Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 113
مَا كَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِیْنَ وَ لَوْ كَانُوْۤا اُولِیْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اَنَّهُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِلنَّبِيِّ : نبی کے لیے وَ : اور الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے (مومن) اَنْ : کہ يَّسْتَغْفِرُوْا : وہ بخشش چاہیں لِلْمُشْرِكِيْنَ : مشرکوں کے لیے وَلَوْ : خواہ كَانُوْٓا : وہ ہوں اُولِيْ قُرْبٰى : قرابت دار مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا تَبَيَّنَ : جب ظاہر ہوگیا لَھُمْ : ان پر اَنَّھُمْ : کہ وہ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ : دوزخ والے
نبی اور جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کیلئے جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا کریں اگرچہ وہ (مشرکین) رشتہ دار ہی ہوں جب ان پر یہ ظاہر ہوچکے کہ وہ (اموات) اہل دوزخ ہیں،209۔
209۔ (اور اس کے ظہور کی صورت یہی ہے کہ وہ لوگ حالت کفر میں مرے ہوں یعنی وقت نزع تک اقرار انہوں نے نہ کیا ہو) حکم اسی ظاہر پر لگایا جائے گا باقی اصل حال تو عالم الغیب ہی کو معلوم ہوتا ہے، ظاھر حال المرء عند الموت یحکم علیہ بھا فان مات علی الایمان حکم لہ بہ وان مات علی الکفر حکم لہ بہ وربک اعلم بباطن حالہ (قرطبی) (آیت) ” ان یستغفروا للمشرکین “۔ مرنے کے بعد اس کے دعائے مغفرت کرنا ایک بڑا حق ہے جو میت کا زندوں پر رہ جاتا ہے سورة بھر میں برابر کافروں سے ترک تعلقات کے احکام ہیں۔ اب حکم یہ مل رہا ہے کہ جہاں تک کافروں کا تعلق ہے۔ اس بڑے حق سے بھی دست بردار ہوجائیں۔ جرم شرک وکفران کے حق کو بالکل مٹا دیتا ہے۔ (آیت) ” ولو کانوا اولی قربی “۔ یہ قرابت کا تعلق خواہ مومنین کے ساتھ ہو یا خود نبی کے ساتھ۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بزرگ کے ساتھ کوئی نسبت قائم ہوجانا (یہاں تک کہ نسبت کسبی بھی) نجات کیلئے بالکل کافی ہے۔ وہ ذرا سوچیں کہ جب رسول اللہ ﷺ تک سے مجرد نسبت (بلاایمان) اس آیت کی رو سے کافی نہیں تو پھر کسی اور بزرگ کا ذکر ہی کیا۔
Top