Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے یکساں ہے ڈرائو یا نہ ڈرائو۔ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔
اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاسَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْ ھُمْ لَایُؤْمِنُوْنَ ۔ خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ وَعَلٰی سَمْعِھِمْط وَعَلٰٓی اَبْصَارِھِمْ غِشَاوَۃٌ ز وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۔ (البقرۃ : 6 تا 7) (جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے یکساں ہے ڈرائو یا نہ ڈرائو۔ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں۔ اللہ نے ان کے دلوں پر اور کانوں پر مہر لگادی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لیے عذاب عظیم ہے ) انسانوں میں کوئی تفریق نہیں سوائے ایمان اور کفر کے اسلامی تعلیمات کے مطابق تمام انسان ایک وحدت میں شریک ہیں۔ جس کی بنیاد وحدت رب اور وحدت اب ہے یعنی ان کا رب بھی ایک ہے اور ان کا باپ (حضرت آدم۔ ) بھی ایک ہے۔ اس لحاظ سے انسانوں میں کوئی تقسیم نہیں کوئی انسان کسی جغرافیائی علاقے سے تعلق رکھتاہو، رنگ اس کا کوئی سا بھی ہو، وہ تعلیم یافتہ ہو یا جاہل، دولت مند ہو یا نان شبینہ کا محتاج، انسان ہونے کے اعتبار سے وہ اسی زنجیر کی ایک کڑی ہے جسے ہم نوع انسانی کہتے ہیں۔ انسانی حقوق میں رنگ و نسل اور جغرافیہ کے حوالے سے کوئی فرق نہیں۔ جو حقوق ابوبکر وعمر ( رض) کو خالص عرب ہونے کے لحاظ سے حاصل ہیں وہی حقوق بلال حبشی، صہیب رومی، حسن بصری اور سلمان فارسی کو حاصل ہیں۔ البتہ ایک تقسیم ہے، جس کا اسلام قائل ہے اور وہ اس تقسیم پر اصرار بھی کرتا ہے اور اس کے علاوہ ہر تقسیم کو قبول کرنے سے یکسر انکار کرتا ہے۔ وہ تقسیم ہے، مومن اور کافر کی۔ چونکہ یہ کائنات اللہ کی ملکیت ہے، اس زمین اور اس پر بسنے والوں پر اللہ کی حاکمیت ہے اس حاکم کی مخلوقات میں جن وانس کو مکلف مخلوق بنایا گیا ہے۔ کسی انسان اور کسی جن کو انسان اور جن ہونے کے لحاظ سے تو کسی پر کوئی برتری نہیں، البتہ ان میں اگر کوئی فرق ہوسکتا ہے تو وہ ان کے حاکم حقیقی کے اعتبار سے ہوسکتا ہے۔ جس طرح کسی ملک میں رہنے والے شہری، اس وقت تک سب برابر ہیں۔ جب تک وہ اس ملک کے اقتدار کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن جب ان میں سے کوئی اس ملک کی مقتدرذات کا انکار کردیتا ہے، تو وہ فوراً دوسروں سے الگ ہوجاتا ہے۔ ملک کا قانون حرکت میں آتا ہے اور اب انکار کرنے والے کے ساتھ بالکل مختلف سلوک ہوتا ہے۔ یہی حال اس زمین پر بسنے والوں کا بھی ہے کہ ان میں سے جو لوگ اللہ کی حاکمیت کو اور اس کے دیئے ہوئے قانون کو تسلیم کرکے مومن بن جاتے ہیں۔ تو وہ اللہ کے پسندیدہ بندے ٹھہرتے ہیں اور جو اسے ماننے یا اس کے قانون کو ماننے سے انکار کردیتے ہیں، تو انہیں منکر اور باغی قرار دے کر اپنے پسندیدہ اور فرماں بردار بندوں سے الگ کردیا جاتا ہے۔ پیش نظر آیات میں اسی بنیادی حقیقت کے اعتبار سے انسانوں کی تقسیم کی گئی ہے۔ پہلی چار آیتوں میں، ان انسانوں کا ذکر کیا گیا ہے، جو اللہ کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور دنیوی اور اخروی کامیابیاں جن کا مقدر ہیں۔ اور ان آیات میں ان لوگوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جو اللہ کے ناپسندیدہ بندے ہیں۔ وہ اپنی محنت اور صلاحیت سے دنیا میں بظاہر کیسی ہی کامیابی حاصل کرلیں، لیکن آخر کار وہ اللہ کی طرف سے عذاب عظیم کا شکار ہوں گے۔ پیش نظر دو آیتوں میں ان نا مقبول بندوں کی ایک حالت یا ایک قسم کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کے بعد مسلسل تیرہ آیات میں انہی نامقبول بندوں میں سے دوسری قسم کے لوگوں کے حالات اور خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے ایک قاری کو مسلسل اپنی حالت پر نظر رکھنی چاہیے کہ اللہ کے مقبول بندوں کی جو پانچ بنیادی صفات بیان کی گئی ہیں، کیا یہ صفات میرے اندر ہیں یان ہیں اور اگر اس اعتبار سے کوئی کمی محسوس ہو تو فوراً اس کے ازالے کے لیے فکر مند ہونا چاہیے اور پھر نامقبول بندوں کی دونوں قسموں کو، جس طرح پندرہ آیات میں بیان کیا گیا ہے، اسے پڑھتے ہوئے مسلسل اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ کیا ان میں سے کوئی خرابی میرے اندر تو موجود نہیں اور اگر کسی ایسی بری صفت کا اپنے اندر شبہ بھی ہو تو اسے دور کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے۔ اسی طرح اپنی حالت کے ساتھ ساتھ امت کی حالت کا جائزہ بھی لیتے رہنا چاہیے کہ قرآن کریم کے بیان کردہ اس معیار کے حوالے سے امت کہاں کھڑی ہے اور اس لحاظ سے مجھ پر کیا ذمہ داریاں ہیں، کیونکہ قیامت کے دن جس طرح آدمی ذاتی زندگی کے بارے میں مسئول اور ماخوذ ہوگا اسی طرح اپنے گردو پیش، اپنے زیر اثر اور اپنے دائرہ کار کے بارے میں بھی اسے جواب دہی کرنا پڑے گی۔ کفر کا معنی اور مفہوم اب ہم پیش نظر آیات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے الفاظ کو دیکھئے۔ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا (بےشک جن لوگوں نے کفر کیا “ کفر کے اصل معنی ڈھانکنے اور چھپانے کے ہیں۔ قرآن کریم نے اسے دو طرح استعمال کیا ہے۔ کبھی شکر کی ضد کی حیثیت سے اور کبھی ایمان کی ضد کی حیثیت سے۔ اگر شکر کی ضد کی حیثیت سے استعمال ہو تو پھر اس کا معنی ہوتا ہے ناشکری، مثلاً : لَئِنْ شَکَرْتُمْ لاَ زِیْدَنَّـکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد (اگر تم شکر کروگے تو میں تمہیں زیادہ دوں گا اور اگر کفر یعنی ناشکری کروگے تو میرا عذاب بڑا شدید ہے) ۔ یہاں دیکھئے کفر ناشکری کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور اگر ایمان کی ضد کی حیثیت سے استعمال ہوا تو پھر اس کا معنی ہے انکار کرنا اور کفر کرنا۔ جیسے فَمِنْکُمْ کَافِرُوَمِنْکُمْ مُؤْمِنْ (تم میں سے کافر بھی ہیں اور مومن بھی “۔ یعنی ایمان لانے والے بھی اور انکار کرنے والے بھی تو یہاں کفر انکار کرنے کے معنی میں آیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کبھی یہ لفظ مطلق، یعنی بغیر مفعول کے استعمال ہوا ہے اور کبھی مفعول کے ساتھ۔ جہاں مفعول کے ساتھ استعمال ہوا ہے وہاں تو متعین طور پر اس مفعول ہی کا کفر و انکار مراد ہوگا۔ لیکن جہاں کہیں کسی مفعول کے بغیر مطلق صورت میں استعمال ہوا ہے، وہاں بالعموم ان تمام ضروریات دین کے انکار کے معنی میں استعمال ہوا ہے جن پر ایمان لانا ضروری ہے۔ سَوَآئٌ عَلَیْھِمْ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُم ! سَوَآئٌ۔ فَعَالٌ کے وزن پر ہے۔ اس کے بنیادی معنی تو ہیں، برابری یا برابر ہونا۔ پھر یہ مصدر اسم فاعل کے معنی میں یعنی برابر ہونے والا، بطور صفت یاظرف استعمال ہوتا ہے۔ اور اس طرح اس میں ” برابر، درمیان، ٹھیک درمیان، یکساں، وسط یا مثل “ کے معنی پیدا ہوتے ہیں، مثلاً ثَوْبٌ سَوَائٌ۔ ایسا کپڑا جس کا طول وعرض برابر ہو۔ یا سَوَائُ النَّہَار۔” دن کا ٹھیک درمیان یعنی دوپہر “۔ لفظ سوائٌ مصدر ہونے کی بناء پر واحد تثنیہ جمع اور مذکر مونث سب کے لیے یکساں رہتا ہے۔ سوائٌ علیھم کا معنی ہوگا، برابر ہے ان پر یا یکساں ہے ان پر یا یکساں ہے ان کے حق میں۔ ئَ اَنْذَرْتَھُمْ ۔ ہمزہ استفہامیہ ہے۔ اور اس کے معنی ہوتے ہیں ” کیا “۔ لیکن جب اس کا استعمال سوائٌ کے ساتھ ہوتا ہے، تو پھر اس ہمزہ کو ہمزۃ التسویہ کہتے ہیں۔ اس صورت میں ہمزہ کا معنی کیا نہیں ہوتا، بلکہ خواہ یا چاہے کے ساتھ کیا جاتا ہے اور اردو میں اسی چاہے یا خواہ کی تکرار ہوتی ہے۔ یا اس تکرار کی بجائے درمیان میں ایک یا استعمال کرتے ہیں۔ مگر عربی میں دوسرے خواہ یا چاہے کے لیے ” اَم “ لے آتے ہیں۔ جیسے آیت کے اس جملے میں ہے۔ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمکا معنی ہوگا۔” آپ چاہے انھیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں “۔ یعنی انھیں ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے۔ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ الفاظ کی اس وضاحت کے بعد ہم آیت کے مفہوم اور مراد پر غور کرتے ہیں۔ اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سے کون مراد ہیں اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْاسے بظاہر اندازہ نہیں ہوتا کہ اس سے کون لوگ مراد ہیں۔ کیونکہ یہاں کفروا کا لفظ مطلق استعمال ہوا ہے۔ لیکن اس کے بعد ان لوگوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں سارے کافر مراد نہیں بلکہ اس سے کوئی خاص گروہ مراد ہے۔ ان کی پہلی صفت یہ بیان ہوئی ہے۔ کہ انھیں ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے وہ کسی صورت میں بھی ایمان لانے والے نہیں اور دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کردی گئی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردے ڈال دیئے گئے ہیں۔ ان صفات کو دیکھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ حال سارے کافروں کا نہ تھا کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت تمام لوگ کافر تھے۔ لیکن آپ ﷺ کی تبلیغ و دعوت کے نتیجے میں رفتہ رفتہ ہزاروں لوگ مسلمان ہوئے۔ اگر اس آیت سے سارے کافر مراد ہوتے تو پھر کسی کو بھی مسلمان نہیں ہونا چاہیے تھا اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے وہ کافر مراد ہیں جنھوں نے اپنے دل و دماغ کے دروازے آنحضرت ﷺ کی تبلیغ و دعوت کے لیے بند کردئیے تھے۔ وہ آپ ﷺ کی کسی بات کے سننے کے روادار نہ تھے۔ اس کی نہائت نمایاں مثال دیکھنی ہو تو طائف کے سرداروں کا حال پڑھ لیجئے۔ جن کے پاس حضور ﷺ اسلام کی دعوت لے کر گئے تھے۔ انھوں نے کس طرح آپ ﷺ کی بات سننے سے انکار کیا۔ اہل کتاب کا حال تو اور بھی زیادہ برا تھا، کہ وہ آپ ﷺ کی ذات، آپ ﷺ کی دعوت اور آپ ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب کو اپنی کتابوں میں بیان کردہ علامتوں کے باعث اچھی طرح پہچانتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود وہ ایمان لانے کے لیے کسی طرح تیار نہ تھے۔ آنحضرت ﷺ کی ایک زوجہ محترمہ ام المومنین حضرت صفیہ ( رض) بنو نضیر کے سردار کی بیٹی تھیں۔ وہ فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو میرے والد اور چچا، آپ ﷺ سے ملنے کے لیے گئے۔ آپ ﷺ سے ملاقات کے بعد جب لوٹ کے گھر آئے تو چچا نے بڑے بھائی سے پوچھا کہ آپ کا ان صاحب کے بارے میں کیا خیال ہے۔ اس نے کہا کہ یہ یقینا وہی پیغمبر ہے جس کا ذکر ہماری کتابوں میں ہے۔ چھوٹے بھائی نے پوچھا کہ تو پھر کیا ارادہ ہے، جواب ملا کہ جب تک جان میں جان ہے اس کی بات چلنے نہیں دوں گا۔ سردارانِ قریش کا حال بھی اس سے مختلف نہ تھا ان میں بیشتر لوگ آپ ﷺ کی دعوت کو سچا سمجھتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ آپ ﷺ نے کبھی زندگی بھر جھوٹ نہیں بولا۔ آپ ﷺ کی پاکیزہ زندگی کا ایک ایک لمحہ آپ ﷺ کی سچائی کی گواہی دیتا تھا۔ باایں ہمہ وہ ایمان لانے کے لیے ہرگز تیار نہ تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل کتاب ہوں یا عمائدین قریش یا مدینہ کے منافقین کے رئیس یہ تمام لوگ اس آیت کا مصداق ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) نے اس کا مصداق اہل کتاب کے ان ہٹ دھرم لوگوں کو ٹھہرایا ہے، جو ان تمام پیشگوئیوں کو جھٹلاچکے تھے، جو نبی کریم ﷺ کے بارے میں ان کے صحیفوں میں موجود تھیں۔ اور حضرت ربیع بن انس ( رض) کے نزدیک اس سے ان مختلف پارٹیوں کے لیڈر مراد ہیں، جو اسلام کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔ مقصود دونوں کا ایک ہی ہے۔ البتہ حضرت ربیع بن انس کی بات زیادہ جامع معلوم ہوتی ہے اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعی یہ لوگ آنحضرت ﷺ کی صداقت کو پہچان چکے تھے اور آپ ﷺ کی حقانیت کے دل سے معترف تھے تو پھر آخر انکار میں وہ اتنے شدید کیوں تھے ؟ دوسری آیت کریمہ میں (خَتَمَ ) کے لفظ سے اس کی وجہ بیان کی گئی ہے۔ لیکن اس کی وضاحت کرنے سے پہلے ہم ایک اور بات کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں۔ وہ یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں آپ نے یہ لفظ پڑھا ہے ئَ اَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْ ھُم کہ آپ انھیں انذار کریں یا نہ کریں، یہ انذار کیا ہے ؟ کیونکہ اس سے بعض لوگوں کو غلط فہمی ہوتی ہے۔ انذارکا مفہوم حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کے اسلوبِ تبلیغ و دعوت میں تین باتیں نمایاں ہیں۔ کہیں تو وہ اپنا نقطہ نگاہ سمجھانے کے لیے دلائل سے کام لیتا ہے۔ کبھی آفاقی دلائل پیش کرتا ہے اور کبھی انفسی دلائل اور کبھی کبھی مخاطب کے مسلمات کو دلیل بناتا ہے اور کہیں جب اولوالباب کو خطاب کرتا ہے۔ تو عقلی اور فطری مقدمات سے بھی کام لیتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کی دعوت کا زیادہ زور تبشیر اور انذار کی صورت اختیار کرتا ہے۔ یعنی کبھی وہ دلوں کو مائل کرنے کے لیے یہ کہتا ہے کہ اگر تم میری دعوت کو قبول کرلو اور اس صراط مستقیم پر چلنا شروع کردو جو تمہارے لیے قرآن کریم نے کھولی ہے۔ تو میں تمہیں دنیوی واخروی کامیابیوں کی بشارت دیتا ہوں۔ تمہاری انفرادی اور اجتماعی زندگی اس طرح آسودگی سے گزرے گی کہ کوئی پریشانی تمہارے عیش کو مکدر نہیں کرسکے گی۔ اس راستے پر چلنے والوں کے لیے کانٹے بھی پھول بن جاتے ہیں اور اس راہ میں آنے والی مشکلات اخروی کامیابیوں کی ضمانت بن جاتی ہیں۔ گھرسکون کی جگہ اور معاشرہ اجتماعی حصار کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ حکمران اللہ کا سایہ بن جاتے ہیں اور اگر تم اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کرو تو میں تمہیں تمہارے انجام سے ڈراتا ہوں۔ میں تمہیں باخبر کرتا ہوں ان خطرات ومہالک سے جن سے تمہیں یقینا واسطہ پڑے گا۔ دنیا تمہاری محرومیوں کا مرقع بن جائے گی اور آخرت کا ہولناک عذاب تمہارا مقدر ٹھہرے گا۔ قرآن کریم اور رسول اللہ ﷺ کا یہ سہ گونہ اسلوبِ تبلیغ موقع کی مناسبت سے اختیار کیا جاتا ہے۔ جو طبیعتیں تبشیر سے متأثر ہوتی ہیں انھیں بشارتیں سنائی جاتی ہیں اور جن طبیعتوں کو دلائل سے زیادہ مناسبت ہو وہاں ضرورت کے مطابق متنوع دلائل سے کام لیا جاتا ہے۔ لیکن جو طبیعتیں ہٹ دھرم اور اکھڑ ہوں، اور جن پر ملائم بات اثر نہ کرتی ہو۔ انھیں آنے والے خطرات ومہالک سے آگاہ کرکے انذار کیا جاتا ہے۔ یعنی انھیں ڈرایا جاتا ہے کہ اگر تم راہ راست اختیار نہیں کروگے تو پھر تمہیں ایسے ایسے خوفناک انجام سے واسطہ پڑیگا۔ اس آیت سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ مخاطب وہ لوگ ہیں جو اسلام کا نام سننے کے بھی روادار نہیں اور وہ آنحضرت ﷺ کی دعوت کے لیے دلوں میں معمولی نرم گوشہ بھی نہیں رکھتے۔ ایسے مخاطب لوگوں کے لیے نہ دلائل کام دیتے ہیں نہ بشارتیں سنانا۔ ان کے لیے تو ضروری ہے کہ دعوت کا وہ اسلوب اختیار کیا جائے، جس سے دلوں کی دنیا تہ وبالا ہوجائے اگر ان میں حق کو قبول کرنے کی معمولی صلاحیت بھی ہوگی تو وہ یقینا اس انذار سے فکر مند ہو کر ہدایت کی طرف متوجہ ہوں گے۔ اور مزید یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ یا تو ترغیب سے کسی ذمہ داری کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے اور یا ترہیب اس کا راستہ بدلتی ہے۔ اور پیغمبر کا ترہیب وانذار محض مفروضوں یاذ ہنی مقدمات پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ وہ پورے یقین کے ساتھ لوگوں سے یہ بات کہتا ہے، کہ لوگو ! جس طرح تمہیں اس بات کا یقین ہے کہ سنکھیا کھانے سے موت واقع ہوجاتی ہے اور آگ میں ہاتھ ڈالنے سے ہاتھ جل جاتا ہے۔ میں تمہیں اس سے بڑھ کر یقین دلاتا ہوں کہ کفر اور شرک کی زندگی تمہاری دنیا اور آخرت کے لیے اس سے زیادہ تباہ کن ہے۔ تم جسم کی موت کو تو آنکھوں سے دیکھتے ہو لیکن اخلاقی اور روحانی زندگی کی موت تمہیں دکھائی نہیں دیتی حالانکہ وہ موت اس سے زیادہ سنگین ہے اور پھر پیغمبر کا لفظ لفظ چونکہ اس کے دل سے نکلتا ہے اور اس کی ذاتی زندگی ان حقائق کی عکاس ہوتی ہے اس لحاظ سے یہ انذار قلوب کی حالت کو بدل دیتا ہے۔ لیکن جن پر یہ بھی اثر نہ کرے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے قانونِ ختم کی زد میں آچکے ہیں۔
Top