Ruh-ul-Quran - Al-Insaan : 27
اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَ یَذَرُوْنَ وَرَآءَهُمْ یَوْمًا ثَقِیْلًا
اِنَّ : بیشک هٰٓؤُلَآءِ : یہ (منکر) لوگ يُحِبُّوْنَ : وہ دوست رکھتے ہیں الْعَاجِلَةَ : دنیا وَيَذَرُوْنَ : اور چھوڑدیتے ہیں وَرَآءَهُمْ : اپنے پیچھے يَوْمًا : ایک دن ثَقِيْلًا : بھاری
بیشک یہ لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز (دنیا) سے محبت رکھتے ہیں اور آگے جو بھاری دن آنے والا ہے اسے نظرانداز کردیتے ہیں
اِنَّ ھٰٓـؤُلَآئِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَـۃَ وَیَذَرُوْنَ وَرَآئَ ھُمْ یَوْمًا ثَقِیْلاً ۔ (الدہر : 27) (بیشک یہ لوگ جلدی حاصل ہونے والی چیز (دنیا) سے محبت رکھتے ہیں اور آگے جو بھاری دن آنے والا ہے اسے نظرانداز کردیتے ہیں۔ ) مخالفین کی اصل بیماری آنحضرت ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے مخالفین کی اصل بیماری کی خبر دی گئی ہے کہ یہ لوگ آپ پر قسم قسم کے اعتراضات کرتے ہیں اور کبھی قرآن کریم کے حوالے سے مختلف شبہات اٹھاتے ہیں حالانکہ ان کی اصل بیماری یہ ہے کہ یہ دنیا کی لذت عاجل کے پرستار ہیں اور آخرت کی خاطر وہ اس نقد کو چھوڑنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ خواہ آخرت کا دن کتنا ہی کٹھن کیوں نہ ہو، اپنی اس دنیا پرستی کو چھپانے کے لیے وہ قیامت پر عجیب و غریب شبہات کا اظہار کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آخرت کو تسلیم کرلینے کے بعد دنیا کی بہت سی باتوں کو چھوڑنا پڑتا ہے جو دنیا کی لذت پرستی کے باعث ان کے لیے آسان نہیں۔ بجائے اپنی اس کمزوری کو دور کرنے کے اعتراضات کے ذریعے پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اس کا جو نتیجہ نکلنے والا ہے اس کا انھیں اندازہ نہیں۔
Top