Tadabbur-e-Quran - Ar-Rahmaan : 17
رَبُّ الْمَشْرِقَیْنِ وَ رَبُّ الْمَغْرِبَیْنِۚ
رَبُّ الْمَشْرِقَيْنِ : رب ہے دو مشرقوں کا وَرَبُّ الْمَغْرِبَيْنِ : اور رب ہے دو مغربوں کا
وہی مشرق کے دونوں اطراف کا خداوند ہے اور وہی مغرب کے دونوں اطراف کا بھی
(رب المشرقین و رب المغربین فبای الاء ربکما تکذبن) (17۔ 18) (مشرق اور مغرب کی مثنی لانے کی وجہ) یعنی مشرق و مغرب، سب کا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ نہ کوئی اس کے حدود مملکت سے باہر ہے اور نہ کوئی اس کی خدائی میں حصہ دار ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مشرق و مغرب کا بلا شرکت غیرے مالک ہے۔ اس کے آسمانوں اور زمین میں بالشت بھر علاقہ بھی کسی اور کے قبضہ میں نہیں ہے کہ وہ اس علاقہ والوں کو خدا کی پکڑ سے بچا لے۔ سورة معارج میں یہی مضمون اس طرح بیان ہوا ہے (فلا اقسم برب المشرق و المغرب انا لقدرون نلی ان نبدل خیرا منھم وما نحن بمسبعرقین) (40۔ 41) (پس نہیں، میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے خداوند کی، ہعم اس بات پر قادر ہیں کہ ان سے بہتر صورت میں بدل کر ان کو اٹھا کھڑا کریں اور ہم اس کام میں عاجز ہونے والے نہیں ہیں)۔ مصرقین اور مغربین کے مثنیٰ لانے کی توجیہ عام طور پر ہمارے مفسرین نے یہ کی ہے کہ اس سے سردی اور گرمی کے مشرق و مغرب مراد ہیں لیکن یہ محض تکلیف ہے۔ قرآن میں یہ الفاظ واحد، مثنیٰ جمع تینوں صورتوں میں استعمال ہوئے ہیں اور ان تینوں ہی صورتوں میں مفہوم کے اعتبار سے کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ مثنیٰ کی صورت میں مقصود ان کے دونوں اطراف کا احاطہ ہوتا ہے اور جمع کی شکل میں ان کے اطراف و اکناف کی بےنہایت وسعت کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ مثنیٰ اور جمع کے اس نوع کے استعمال کی مثالیں اس کتاب میں پیچھے گزر چکی ہیں۔ اس کے بعد وہی ترجیح ہے جو اوپر گزر چکی ہے یعنی جس خدا کی عظمت و شان کا حال یہ ہے کہ مشرق و مغرب سب اس کے زیر نگیں ہیں، اگر اس کے انداز کو سمجھتے ہو کہ یہ ڈرائوے محض ہوائی ہیں تو آخر اس کی کن کن عظمتوں کی تکذیب کرو گے !
Top