Siraj-ul-Bayan - Al-Baqara : 31
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓئِكَةِ١ۙ فَقَالَ اَنْۢبِئُوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
وَعَلَّمَ : اور سکھائے آدَمَ : آدم الْاَسْمَآءَ : نام كُلَّهَا : سب چیزیں ثُمَّ : پھر عَرَضَهُمْ : انہیں سامنے کیا عَلَى : پر الْمَلَائِکَةِ : فرشتے فَقَالَ : پھر کہا اَنْبِئُوْنِیْ : مجھ کو بتلاؤ بِاَسْمَآءِ : نام هٰٓؤُلَآءِ : ان اِنْ : اگر كُنْتُمْ : تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
اور اس نے آدم (علیہ السلام) کو سب چیزوں کے نام سکھائے پھر انکو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا تم مجھے ان چیزوں کے نام بتلاؤ ، اگر تم سچے ہو ۔ (ف 3)
3) پہلا انسان عالم تھا : اللہ نے ایک جواب تو فرشتوں کو یہ دیا کہ تم خاموش رہو ۔ دوسرا جواب آدم (علیہ السلام) کی قوتوں کا مظاہرہ تھا ، اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کی فطرت میں علم کا جذبہ رکھا ، اسے تمام ضروریات سے آگاہ کیا ، معارف حیات بتلائے اور فرشتوں کے سامنے بحیثیت ایک عالم کے پیش کیا ۔ فرشتے بھی عالم تھے مگر تسبیح و تقدیس کے آئین و قانون کے فرمانبرداری و اطاعت کے طریقوں کے ، انہیں حیات وفنا کے اسرار سے ناآشنا رکھا گیا ، موت وزیست کے جھمیلوں سے الگ ، یہ بغیر کسی کھٹکے اور خرخشے کے عبادت و اطاعت میں مصروف تھے ، آدم (علیہ السلام) کو جو علم دیا گیا وہ فرشتوں کے علم سے بالکل مختلف تھا ، اسے مقتضیات انسانی بتائے گئے ، موت وحیات کا فرق سمجھایا گیا ، عبادت و اطاعت کے علاوہ دنیا کی آبادی وعمران کے اسرار و رموز سے بہرہ ور کیا گیا ۔ سیاست وحکمرانی کے اصول و ضوابط انہیں سکھائے گئے اور وہ تمام چیزیں بتلائی گئیں جو اسے خلیفۃ اللہ بنا سکیں ، فرشتوں کی حیثیت مطیع وفرمانبردار کی تھی اور آدم کی خلافت اس کے وارث کی ، اس لئے جب موازنہ کے وقت فرشتوں کو آدم (علیہ السلام) کے منصب رفیع کا علم ہوا تو معذرت خواہ ہوئے ، اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نہ کہتا تھا ۔ (آیت) ” انی اعلم غیب السموت والارض “۔ کو غیوب کا لعم صرف مجھے ہے تم نہیں جانتے ۔ حل لغات : ملآئکۃ : جمع ملک ، فرشتہ ، یسفک مضارع معلوم ، مصدر ، سفک ۔ خون بہانا ، انبؤنی ، مجھے بناؤ ، مادہ انباء ، خبر دینا ۔
Top