Tafheem-ul-Quran - Al-Ahzaab : 113
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلنَّبِيِّ : نبی کے لیے وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اَنْ : کہ يَّسْتَغْفِرُوْا : وہ بخشش چاہیں لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے وَلَوْ : خواہ كَانُوْٓا : وہ ہوں اُولِيْ قُرْبٰى : قرابت دار مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا تَبَيَّنَ : جب ظاہر ہوگیا لَھُمْ : ان پر اَنَّھُمْ : کہ وہ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : دوزخ والے
نبی کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں زیبا نہیں کہ مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا کریں، چاہے وہ اُن کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، جب کہ ان پر یہ بات کھُل چکی ہے کہ وہ جہنّم کے مستحق ہیں۔111
سورة التَّوْبَة 111 ”کسی شخص کے لیے معافی کی درخواست لازما یہ معنی رکھتی ہے کہ اول تو ہم اس کے ساتھ ہمدردی و محبت رکھتے ہیں، دوسرے یہ کہ ہم اس کے قصور کو قابل معافی سمجھتے ہیں۔ یہ دونوں باتیں اس شخص کے معاملہ میں تو درست ہیں جو وفاداروں کے زمرے میں شامل ہو اور صرف گناہگار ہو۔ لیکن جو شخص کھلا ہوا باغی ہو اس کے ساتھ ہمدردی و محبت رکھنا اور اس کے جرم کو قابل معافی سمجھنا نہ صرف یہ کہ اصولا غلط ہے بلکہ اس سے خود ہماری اپنی وفاداری مشتبہ ہوجاتی ہے۔ اور اگر ہم محض اس بنا پر کہ وہ ہمارا رشتہ دار ہے، یہ چاہیں کہ اسے معاف کردیا جائے، تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے نزدیک رشتہ داری کا تعلق خدا کی وفاداری کے مقتضیات کی بہ نسبت زیادہ قیمتی ہے، اور یہ کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بےلاگ نہیں ہے، اور یہ کہ جو لاگ ہم نے خدا کے باغیوں کے ساتھ لگا رکھی ہے ہم چاہتے ہیں کہ خدا خود بھی اسی لاگ کو قبول کرلے اور ہمارے رشتہ دار کو تو ضرور بخش دے خواہ اسی جرم کا ارتکاب کرنے والے دوسرے مجرموں کو جہنم میں جھونک دے۔ یہ تمام باتیں غلط ہیں، اخلاص اور وفاداری کے خلاف ہیں اور اس ایمان کے منافی ہیں جس کا تقاضا یہ ہے کہ خدا اور اس کے دین کے ساتھ ہماری محبت بالکل بےلاگ ہو، خدا کا دوست ہمارا دوست ہو اور اس کا دشمن ہمارا دشمن۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ”مشرکوں کے لیے مغفرت کی دعا نہ کرو“ بلکہ یوں فرمایا ہے کہ ”تمہارے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ تم ان کے لیے مغفرت کی دعا کرو“۔ یعنی ہمارے منع کرنے سے اگر تم باز رہے تو کچھ بات نہیں، تم میں تو خود وفاداری کی حِس اتنی تیز ہونی چاہیے کہ جو ہمارا باغی ہے اس کے ساتھ ہمدردی رکھنا اور اس کے جرم کو قابل معافی سمجھنا تم کو اپنے لیے نازیبا محسوس ہو۔ یہاں اتنا اور سمجھ لینا چاہیے کہ خدا کے باغیوں کے ساتھ جو ہمدردی ممنوع ہے وہ صرف وہ ہمدردی ہے جو دین کے معاملہ میں دخل انداز ہوتی ہو۔ رہی انسانی ہمدردی اور دنیوی تعلقات میں صلہ رحمی، مواساۃ، اور رحمت و شفقت کا برتاؤ، تو یہ ممنوع نہیں ہے بلکہ محمود ہے۔ رشتہ دار خواہ کافر ہو یا مومن، اس کے دنیوی حقوق ضرور ادا کیے جائیں گے۔ مصیبت زدہ انسان کی بہر حال مدد کی جائے گی۔ حاجت مند آدمی کو بہر صورت سہارا دیا جائے گا۔ بیمار اور زخمی کے ساتھ ہمدردی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے گی۔ یتیم کے سر پر یقینا شفقت کا ہاتھ رکھا جائے گا۔ ایسے معاملات میں ہرگز یہ امتیاز نہ کیا جائے گا کہ کون مسلم ہے اور کون غیر مسلم۔
Top