Tafseer-e-Madani - Al-Insaan : 27
اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ یُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَةَ وَ یَذَرُوْنَ وَرَآءَهُمْ یَوْمًا ثَقِیْلًا
اِنَّ : بیشک هٰٓؤُلَآءِ : یہ (منکر) لوگ يُحِبُّوْنَ : وہ دوست رکھتے ہیں الْعَاجِلَةَ : دنیا وَيَذَرُوْنَ : اور چھوڑدیتے ہیں وَرَآءَهُمْ : اپنے پیچھے يَوْمًا : ایک دن ثَقِيْلًا : بھاری
اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ محبت کرتے ہیں اس جلد ملنے والی چیز (یعنی دنیا) سے اور چھوڑتے (اور نظر انداز کرتے) ہیں اپنے آگے آنے والے ایک ایسے دن کو جو بڑا ہی بھاری (اور نہایت ہولناک) دن ہے
36 منکرین کی اصل بیماری کی نشاندہی : سو اس سے حق کے مخالفین و منکرین کی اصل بیماری کی نشاندہی فرما دی ہے کہ وہ حب دنیا ہے کہ یہ لوگ اسی کے لئے جیتے اور اسی کے لئے مرتے ہیں اور یہی ہے فساد اور خربای کی وہ جڑ بنیاد، جس سے آگے طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی اور قسما قسم کے مفاسد جنم لیتے ہیں اور اسی کی بنائ پر انسان انسانیت کے منصفہ شرف سے گر کر حیوانیت محضہ کے گڑھے میں گرجا پہنچتا ہے اور وہ صرف پیٹ اور خواہشات نفس کی تکمیل کے لئے جینے کا خوگر ہوجاتا ہے اور اس طرح وہ سنجیدگی اور معقولیت کی صفات سے عاری اور خالی ہو کر رہ جاتا ہے، جس کے بعد وہ نہ حق بات کو سننے ماننے کو تیار ہوتا ہے اور نہ ہی اس بارہ کسی غور و فکر ہی کا روادار ہوتا ہے اور اس طرح وہ خسر الدنیا والاخرۃ کا مصداق بن جاتا ہے، والعیاذ باللہ العظیم سو یہ لوگ آپ کے انداز اور تبلیغ پر جو شبہات وارد کرتے ہیں یہ سب کچھ محض اصل حقیت پر پردہ ڈالنے کی کوشش اور محض سخن سازی اور بہانہ بازی ہے۔ ورنہ ان لوگوں کا اصل مرض یہ ہے کہ حب دنیا کے مہلک مرض کے مریض اور متاع دنیا ہی کے پرستار اور اس کے پجاری ہیں اور یہ لذت عاجل کو آخرت کی خاطر چھوڑنے کا حوصلہ نہیں کرسکتے اور اپنی اس دنیا پرستی کو چھپاء رکھنے کے لئے یہ لوگ قیامت کے بارے میں بناوٹی قسم کے شبہات کا اظہار کرتے ہیں سو اس طرح ایسے لوگ دنیا والوں کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں اور بالفل دے بھی رہے ہیں لیکن حضرت حق۔ جل مجدہ سے کس طرح چھپ سکتے ہیں جو کہ علام الغیوب اور علیم بذات الصدور ہے ؟ سبحانہ و تعالیٰ اللہ ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر قائم رکھتے۔ آمین 37 ۔ آخرت کے یوم ثقیل کو بھلا دینا خساروں کا خسارہ، والعیاذ باللہ العظیم : سو ارشاد فرمایا گیا اور یہ لوگ نظر انداز کر رہ ہیں اپنے آگے آنے والے ایک بڑے ہی بھاری دن کو۔ جس سے وہ اس کے لئے نہ کوئی تیاری کرتے ہیں نہ پرواہ، حالانکہ اسی کی کامیابی حیقی کامیابی ہے اور اسی کی ناکامی اصل اور دائمی ناکامی ہے، والعیاذ باللہ اور ان کی ساری دوڑ دھوپ اور تگ و دو اسی دنیا فانی اور اس کے اسباب اور متاع حقیر کے لئے وقف ہو کر رہ جاتی ہے اور بس اور یہ آخرت کی حقیقی اور دائمی زندگی اور اس کی سعادت و کامیابی کو بھول کر او اس کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر اسی فانی دنیا کی عارضی اور فانی لذتوں پر فریفتہ اور لٹو ہو رہے ہیں اور یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں والعیاذ باللہ العظیم فصدق اللہ القائل قل ھل نبئکم بالاخسرین اعمالا الذین ضلع سعیھم فی الحیاۃ الدنیا وھم یحسبون انھم یحسنون صنعا (الکہف 103-104) والعیاذ باللہ الذی لا الہ الہ ھو سبحانو و تعالیٰ بہر کیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ لوگ دنیا کی عارضی لذتوں اور وقتی وفانی فائدوں میں منہمک ہو کر آخرت کے ہولناک دن اور اس کے تقاضوں کو بھولے ہوئے ہیں اور اس طرح یہ اپنے لیے نہایت ہی ہولناک خسارے کا سامان کر ہے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ سو حب دنیا خرابیوں کی خرابی اور محرومیوں کی محرومی ہے اور آخرت کے اس یوم عظیم اور یوم ثقیل کو بھول جانا اور اس کے تقاضوں کو فراموش کردینا خساروں کا خسارہ اور ہولناک ہلاکت و تباہی کا باعث ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔
Top