Urwatul-Wusqaa - Al-Baqara : 6
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ
إِنَّ : بیشک الَّذِينَ : جن لوگوں نے کَفَرُوا : کفر کیا سَوَاءٌ : برابر عَلَيْهِمْ : ان پر أَ أَنْذَرْتَهُمْ : خواہ آپ انہیں ڈرائیں أَمْ لَمْ : یا نہ تُنْذِرْهُمْ : ڈرائیں انہیں لَا يُؤْمِنُونَ : ایمان نہ لائیں گے
بلاشبہ وہ لوگ جنہوں نے انکار کی [ راہ اختیار کی ان کے لیے یکساں ہے تم انہیں خبردار کرو یا نہ کرو وہ ماننے والے نہیں
کفار کون ہیں ؟ 12: ہر تحریک کے دور میں تین قسم کے لوگوں کا پیدا ہونا ضروری ہے : i: وہ جو اس تحریک کے حامیان کار ہوں۔ ii: وہ جو مکمل طور پر اس کے مخالف اور نہ ماننے والے ہوں۔ iii: ایسے لوگ جن کے تعلقات دونوں طرف موجود ہوں۔ بس ! دوسری قسم کے لوگوں کو جو اسلامی تحریک کے سخت مخالف ہیں اسلام کی زبان میں کفار کہا جاتا ہے ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کو کافر یعنی انکار کرنے والے ہی کہا جائے گا۔ یہی لوگ دلائل حق میں غور نہیں کرتے اور باطل پر جمے رہتے ہیں۔ انکی استعداد قبول حق کے باب میں روز بروز کمزور ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ بالکل مردہ ہوجاتی ہے۔ آیت میں خصوصی اشارہ یہود مدینہ کی جانب ہے ان کا کفر کفر جحود کی قسم کا تھا یعنی یہ نبی آخر الزمان کی بابت پیش گوئیاں اور ان کی علامات سے اچھی طرح واقف تھے اور پھر دانستہ جان بوجھ کر حق سے اعراض واخفا کرتے تھے کہ اپنی دینی ریاست اور دنیوی سیادت میں فرق نہ پڑے۔ کفر کو سمجھنے کے لئے فطرت انسانی پر غور و فکر کریں تو معلوم ہوجائے گا۔ فطرت انسانی کے متعلق اختلاف مذاہب : 13: اب تک فطرت کے بارے میں دنیا کے خیالات حسب ذیل رہے ہیں : (ا) : انسان کی فطرت میں بدی ہی بدی ہے ، باہر کی تربیت اس کو عارضی طور پر خوشنما کردیتی ہے ، وہ خصائص فطرت کے اعتبار سے بالکل حیوان ہے لیکن تربیت پذیری کے لحاظ سے اس پر فوقیت رکھتا ہے درخت کی شاخیں متناسب نہیں ہوتیں لیکن ان کو کاٹ کر اور چھیل کر درست کرلیا جاتا ہے۔ ڈیوجانس کلبی اس فلسفہ اخلاق کا مشہود معروف پیشوا گزرا ہے۔ (ب) : انسان کی فطرت بالکل سادہ ہے اس میں نہ نیکی ہے نہ بدی ، وہ محض ایک منفعل ، اثر پذیر اور نقش انگیز وجود ہے وہ ایک دامن ہے جس کے اندر گنجائش کے سوا کچھ نہیں۔ اگر اس کو پتھر ملا ہے تو اس کو بھر لے گا ، پھول ملے ہیں تو ان کو چن لے گا۔ حکماء یونان میں اس مذہب کا ایک دور رہ چکا ہے۔ گزشتہ اسلامی گروہوں نے بھی زیادہ تر اس کی پیروی کی۔ آج یورپ میں بھی حکماء اخلاق کا ایک بڑا گروہ یہی کہتا ہے۔ (ج) : نیکی اور بدی انسان کی فطرت میں موجود ہے بالقوہ وہ شیطان اور فرشتہ دونوں ہے دنیا میں آکر جس قسم کے خارجی اثرات اس کو ملتے ہیں انہیں کے مطابق اس کی کوئی ایک قوت نشو ونما پاتی اور بروز کرتی ہے اگر نیکی کے اثرات ملے تو قوت ملکوتی ابھرے گی اور چمکے گی۔ لیکن اگر اس کے برخلاف بدی کا گردو غبار چھا جائے گا تو نیکی کی چمک ماند پڑجائے گی اور بدی کی تاریکی پھیل جائے گی۔ دنیا کے قدیم و جدید دوروں میں اس مذہب نے سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کی۔ ارسطو کا یہی مذہب تھا۔ تقریباً تمام حکماء اسلام اس کے قائل نظرآتے ہیں۔ ابن مسکویہ اس کا داعی ہے۔ دور جدید کے حکمائے اخلاق نے اسی کے آگے اپنی گردنیں خم کی ہیں۔ فخر الدین رازی (رح) نے اسی مذہب کے مطابق تفسیر کی ہے۔ دیکھنے کا شوق ہو تو وَ ہَدَیْنٰهُ النَّجْدَیْنِۚ0010 اور فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَ تَقْوٰىهَا۪ۙ008 کی تفسیر دیکھیں۔
Top