Ruh-ul-Quran - At-Tawba : 113
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلنَّبِيِّ : نبی کے لیے وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اَنْ : کہ يَّسْتَغْفِرُوْا : وہ بخشش چاہیں لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے وَلَوْ : خواہ كَانُوْٓا : وہ ہوں اُولِيْ قُرْبٰى : قرابت دار مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا تَبَيَّنَ : جب ظاہر ہوگیا لَھُمْ : ان پر اَنَّھُمْ : کہ وہ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : دوزخ والے
مناسب نہیں ہے نبی کے لیے اور نہ ایمان والوں کے لیے کہ مغفرت طلب کریں مشرکین کے لیے اگرچہ وہ مشرک ان کے قریبی رشتے دار ہوں جبکہ کھل چکا ان پر کہ وہ دوزخی ہیں
مَاکَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَلَوْکَانُوْ ٓا اُولْیِ قُرْبٰی مِنْ م بَعْدِ مَاتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمُ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ (التوبہ : 113) (مناسب نہیں ہے نبی کے لیے اور نہ ایمان والوں کے لیے کہ مغفرت طلب کریں مشرکین کے لیے اگرچہ وہ مشرک ان کے قریبی رشتے دار ہوں جبکہ کھل چکا ان پر کہ وہ دوزخی ہیں۔ ) آیت کی تمہید سورة توبہ اس زمانے میں نازل ہوئی ہے۔ جب اسلامی انقلاب اپنے تکمیلی مراحل کی طرف بڑھ رہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو عطا کیا جانے والا ضابطہء حیات تعلیم و تربیت کی ضروریات کے لحاظ سے آخری ہدایات عطا کر رہا تھا۔ اِسلامی زندگی کی بنیاد عقیدہ توحید پر اٹھائی گئی ہے اور اسلام کے باقی تمام عقائد تمام احکام اور تمام حکم و آداب اسی کو دل و دماغ میں پیوست کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ایک مومن کو آہستہ آہستہ اس قابل بنایا جاتا ہے کہ اس کے دل و دماغ کے تمام رشتے اور اس کی زندگی کی تمام ترجیحات اللہ کے تعلق کے تابع بلکہ اسی تعلق کی خادم ہو کر رہ جائیں۔ سلوک اور مروت، ہمدردی اور نصرت، خیر خواہی اور تعاون نوع انسانی کے تمام افراد سے ہو، لیکن دل و دماغ کی آبادی اور سیرابی اور تمام رشتوں کا مبدا و معاد تعلق با اللہ کے سوا اور کوئی نہ ہو۔ اخوت کا رشتہ ان سے ہو جو اللہ سے تعلق میں شریک ہوں۔ محبت کی سر گرمی وہاں ہو جو محبت اللہ کی محبت کے تابع ہو اور اگر اللہ سے تعلق کی قیمت ادا کرنے کے لیے ساری دنیا سے بھی رشتہ توڑنا پڑے تو ایک مومن کے لیے گراں نہ ہو۔ یہی وہ توحید ہے جو تمام اسلامی تعلیمات کا حاصل اور سورة توبہ کا اصل موضوع ہے۔ اس لیے اس سورة کی پہلی آیت نے مشرکین سے براءت اور بےزاری کا اعلان کیا ہے اور ان تمام لوگوں سے قطع تعلق کا حکم دیا ہے جو اللہ کے دشمن یا اللہ کے دین کے بارے میں یکسو نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں سے خونی اور ضہری رشتے بھی ممنوع قرار دے دیئے گئے۔ مختصر یہ کہ ہر مومن کو اس عہد کا پابند اور اس روایت کا خوگربنا دیا گیا ہے۔ بہت سادہ سا ہے اپنا اصول دوستی کو ثر جو ان سے بےتعلق ہے ہمارا ہو نہیں سکتا پیشِ نظر آیات سورة کے خاتمہ کی آیات ہیں۔ ان آیات میں توحید کے تصور کو تکمیلی شان دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ہر بات میں اللہ کا حوالہ اور ہر تعلق کے لیے اللہ کی سند اور ہر محبت کے لیے اللہ سے محبت کی ترجیح صرف ظاہری زندگی تک کافی نہیں بلکہ وہ قریبی عزیز زندگی میں جن سے سب سے قریبی رشتہ ہوتا ہے۔ اگر وفات پاجائیں تو موت کا صدمہ بھی اللہ سے تعلق کی نزاکتوں کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ جس شخص کی موت اللہ کے دین کی بجائے کفر اور اللہ سے دشمنی پر آتی ہے۔ اس کے لیے دعا کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔ اللہ کا نبی جس کے دل پر اللہ کی محبت کے سوا کسی اور محبت کی پرچھائیں بھی نہیں پڑ سکتی اسے بھی منع فرما دیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے زندگی میں اللہ سے تعلق قائم کرنا مناسب نہیں سمجھا اور وہ زندگی بھر اللہ سے دشمنی کرتے رہے یا دوسرے تعلقات کو اللہ پر ترجیح دی وہ اس قابل نہیں ہیں کہ موت کے بعد ان کے لیے استغفار کیا جائے۔ آیت کا شان نزول صحیح بخاری و مسلم کی روایات کے مطابق اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے چچا ابو طالب جنھوں نے طویل عرصہ تک آنحضرت ﷺ کی حفاظت کی۔ آپ کے دشمنوں کے سامنے سینہ سپر رہے۔ برداری اور خاندان کی پرواہ تک نہ کی۔ آنحضرت ﷺ کی شدید خواہش تھی کہ وہ ایمان لے آئیں۔ تاکہ میں قیامت کے دن ان کی شفاعت کرسکوں۔ مرضِ وفات میں جب ان کا آخری وقت آیا۔ تو آنحضرت ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور آپ نے اصرار فرمایا کہ چچا آپ کلمہ پڑھ لیں۔ تاکہ میں قیامت میں اپنے اللہ سے آپ کی بخشش کے بارے میں عرض کرسکوں۔ ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ جیسے لوگ پہلے سے وہاں موجود تھے۔ انھوں نے آنحضرت کا اصرار دیکھ کر ابو طالب سے کہا کہ کیا آپ عبدالمطلب کا دین چھوڑ دیں گے۔ رسول ﷺ نے بار بار اپنی بات کو دہرایا۔ مگر ہر مرتبہ ابو جہل اپنی بات کہتا رہا یہاں تک کہ ابو طالب نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ میں عبد المطلب کے دین پر مر رہا ہوں اور اسی حالت میں وفات پائی۔ رسول ﷺ کو اس پر شدید رنج ہوا۔ چناچہ آپ نے قسم کھائی میں اس وقت تک آپ کے لیے اللہ سے بخشش مانگتا رہوں گا۔ جب تک مجھے اس سے روک نہ دیا جائے۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ شانِ نزول اگرچہ ایک خاص واقعہ ہے۔ لیکن اس کا حکم عام ہے۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ دوسرے مومنین کو بھی شامل فرمایا گیا ہے۔ آیت کے دوسرے جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ جب تک کسی شخص کے بارے میں یقین نہیں ہوجاتا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے اور وہ اپنے کفر کو ہرگز نہیں چھوڑے گا۔ اس وقت تک اس کے لیے نہ صرف دعا کرنا جائز ہے بلکہ محمود ہے۔ لیکن جب یقین ہوجائے تو اس کے بعد استغفار کی اجازت نہیں۔ کیونکہ اس کے بعد استغقار کا مطلب یہ ہے۔ آپ ایک ایسے شخص کے لیے اپنے دل میں محبت اور خیر خواہی کے جذبات رکھتے ہیں۔ جو اللہ کا کھلا باغی اور اس کے دین سے دشمنی رکھتا ہے۔ اللہ سے تعلق کا کم سے کم تقاضہ یہ ہے کہ جو اللہ کا دشمن ہے وہ مومن کا دشمن ہے اور دشمن کے لیے استغفار کرنا چہہ معنی دارد یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے نجات اور جنت کا مستحق اس آدمی کو ٹھہرایا ہے جو اللہ پر ایمان لانے والا اور اس کا اطاعت گزار ہے اور جو شخص اللہ کے دین کا کافر یا اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے والا ہے۔ اس کے لیے پروردگار کا قطعی فیصلہ ہے کہ وہ اسے کبھی نہیں بخشے گا۔ اگر کوئی شخص ایسے شخص کے لیے استغفار کرتا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ہاں اللہ کے قانون اور اس کے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں۔ اللہ کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ مخلوقِ خدا اللہ کا کنبہ ہے ایک ایک فرد کی بخشش اسے ہر درجہ عزیز ہے۔ با ایں ہمہ وہ کافر اور مشرک کی بخشش کبھی نہیں فرمائے گا یہ اس کا اٹل فیصلہ ہے۔ جو شخص اپنی قرابت داری یا دوستی کی وجہ سے کسی مشرک یا کافر کے لیے بخشش کی دعا مانگتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اللہ سے بڑھ کر رحیم و کریم سمجھتا ہے اور اللہ کی بارگاہ کے آداب کی بجائے اپنی قرابت کے احترام کو ترجیح دیتا ہے۔ اب سوال صرف یہ رہ جاتا ہے کہ یہ کیسے معلوم ہو کہ فلاں شخص اللہ کا دشمن ہے اور وہ کبھی اس سے تائب نہیں ہوگا۔ اس کے معلوم ہونے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت تو یہ ہے جو ہر زمانے میں ممکن ہے کہ کوئی شخص کفر کی حالت میں مرجائے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کا دشمن اور ناقابلِ بخشش ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ وحی الہی کے ذریعہ بتادیا جائے کہ یہ شخص ایمان نہیں لائے گا جیسے نبی کریم ﷺ کو اور آپ کے واسطے سے صحابہ کو بعض اشخاص کے بارے میں بتادیا گیا۔ لیکن آج اس کا کوئی امکان نہیں اس لیے ہم کسی کو اس کی زندگی میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ شخص موت پر ہی جان دے گا۔ ایسے شخص کے بارے میں ہدایت اور مغفرت کی دعا مانگنے کی اجازت ہے۔
Top