ناشکری کروگے تو میرا عذاب بڑا شدید ہے) ۔ یہاں دیکھئے کفر ناشکری کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اگر ایمان کی ضد کی حیثیت سے استعمال ہوا تو پھر اس کا معنی ہے انکار کرنا اور کفر کرنا۔ جیسے فَمِنْکُمْ کَافِرُوَمِنْکُمْ مُؤْمِنْ (تم میں سے کافر بھی ہیں اور مومن بھی “۔ یعنی ایمان لانے والے بھی اور انکار کرنے والے بھی تو یہاں کفر انکار کرنے کے معنی میں آیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کبھی یہ لفظ مطلق، یعنی بغیر مفعول کے استعمال ہوا ہے اور کبھی مفعول کے ساتھ۔ جہاں مفعول کے ساتھ استعمال ہوا ہے وہاں تو متعین طور پر اس مفعول ہی کا کفر و انکار مراد ہوگا۔ لیکن جہاں کہیں کسی مفعول کے بغیر مطلق صورت میں استعمال ہوا ہے، وہاں بالعموم ان تمام ضروریات دین کے انکار کے معنی میں استعمال ہوا ہے جن پر ایمان لانا ضروری ہے۔ سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُم ! سَوَآئٌ۔ فَعَالٌ کے وزن پر ہے۔ اس کے بنیادی معنی تو ہیں، برابری یا برابر ہونا۔ پھر یہ مصدر اسم فاعل کے معنی میں یعنی برابر ہونے والا، بطور صفت یاظرف استعمال ہوتا ہے۔ اور اس طرح اس میں ” برابر، درمیان، ٹھیک درمیان، یکساں، وسط یا مثل “ کے معنی پیدا ہوتے ہیں، مثلاً ثَوْبٌ سَوَائٌ۔ ایسا کپڑا جس کا طول وعرض برابر ہو۔ یا سَوَائُ النَّہَار۔” دن کا ٹھیک درمیان یعنی دوپہر “۔ لفظ سوائٌ مصدر ہونے کی بناء پر واحد تثنیہ جمع اور مذکر مونث سب کے لیے یکساں رہتا ہے۔ سوائٌ علیھم کا معنی ہوگا، برابر ہے ان پر یا یکساں ہے ان پر یا یکساں ہے ان کے حق میں۔ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ ۔ ہمزہ استفہامیہ ہے۔ اور اس کے معنی ہوتے ہیں ” کیا “۔ لیکن جب اس کا استعمال سوائٌ کے ساتھ ہوتا ہے، تو پھر اس ہمزہ کو ہمزۃ التسویہ کہتے ہیں۔ اس صورت میں ہمزہ کا معنی کیا نہیں ہوتا، بلکہ خواہ یا چاہے کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اردو میں اسی چاہے یا خواہ کی تکرار ہوتی ہے۔ یا اس تکرار کی بجائے درمیان میں ایک یا استعمال کرتے ہیں۔ مگر عربی میں دوسرے خواہ یا چاہے کے لیے ” اَم “ لے آتے ہیں۔ جیسے آیت کے اس جملے میں ہے۔ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمکا معنی ہوگا۔” آپ چاہے انھیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں “۔ یعنی انھیں ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے۔ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ الفاظ کی اس وضاحت کے بعد ہم آیت کے مفہوم اور مراد پر غور کرتے ہیں۔ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سے کون مراد ہیں اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاسے بظاہر اندازہ نہیں ہوتا کہ اس سے کون لوگ مراد ہیں۔ کیونکہ یہاں کفروا کا لفظ مطلق استعمال ہوا ہے۔ لیکن اس کے بعد ان لوگوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں سارے کافر مراد نہیں بلکہ اس سے کوئی خاص گروہ مراد ہے۔ ان کی پہلی صفت یہ بیان ہوئی ہے۔ کہ انھیں ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے وہ کسی صورت میں بھی ایمان لانے والے نہیں اور دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کردی گئی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے گئے ہیں۔ ان صفات کو دیکھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ حال سارے کافروں کا نہ تھا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت تمام لوگ کافر تھے۔ لیکن آپ ﷺ کی تبلیغ و دعوت کے نتیجے میں رفتہ رفتہ ہزاروں لوگ مسلمان ہوئے۔ اگر اس آیت سے سارے کافر مراد ہوتے تو پھر کسی کو بھی مسلمان نہیں ہونا چاہیے تھا اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے وہ کافر مراد ہیں جنھوں نے اپنے دل و دماغ کے دروازے آنحضرت ﷺ کی تبلیغ و دعوت کے لیے بند کردئیے تھے۔ وہ آپ ﷺ کی کسی بات کے سننے کے روادار نہ تھے۔ اس کی نہائت نمایاں مثال دیکھنی ہو تو طائف کے سرداروں کا حال پڑھ لیجئے۔ جن کے پاس حضور ﷺ اسلام کی دعوت لے کر گئے تھے۔ انھوں نے کس طرح آپ ﷺ کی بات سننے سے انکار کیا۔ اہل کتاب کا حال تو اور بھی زیادہ برا تھا، کہ وہ آپ ﷺ کی ذات، آپ ﷺ کی دعوت اور آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب کو اپنی کتابوں میں بیان کردہ علامتوں کے باعث اچھی طرح پہچانتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایمان لانے کے لیے کسی طرح تیار نہ تھے۔ آنحضرت ﷺ کی ایک زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت صفیہ ( رض) بنو نضیر کے سردار کی بیٹی تھیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو میرے والد اور چچا، آپ ﷺ سے ملنے کے لیے گئے۔ آپ ﷺ سے ملاقات کے بعد جب لوٹ کے گھر آئے تو چچا نے بڑے بھائی سے پوچھا کہ آپ کا ان صاحب کے بارے میں کیا خیال ہے۔ اس نے کہا کہ یہ یقینا وہی پیغمبر ہے جس کا ذکر ہماری کتابوں میں ہے۔ چھوٹے بھائی نے پوچھا کہ تو پھر کیا ارادہ ہے، جواب ملا کہ جب تک جان میں جان ہے اس کی بات چلنے نہیں دوں گا۔ سردارانِ قریش کا حال بھی اس سے مختلف نہ تھا ان میں بیشتر لوگ آپ ﷺ کی دعوت کو سچا سمجھتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ ﷺ نے کبھی زندگی بھر جھوٹ نہیں بولا۔ آپ ﷺ کی پاکیزہ زندگی کا ایک ایک لمحہ آپ ﷺ کی سچائی کی گواہی دیتا تھا۔ باایں ہمہ وہ ایمان لانے کے لیے ہرگز تیار نہ تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب ہوں یا عمائدین قریش یا مدینہ کے منافقین کے رئیس یہ تمام لوگ اس آیت کا مصداق ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) نے اس کا مصداق اہل کتاب کے ان ہٹ دھرم لوگوں کو ٹھہرایا ہے، جو ان تمام پیشگوئیوں کو جھٹلاچکے تھے، جو نبی کریم ﷺ کے بارے میں ان کے صحیفوں میں موجود تھیں۔ اور حضرت ربیع بن انس ( رض) کے نزدیک اس سے ان مختلف پارٹیوں کے لیڈر مراد ہیں، جو اسلام کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ مقصود دونوں کا ایک ہی ہے۔ البتہ حضرت ربیع بن انس کی بات زیادہ جامع معلوم ہوتی ہے اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ لوگ آنحضرت ﷺ کی صداقت کو پہچان چکے تھے اور آپ ﷺ کی حقانیت کے دل سے معترف تھے تو پھر آخر انکار میں وہ اتنے شدید کیوں تھے ؟ دوسری آیت کریمہ میں (خَتَمَ ) کے لفظ سے اس کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ لیکن اس کی وضاحت کرنے سے پہلے ہم ایک اور بات کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں آپ نے یہ لفظ پڑھا ہے ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْ ھُم کہ آپ انھیں انذار کریں یا نہ کریں، یہ انذار کیا ہے ؟ کیونکہ اس سے بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوتی ہے۔ انذارکا مفہوم حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کے اسلوبِ تبلیغ و دعوت میں تین باتیں نمایاں ہیں۔ کہیں تو وہ اپنا نقطہ نگاہ سمجھانے کے لیے دلائل سے کام لیتا ہے۔ کبھی آفاقی دلائل پیش کرتا ہے اور کبھی انفسی دلائل اور کبھی کبھی مخاطب کے مسلمات کو دلیل بناتا ہے اور کہیں جب اولوالباب کو خطاب کرتا ہے۔ تو عقلی اور فطری مقدمات سے بھی کام لیتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی دعوت کا زیادہ زور تبشیر اور انذار کی صورت اختیار کرتا ہے۔ یعنی کبھی وہ دلوں کو مائل کرنے کے لیے یہ کہتا ہے کہ اگر تم میری دعوت کو قبول کرلو اور اس صراط مستقیم پر چلنا شروع کردو جو تمہارے لیے قرآن کریم نے کھولی ہے۔ تو میں تمہیں دنیوی واخروی کامیابیوں کی بشارت دیتا ہوں۔ تمہاری انفرادی اور اجتماعی زندگی اس طرح آسودگی سے گزرے گی کہ کوئی پریشانی تمہارے عیش کو مکدر نہیں کرسکے گی۔ اس راستے پر چلنے والوں کے لیے کانٹے بھی پھول بن جاتے ہیں اور اس راہ میں آنے والی مشکلات اخروی کامیابیوں کی ضمانت بن جاتی ہیں۔ گھرسکون کی جگہ اور معاشرہ اجتماعی حصار کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ حکمران اللہ کا سایہ بن جاتے ہیں اور اگر تم اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرو تو میں تمہیں تمہارے انجام سے ڈراتا ہوں۔ میں تمہیں باخبر کرتا ہوں ان خطرات ومہالک سے جن سے تمہیں یقینا واسطہ پڑے گا۔ دنیا تمہاری محرومیوں کا مرقع بن جائے گی اور آخرت کا ہولناک عذاب تمہارا مقدر ٹھہرے گا۔ قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کا یہ سہ گونہ اسلوبِ تبلیغ موقع کی مناسبت سے اختیار کیا جاتا ہے۔ جو طبیعتیں تبشیر سے متأثر ہوتی ہیں انھیں بشارتیں سنائی جاتی ہیں اور جن طبیعتوں کو دلائل سے زیادہ مناسبت ہو وہاں ضرورت کے مطابق متنوع دلائل سے کام لیا جاتا ہے۔ لیکن جو طبیعتیں ہٹ دھرم اور اکھڑ ہوں، اور جن پر ملائم بات اثر نہ کرتی ہو۔ انھیں آنے والے خطرات ومہالک سے آگاہ کرکے انذار کیا جاتا ہے۔ یعنی انھیں ڈرایا جاتا ہے کہ اگر تم راہ راست اختیار نہیں کروگے تو پھر تمہیں ایسے ایسے خوفناک انجام سے واسطہ پڑیگا۔ اس آیت سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ مخاطب وہ لوگ ہیں جو اسلام کا نام سننے کے بھی روادار نہیں اور وہ آنحضرت ﷺ کی دعوت کے لیے دلوں میں معمولی نرم گوشہ بھی نہیں رکھتے۔ ایسے مخاطب لوگوں کے لیے نہ دلائل کام دیتے ہیں نہ بشارتیں سنانا۔ ان کے لیے تو ضروری ہے کہ دعوت کا وہ اسلوب اختیار کیا جائے، جس سے دلوں کی دنیا تہ وبالا ہوجائے اگر ان میں حق کو قبول کرنے کی معمولی صلاحیت بھی ہوگی تو وہ یقینا اس انذار سے فکر مند ہو کر ہدایت کی طرف متوجہ ہوں گے۔ اور مزید یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ یا تو ترغیب سے کسی ذمہ داری کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے اور یا ترہیب اس کا راستہ بدلتی ہے۔ اور پیغمبر کا ترہیب وانذار محض مفروضوں یاذ ہنی مقدمات پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ وہ پورے یقین کے ساتھ لوگوں سے یہ بات کہتا ہے، کہ لوگو ! جس طرح تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ سنکھیا کھانے سے موت واقع ہوجاتی ہے اور آگ میں ہاتھ ڈالنے سے ہاتھ جل جاتا ہے۔ میں تمہیں اس سے بڑھ کر یقین دلاتا ہوں کہ کفر اور شرک کی زندگی تمہاری دنیا اور آخرت کے لیے اس سے زیادہ تباہ کن ہے۔ تم جسم کی موت کو تو آنکھوں سے دیکھتے ہو لیکن اخلاقی اور روحانی زندگی کی موت تمہیں دکھائی نہیں دیتی حالانکہ وہ موت اس سے زیادہ سنگین ہے اور پھر پیغمبر کا لفظ لفظ چونکہ اس کے دل سے نکلتا ہے اور اس کی ذاتی زندگی ان حقائق کی عکاس ہوتی ہے اس لحاظ سے یہ انذار قلوب کی حالت کو بدل دیتا ہے۔ لیکن جن پر یہ بھی اثر نہ کرے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے قانونِ ختم کی زد میں آچکے ہیں۔
Top