Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 110
كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ١ؕ وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْ١ؕ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَ
كُنْتُمْ
: تم ہو
خَيْرَ
: بہترین
اُمَّةٍ
: امت
اُخْرِجَتْ
: بھیجی گئی
لِلنَّاسِ
: لوگوں کے لیے
تَاْمُرُوْنَ
: تم حکم کرتے ہو
بِالْمَعْرُوْفِ
: اچھے کاموں کا
وَتَنْهَوْنَ
: اور منع کرتے ہو
عَنِ
: سے
الْمُنْكَرِ
: برے کام
وَتُؤْمِنُوْنَ
: اور ایمان لاتے ہو
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَلَوْ
: اور اگر
اٰمَنَ
: ایمان لے آتے
اَھْلُ الْكِتٰبِ
: اہل کتاب
لَكَانَ
: تو تھا
خَيْرًا
: بہتر
لَّھُمْ
: ان کے لیے
مِنْھُمُ
: ان سے
الْمُؤْمِنُوْنَ
: ایمان والے
وَ اَكْثَرُھُمُ
: اور ان کے اکثر
الْفٰسِقُوْنَ
: نافرمان
تم تمام امتوں میں بہتر امت ہو جو لوگوں کی اصلاح کے لیے ظہور میں آئی ہو ، تم نیکی کا حکم دینے والے ، برائی سے روکنے والے اور اللہ پر ایمان لانے والے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو یہ ان کیلئے بہتری کی بات ہوتی ، ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ایمان رکھنے والے ہیں لیکن بڑی تعداد انہی لوگوں کی ہے جو دائرہ ہدایت سے یکسر باہر ہوچکے ہیں
تم صحیح معنوں میں ایمان لانے والے اور اچھے عمل کرنے والے ہو تو تم ہی بہتر امت ہو : 210: یہ محمد رسول اللہ ﷺ کی امت سے خطاب ہے اور ملت اسلامی ہی مخاطب کی جارہی ہے کہ تم تمام امتوں میں سے بہتر امت ہو۔ روایات میں آتا ہے کہ مالک بن انصیف اور وہب بن یہود نے جو یہودی تھے انہوں نے حضرت ابن مسعود ؓ معاذ بن جبل ؓ اور سالم مولیٰ ابی حذیقہ سے کہا کہ ہم تم سے افضل ہیں اور ہمارا مذہب اس دین سے بدرجہا بہتر ہے جس کی دعوت تم ہی کو دیتے ہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی” خیر “ صفت ہے اور ” امت “ موصوف۔ ” کنتم “ ماضی ہے ” یعنی تم بہترین امت تھے۔ “ کیا اب بہترین امت نہیں ؟ جواباً عرض کہ ” کان “ کا استعمال عربی زبان میں کوئی طرح پر ہوتا ہے۔ گز رے ہوئے زمانہ پر بھی بولا جاتا ہے اور ایک وصف کو لازم و ضروری کرنے کے لیے بھی۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے اوصاف کے بیان میں جہاں اس کا استعمال ہوگا تو ازلیت ہی کے لیے ہوگا۔ جیسے کَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِیْمًا ظاہر ہے کہ اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوسکتا کہ ” اللہ ہرچیز کا جاننے والا تھا “ اور اب نہیں کان اللہ غفورا رحیما اللہ غفور و رحیم تھا اب نہیں۔ بلکہ اصل مطلب یہ ہے کہ اللہ ہرچیز کا جاننے والا تھا۔ ہے اور رہے گا۔ جس کا صاف معنی یہی ہے کہ ” اللہ ہرچیز کا جاننے والا ہے “ اور یہ لازم ہے کہ جو زمانہ بھی آئے گا اللہ جاننے والا ہی رہے گا۔ کبھی یہ صفت اس سے الگ نہیں کی جاسکتی۔ اور اسی طرح جب کسی شے کی جنس میں اس کی وصف کے متعلق استعمال کیا جائے جو اس میں موجود ہو تو یہ ظاہر کرنے کے لیے ہوتا ہے کہ یہ وصف اس میں لازم ہے جیسے : کَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًا۔ کَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا۔ کَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَىْءٍ جَدَلًا اور مطلب یہ ہے کہ ” انسان ناشکرا گزرا ہے۔ “ انسان جلد باز ہے۔ “ انسان اکثر جھگڑالو ہے۔ اسی طرح اس جگہ بھی حال کے معنی ہیں یعنی ” تم بہترین امت ہو “ ہاں ! یہ بھی احتمال ہے کہ امت اسلامیہ کے خیر الامم ہونے سے مراد یہ ہو کہ تم علی الٰہی میں خیر الامم تھے یا ذکر کرتے وقت گزرشتہ اقوام میں تم خیر الامم تھے۔ اَخْرِجَتْ ، خر کے معنی ہیں اپنی قرار گاہ یا اپنی حالت سے ظاہر ہوگیا یا نکل آیا خواہ اس کی قرار گاہ گھر ہو ، شہر ہو ، لباس ہو اور خواہ اس کا حال اپنے نفس میں اس کی کوئی حالت ہو یا اسباب خارجی میں راغب اخرج اے اظھرت یعنی ظاہر کیے گئے۔ ” للناس “ میں لام انتفاع کے لیے ہے یعنی ” تمہارا ظہو لوگوں کی بھلائی کے لیے ہے۔ “ اس لیے آگے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذکر کیا ہے یعنی تمہارا کام دنیا میں نیکیاں کرنا نیکیوں کی تعلیم دینا اور نیکیوں پر لوگوں کو لگانا اور قائم رکھنا اور بدیوں سے رکنا اور روکنا ہے۔ اس لیے تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ کو جو کمال نفس کا مرتبہ ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے جو دوری کی تکمیل کے لیے ہوتا ہے پیچھے رکھا ہے۔ کیونکہ اصل غرض اس جگہ یہی ظاہر کرنے کی ہے کہ تمہارا کام دوسروں کی تکمیل ہے اور جملہ ” تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ “ سے ان کے لیے اپنے کمال نفس کا ذکر اس لیے کیا ہے تاکہ یہ معلوم ہو کہ وہ ایسی باتیں دوسروں کو نہیں کہتے جو خود نہ کرتے ہوں بلکہ وہ دوسروں کی تکمیل چاہتے ہیں تو اسی لیے کہ وہ اپنے نفس کی تکمیل بھی کرتے ہیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کو بہترین امت قرار دیا گیا ہے اور یہ بات اپنی جگہ صحیح اور درست ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا زمانہ سارے زمانوں سے افضل و اعلیٰ تھا اور پھر جتنا قرب اس زمانہ کو رسول اللہ ﷺ سے رہا اتنا ہی وہ دوسرے زمانہ سے افضل رہا اور یہی بات وصف میں بھی ہے کہ جو شخص اپنے اوصاف کے لحاظ سے اپنے رسول اللہ ﷺ کے قریب رہا اتنا ہی وہ بہتر بھی رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد اس طرح ہے کہ میری امت کی مثال ایسی ہے جیسے بارش کی معلوم نہیں کہ اسکا ابتدائی حصہ بہتر ہے یا آخری حصہ اور یہ حدیث ترمذی نے حضرت انس ؓ کی روایت سے بیان کی ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ صرف صحابہ ؓ کے لیے ہے لیکن اول تو اس جگہ کان کا استعمال کے خلاف ہے دوسرے کوئی وجہ اس قید کی نہیں باتی جاسکتی تیسرے حدیث سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ ساری امت کو ہی ” خیر الامم “ کہا گیا ہے۔ چناچہ احمد ﷺ نے یہ حدیث روایت کی ہے : قال رسول اللہ ﷺ اعطیت مالم یعط احمد من الانبیاء نصرت بالرعب واعطیت مفاتیح الارض وسمیت احمد وجعل التراب لی طھورا وجعلت متی خیر الامم (رواہ احمد) ’ ’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مجھے وہ کچھ دیا گیا جو پپپ اور کسی نبی کو نہیں دیا گیا۔ میری نصرت رعب سے کی گئی اور مجھے زمین کے خزانے دیے گئے۔ میرا نام احمد رکھا گیا۔ میرے لیے مٹی پاک کرنے والی بنائی گئی اور میری بہترین امت بنائی گئی۔ اس حدیث کی تشریح اور اس کا مفہوم اتنا زیادہ ہے کہ اس کے لیے ایک مستقل کتاب درکار ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی صاحب علم کو اس طرف توجہ دے یہ میری دعا ہے۔ بلاشبہ صحابہ کرام ؓ خود اس امت میں سے بھی بہترین گروہ ہے اور اس کی شہادت خود اللہ تعالیٰ نے دی ہے کہ فرمایا : رَضِىَ اللّٰهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ لیکن یہاں ساری امت کی افضیلت کا دوسری امم پر ظاہر کرنا مقصود ہے۔ اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جب اس امت کا معلم اور مزکی محمد رسول اللہ ﷺ دین کے تمام معلموں اور مزکیوں سے اعظم و افضل ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ ﷺ کے شاگرد تمام انبیاء کے شاگردوں سے اعظم و افضل نہ ہوں۔ اور آپ ﷺ کی امت تمام امتوں سے اعظم و افضل نہ ہو اور یہ جو کچھ ہے سب آپ ﷺ کے نقش قدم سے ہے۔ مذکورہ فضیلت کس بات اور کس صلہ میں ہے ؟ 211: فرمایا تمہاری یہ افضیلت اس صلہ میں ہے کہ ” تم نیکی کا حکم دینے والے ، برائی سے روکنے والے اور اللہ پر ایمان لانے والے ہو “ مطلب واضح ہے کہ یہ امت دنیا کے تمام لوگوں کی بھلائی کے لیے پیدا کی گئی ہے۔ وہ بھلائی دنیوی ہو یا اخروی۔ ہر ایک نبی کی امت زیادہ تر اپنی قوم کی بہتری میں ہی کوشاں رہی مگر محمد رسول اللہ ﷺ کی امت میں سے قومیت کا نشان مٹا کر ان تمام لوگوں کی بھلائی چاہنے والے قرار دیا گیا۔ قومی تفرقوں کو اسلام نے ہمیشہ کے لیے مٹا دیا اور قومی تفرقہ ڈالنے والوں کو امت اسلامیہ سے الگ کردیا۔ دوسری وجہ ان کی اصلیت کی ان کا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہونا ہے یعنی بھلائیاں کرنے کے ساتھ ساتھ بھلائیوں کا حکم دینے والے اور برائیوں سے خود رکنے والے اور دوسروں کو روکنے والے ہیں اور یہ وہی کام ہے جو انبیاء کرام (علیہ السلام) کرنے کے لیے دنیا میں آتے رہے۔ اب جب نبوت نبی اعظم و آخر ﷺ پر ختم کردی گئی تو یہ کام آپ ﷺ کی امت کے ذمہ لگا دیا گیا اور اس کی تصدیق نقل سے بھی کرا دی اور عقل سے بھی۔ بلاشبہ یہ کام دوسرے انبیاء کرام کی امتیں بھی کرتی رہی تھی۔ مگر ان کا کام محدود تھا۔ اور ہر لحاظ سے محدود تھا۔ پھر ان کے اندر وقتاً فوقتاً انبیاء کی بعثت بھی ہوتی رہی تھی۔ اب نبوت کے ختم کردینے کے بعد یہ انبیاء کرام والا کام پہلے سے کہیں زیادہ اور نہایت ہی وسیع پیمانہ پر اس امت کے ذمہ لگا دیا گیا۔ کل دنیا میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور قوائے انسانی کی ساری شاخوں کی پرورش کرنا اور سب کا یکساں تزکیہ کرنا یہ وہ عظیم الشان کام ہے۔ جو محمد رسول اللہ ﷺ سے پہلے کسی نبی کی امت کے ذمہ نہیں لگایا گیا تھا۔ چناچہ سورة بقرہ میں اس وجہ سے فضیلت کو صاف صاف لفظوں میں بیان کردیا گیا۔ تفصیل کے لئے دیکھو عروقہ الوثقی جلد اور تفسیر سورة بقرہ آیت 143۔ کیا اس دعویٰ پر کوئی دلیل بھی ہے ؟ جب کوئی دعویٰ بغیر دلیل ثابت ہی نہیں ہوتا تو اس دعویٰ پر دلیل کیوں نہیں ہوگی ضرور ہوگی اور ہے۔ پھر اتنی سچی اور اتنی پکی کہ زمین و آسمان سے زیادہ وزنی اور سورج سے بھی زیادہ روشن۔ غور کرو کہ جس روی حالت میں نبی اعظم و آخر ﷺ نے عربوں کو پایا کیا بلحاظ عقائد اور کیا بلحاظ جہالت۔ ایسی بدترین حالت کی قوم اور کسی نبی کی اصلاح کے لیے نہیں دی گئی۔ مگر باوجود ایسی روی حالت میں پانے کے نبی کریم ﷺ کی قوت قدسی نے ان کو ایمان اور عمل پہلو کے لحاظ سے تعلیم و تہذیب کے لحاظ سے ایسے اولیٰ مقام پر پہنچایا کہ کسی نبی نے اپنی امت کو اس مقام تک نہیں پہنچایا۔ وہ نہ صرف رہد و عبادت اور تقویٰ و پرہیز گاری میں تمام دنیا کی قوموں سے آگے بڑھ گئے بلکہ ہر طرح کے اخلاق فاضلہ کے زیور سے آراستہ و پیراستہ ہو کر ہر پہلو میں دنیا کے ہادی و رہبر بن گئے۔ کیا فتوحات ملکی کے لحاظ سے اور کیا سیاست کے لحاظ سے۔ کیا تمدن معاشرت کے لحاظ سے اور کیا علوم و فنون کے لحاظ سے۔ کیا تہذیب کے لحاظ سے اور کیا آزادی خیال کو قائم کرنے کے لحاظ سے۔ کیا ایجادات کرنے کے لحاظ سے اور کیا مساوات نسل انسانی کے قائم کرنے کے لحاظ سے۔ پھر سوچ لو کہ اس دعویٰ پر اس سے زیادہ دلیل اور کیا ہو سکتی ہے ؟ دوسروں کی فکر کا نچوڑ الفاظ کی صورت میں : 212: وہ بات جو شروع کی تھی۔ جوں جوں آگے بڑھتی گئی مزید صاف ہوتی گئی۔ اس امت کی نشانی یہ بتائی گئی تھی کہ دوسروں کی فکر رکھنے والی امت ہے۔ اور ان الفاظ نے اس کی مزید تصدیق کردی فرمایا : ” اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو یہ ان کے یہ ان کے لیے بہتری کی بات ہوتی۔ “ اہل کتاب کا لفظ ویسے تو بہت وسیع معنی رکھتا ہے مگر اکثر جگہ صرف عیسائیوں اور یہودیوں کو اس سے خطاب کیا ہے۔ مثلاً یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ (النساء : 171:4) اور اس زیر نظر آیت میں صرف یہودی مراد ہیں اور اس طرح کے خطابات اور جگہوں پر بھی ہیں۔ ان یہود کو خاص کر کیوں مخاطب کیا گیا ؟ اچھے طبیب و ڈاکٹر کی یہ نشانی ہے کہ اس کے پاس بیک وقت جب بہت سے مریض آجائیں تو سب سے پہلے توجہ اس پر دے گا جو سب سے زیادہ خطرناک حالت میں ہوگا۔ جبکہ اس کے بچنے کی اس کو کچھ بھی امید ہو۔ جب نبی اعظم و آخر ﷺ کی بعثت ہوئی تو ساری قوموں میں سے زیادہ خطرناک امراض میں مبتلاء اہل کتاب میں سے یہودیوں کی جماعت ہی تھی۔ اس لئے آپ ﷺ کو ان کی زیادہ فکر لاحق تھی۔ علاوہ ازیں اب اس سورة کے مضامین کو جنگ احد کے واقعات کی طرف لانا ہے اور ان جنگوں میں ہمیشہ یہودیوں کی طرف سے مسلمانوں کو زیادہ خطرہ رہتا تھا۔ کیونکہ ایک بڑی یہودی آبادی مدینہ منورہ میں موجود تھی۔ اس لئے جنگ کی تمہید میں ان کے تعلقات کا ذکر دیا ہے کہ کاش ! یہ لوگ ایمان لے آتے تو ان کے لئے دنیا و آخرت دونوں میں بہت اجرو ثواب ملتا اور وہ امت مسلمہ میں شامل ہو کر ان انعامات کے مستحق قرار پاتے جن کا ذکر اوپر ہوتا چلا آرہا ہے۔ ہاں ان میں ایمان لانے والے بھی ہیں لیکن زیادہ تعداد شریروں ہی کی ہے : 213: اور پھر آخری جملہ میں ارشاد فرمایا ” ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ایمان رکھنے والے ہیں۔ لیکن بڑی تعداد انہی لوگوں کی ہے جو دائرہ ہدایت سے یکسر باہر ہوچکے ہیں۔ کیوں ؟ اس لئے کہ ان کا کام مخالفت برائے مخالفت ہے۔ حق ناحق کی پہچان نہیں۔ کمالات اسلامی میں سے ایک کمال اس کا یہ بھی ہے کہ وہ کسی قوم کو من حیث القوم برا یا اچھا نہیں کہتا بلکہ ہر اچھا کرنے والے کو اچھا اور ہر برا کرنے والے کو برا کہتا ہے۔ خواہ وہ کوئی ہو۔ قوم یہود کی ساری مخالفتوں کے باوجود اگر ان میں اتنی تعداد بھی نیک لوگوں کی ہے جتنا آٹے میں نمک تو وہ ان کی نیکی کا اعتراف کرتا ہے۔ اور یہی اس نے اس جگہ بیان فرمایا کہ ان میں ایمان والے بھی ہیں۔ اگرچہ وہ تعداد میں بہت کم ہیں اور حقیقت حال یہ ہے کہ ان میں سے اکثر یعنی زیادہ تر فاسق یعنی حدود سے تجاوز کرنے والے اور حد عبودیت سے باہر نکل جانے والے ہیں۔ یاد رہے کہ عبداللہ ؓ بن سلام جو نبی اعظم و آخر ﷺ کے صحابہ کرام ؓ میں سے ایک ہیں ایمان صحابہ کرام ؓ میں سے ایک ہیں اس یہودی قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ اور ان کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ جو رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں ایمان لے آئے تھے۔ اس لئے ” منھم المومنون “ کے الفاظ اس صداقت کا اعلان کر رہے ہیں۔ ایک دوسری جگہ ارشاد الٰہی اس طرح ہے : وَ لَوْ اَنَّ اَھْلَ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَکَفَّرْنَا عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَ لَاَدْخَلْنٰھُمْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ وَ لَوْ اَنَّھُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْھِمْ مِّنْ رَّبِّھِمْ لَاَکَلُوْا مِنْ فَوْقِھِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِھِمْ مِنْھُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ وَ کَثِیْرٌ مِّنْھُمْ سَآئَ مَا یَعْمَلُوْنَ (المائدہ : 66 ۔ 65:5) ” اور اگر اہل کتاب ایمان رکھتے اور پرہیز گار ہوتے تو ہم ضرور ان پر ان کی خطائیں محو کردیتے اور ضرور انہیں نعمت کی جنتوں میں داخل کردیتے۔ اور اگر وہ توراۃ و انجیل کو اور جو کچھ ان کے پروردگار کی جانب سے ان پر نازل ہوا اسے سچائی کے ساتھ قائم رکھتے تو ضرور ایسا ہوتا کہ ان کے ایک گروہ ضرور میانہ رو ہے۔ لیکن زیادہ ایسے ہی ہیں کہ جو کچھ کرتے ہیں برائی ہی برائی ہے۔ “ اور ایک جگہ ادرشاد الٰہی اس طرح ہے کہ : وَ لَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰکِنْ کَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰھُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ (الاعراف : 96:7) ” اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لاتے اور برائیوں سے بچتے تو ہم آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے ضرور ان پر کھول دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا پس اس کمائی کی وجہ سے جو انہوں نے حاصل کی تھی۔ ہم نے انہیں پکڑ لیا اور وہ مبتلائے عذاب ہوگئے۔ “ جو ان کے اپنے ہی کئے کا نتیجہ تھا۔
Top