Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 134
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ١ؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ
الَّذِيْنَ : جو لوگ يُنْفِقُوْنَ : خرچ کرتے ہیں فِي السَّرَّآءِ : خوشی میں وَالضَّرَّآءِ : اور تکلیف وَالْكٰظِمِيْنَ : اور پی جاتے ہیں الْغَيْظَ : غصہ وَالْعَافِيْنَ : اور معاف کردیتے ہیں عَنِ : سے النَّاسِ : جو لوگ وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحِبُّ : دوست رکھتا ہے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کرنے والے
وہ خوشحال و تندرست ہوں یا بیمار و بدحال ، اپنی بساط کے مطابق اللہ کی رضا کیلئے خرچ کرتے ہیں ، غصہ [ میں آ کر بےقابو نہیں ہوجاتے ، لوگوں کے قصور معاف کردیتے ہیں اور اللہ ایسے ہی نیک کرداروں کو دوست رکھتا ہے
وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے فی سبیل اللہ مال خرچ کرتے ہیں : 247: ان متقی انسانوں کا پہلا وصف یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ وہ جس حال میں بھی ہوں تنگ دست ہوں یا خوشحال وہ اپنی بساط کے مطابق خرچ کرتے ہیں اس خرچ کرنے سے ان کی مراد کسی دوسرے کی خوشنودگی ہرگز نہیں ہوتی بلکہ ان کا اصل مطلوب رضائے الٰہی ہوتا ہے۔ ہاں ! رضائے الٰہی کو حاصل کرنے والے سخی لوگ ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی ارشاد فرمایا کہ ” سخی اللہ سے قرب رکھنے والا ہے۔ جنت سے قرب رکھنے والا ہے۔ لوگوں سے قرب رکھنے والا ہے۔ اور دوزخ سے دور رہنے والا ہے اور کنجوس اللہ سے دور رہنے والا ہے۔ لوگوں سے دور رہنے والا اور دوزخ کے قریب رہنے والا ہے اور جاہل سخی اللہ کے نزدیک بخیل عابد سے بہتر ہے۔ “ اور اس طرح کے اور ارشادات بھی آپ ﷺ کے موجود ہیں۔ چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ : ” سخاوت جنت کے درختوں میں سے ایک درخت ہے جس کی شاخیں دنیا میں لٹکی ہوئی ہیں جو شخص ان ٹیواوں میں سے کسی ٹہنی کو پکڑ لے گا وہ ٹہنی اس کو جنت کی طرف کھینچ کرلے جائے گی اور کنجوسی دوزخ کے درختوں میں سے ایک درخت ہے جس کی شاخیں دنیا میں لٹکی ہوئی ہیں جو شخص ان ٹہنیوں میں سے کوئی ٹہنی پکڑ لے وہ ٹہنی اس کو کھینچ کر دوزخ کی طرف لے جائے گی۔ یہ روایت دارقطنی اور بیہقی میں بیان ہوئی ہے اس کے راوی علی ؓ و ابن عدی ؓ اور ابن سعید ؓ ہیں۔ ابن عساکر میں حضرت انس ؓ سے بیان کی گئی ہے اور الدیلمی مسند الفردوس میں معاویہ ؓ سے بیان کرتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک درہم ایک لاکھ سے بازی لے گیا۔ ایک شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ﷺ ! یہ کیسے ہوگیا ؟ فرمایا ایک آدمی ہو جو بہت ہی بڑا مالدار ہو اور اپنے مال میں سے وہ ایک لاکھ درہم خیرات کر دے اور ایک دوسر آدمی جس کے پاس صرف دو درہم ہیں اور وہ ان دو درہموں میں سے ایک درہم خیرات کر دے تو اس کا ایک درہم پہلے کے ایک لاکھ سے بہتر ہوگا۔ یہ روایت نسائی اور ابن خزیمہ میں بیان کی گئی ہے۔ (کیونکہ ایک درہم خرچ کرنے والے نے آدھا مال خرچ کردیا) ۔ وہ غصہ میں بےقابو نہیں ہوتے اور لوگوں کے قصور معاف کردیتے ہیں : 248: ان متقین کی دوسری نشانی آیت زیر نظر میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ ” وہ سخت غصہ کو پی جانے والے ہیں “ کسی مشک کو پانی کے ساتھ بھر کر اس کا منہ بند کردینا تاکہ اس سے پانی نکلنے نہ پائے۔ گویا یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کو اللہ کی راہ میں اتنا تنگ کیا گیا کہ تنگ کرنے والے تنگ کر کے تھک گئے لیکن انہوں نے اپنے سارے غصہ کو اندر ہی اندر بند کردیا۔ کیوں ؟ اس لیے کہ وہ اپنی اس تنگی کو اس لیے نہیں برداشت کرتے کہ وہ اس کا جواب دے سکتے بلکہ محض اس لیے برداشت کرتے ہیں کہ اللہ کی رضا ان کو مطلوب تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے سخت غصہ کو روک لیا باوجودیکہ اس کو اس کے بدلے کی قدرت تھی اللہ تعالیٰ اس کے دل کو امن وامان سے بھر دے گا۔ یہ حدیث احمد اور عبدالرزاق میں بیان کی گئی۔ حضرت انس ؓ نے کہا کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے کہ ” جو شخص غصہ کو پی گیا باوجود اس کے اپنا غصہ نکالنے کا اس کو قابو تھا۔ قیامت کے روز ساری مخلوق کے سامنے اللہ تعالیٰ اس کو بلائے گا اور اس کو اختیار دے گا کہ اس کے عوض جو تیری رضا ہو وہ لے لے۔ “ فرمایا اللہ تعالیٰ ایسے ہی محسنین کو پسند کرتا ہے۔ محسنین کون ہیں ؟ وہی جو متقین ہیں جن کا ذکر اوپر بیان ہوا۔ سفیان ثوری ؓ نے فرمایا کہ برائی کرنے والے سے نیکی کرنا احسان ہے اور بھلائی کا بدلہ بھلائی ہے اور اس طرح کی بھلائی گویا تجارت ہے۔ شیخین نے صحیحین میں حضرت عمر ؓ کی روایت سے نقل کیا کہ جب حضرت جبریل (علیہ السلام) نے رسول اللہ ﷺ سے احسان کی تشریح پوچھی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” احسان یہ ہے کہ تم اپنے رب کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اس کو دیکھ رہے ہو پس اگر تم اس کا تصور نہ کرسکو تو یہ خیال رکھو کہ وہ یقینا تم کو دیکھتا ہے۔ “ اور تنگی اور فراخی میں اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف لینا ہی نہیں جانتے بلکہ دینا بھی جانتے ہیں گویا ان کے دل دنیوی سر و سامان سے وابستہ نہیں ہوتے۔ دیکھو سیدنا یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے یوسف (علیہ السلام) سے کیا سلوک کیا ؟ کسی سے یہ واقعہ پوشیدہ ہے ؟ لیکن سیدنا یوسف (علیہ السلام) نے اس غصہ کو کس طرح پی کر دنیا کو بتا دیا کہ مشیت ایزدی کے مطابق جو شخص جو عمل کرتا ہے اس کا نتیجہ وہ پا لیتا ہے بھائیوں نے جب مصر میں یوسف (علیہ السلام) کو دیکھا اور جب یہ بات ان پر واضح ہوگئی کہ یہ وہی یوسف ہے جس کے متعلق ہم یہ بیان دے چکے ہیں کہ اس کو بھیڑیا کھا گیا تو انہوں نے اپنی خطا کو تسلیم کرلیا جب کہ یوسف (علیہ السلام) نے ان کو محسوس ہی نہیں کرایا تھا تو یہ احساس فرماتے ہوئے کہ بھائیوں نے اپنی زیادتی کا خودبخود اقرار کرلیا ہے آپ (علیہ السلام) نے خود ارشاد فرمایا : ” لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمُ یَغْفِرُ اللّٰہُ لَکُمْ “ آج تم پر کوئی گرفت نہیں ، اللہ تم کو معاف فرمائے۔ “ اور اس سے زیادہ کچھ نہیں فرمایا۔ پھر یوسف (علیہ السلام) کے والد بزرگوار سیدنا یعقوب (علیہ السلام) کو جو دکھ بیٹوں نے پہنچایا جس کے نتیجہ میں مدت تک یعقوب (علیہ السلام) پریشان حال رہے جب یہ معلوم ہوگیا کہ میرا بیٹا مصر میں بخیریت ہے اور وہ بشاء اللہ اس وقت مصر کا بادشاہ ہے اور بیٹوں کو یہ نہیں فرمایا کہ تم ایسے ویسے ہو اور کسی غصہ کا اظہار نہیں فرمایا پھر جب بیٹوں نے اپنے جرم کی معافی کا مطالبہ کیا تو اس کے جواب میں کچھ نہیں فرمایا بلکہ فرمایا تو یہی کہ ” سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَکُمْ رَبِّیْ “ عنقریب میں اپنے رب سے تمہارے لیے بخشش طلب کروں گا۔ قرآن کریم کے یہ واقعات تو درس دیتے ہیں کہ معاف کردینے سے زیادہ کوئی نیکی نہیں ہے۔ پھر قرآن کریم کی صرف ایک آیت کو یاد رکھا جائے تو ساری تشنگی خودبخود ختم ہوجاتی ہے کیونکہ اس حکیم کل سے زیادہ کون بات کو اچھا سمجھا سکے گا چناچہ فرمایا کہ : قُلْ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یَغْفِرُوْا لِلَّذِیْنَ لاَ یَرْجُوْنَ اَیَّامَ اللّٰہِ لِیَجْزِیَ قَوْمًا بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ (الجاثیہ : 14:45) ” اے پیغمبر اسلام ! ایمان لانے والوں سے کہہ دو کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے برے دن آنے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے ان کی حرکتوں پر درگزر سے کام لیں تاکہ اللہ تعالیٰ خود ایک گروہ کو اس کی کمائی کا بدلہ دے۔ “ ظاہر ہے کہ اس جگہ ” اَیَّامِ اللّٰہِ “ سے مراد کسی قوم کے وہ برے دن ہیں جب اللہ کا غضب اس پر ٹوٹ پڑے اور اپنے کرتوتوں کی پاداش میں وہ تباہ کر کے رکھ دی جائے۔ یعنی جن لوگوں کو یہ خیال نہیں ہے کہ کبھی وہ دن بھی آئے گا جب ہمارے ان افعال پر ہماری شامت آئے گی اور اسی غفلت نے ان کو ظلم و ستم پر دلیر کردیا ہے۔ پھر اس آیت کے دو مطلب بیان کیے گئے ہیں اور آیت کے معنوں میں دونوں معنوں کی گنجائش ہے۔ ایک یہ کہ اہل ایمان اس ظالم گروہ کی زیادتیوں پر درگزر سے کام لیں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کو یعنی درگزر کرنے والوں کو اپنی طرف سے ان کے صبر و حلم اور ان کی شرافت کی جزا دے اور راہ خدا میں جو اذیتیں انہوں نے برداشت کی ہیں ان کا اجر ان کو عطا فرمائے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ اہل ایمان اس گروہ سے درگزر کریں تاکہ اللہ تعالیٰ خود اس کی زیادتیوں کا بدلہ اسے دے۔ لیکن افسوس کہ بعض لوگوں نے اس آیت کو منسوخ قرار دے کر قرآن کریم کی اس آیت کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی ہے۔ آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ نسخ کا یہ دعویٰ بالکل لغو ہے۔ ” درگزر کریں۔ معاف کردیں یا بخش دیں “ کے الفاظ اس معنی میں کبھی نہیں بولے جاتے کہ جب آدمی کسی کی زیادتیوں کا بدلہ لینے پر قادر ہی نہ ہو تو اس سے درگزر کرے ، معاف کر دے یا بخش دے۔ آیت میں لفظ ” یَغْفِرُوْا “ استعمال ہوا ہے تو اس سے خودبخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل ایمان انتقام کی طاقت و قوت رکھنے کے باوجود ان لوگوں کی زیادتیوں کا جواب دینے سے پرہیز کریں جنہیں خدا سے بےخوفی نے اخلاق و آدمیت کی حدیں توڑ ڈالنے پر جری کردیا ہے۔ اس حکم کا کوئی تعارض ان آیات سے نہیں ہے جن میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی ہے۔ جنگ کی اجازت کا تعلق اس حالت سے ہے جب مسلمانوں کی حکومت کسی کافر قوم کے خلاف باقاعدہ کاروائی کرنے کی کوئی معقول وجہ پائے اور عفو و درگزر کرنے کا حکم ان عام حالا تکے لیے ہے جن میں اہل ایمان کو خدا سے بےخوف لوگوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سے سابقہ پیش آئے اور وہ انہیں اپنی زبان و قلم اور اپنے برتاؤ سے طرح طرح کی اذیتیں دیں۔ اس حکم کا مقصود یہ ہے کہ مسلمان اپنے مقام بلند سے نیچے اتر کر ان پست اخلاق لوگوں سے الجھنے اور جھگڑنے اور ان کی ہر بیہودگی کا جواب دینے پر نہ اتر آئیں۔ جب تک کہ شرافت اور معقولیت کے ساتھ کسی الزام یا اعتراض کا جواب دینا یا کسی زیادتی کی مدافعت کرنا ممکن ہو اس سے پرہیز کیا جائے مگر جہاں بات ان حدود سے گزرتی نظر آئے وہاں چپ سادھ لی جائے اور معاملہ اللہ کے سپرد کردیا جائے۔ مسلمان ان سے خود نہ الجھیں گے تو اللہ خود ظالموں سے نمٹے گا اور مظلونوں کو ان کے تحمل کا اجر عطا فرمائے گا۔ افسوس کہ آیت قرآنی سے ہمارے علمائے کرا ، ہمارے صوفیاء عظام اور ہمارے سیاست دان حضرات نے کیا سبق سیکھا ؟ کیا قرآن کریم کو پیٹھ پیچھے پھینک دینے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کے احکام کی پرواہ نہ کی جائے ؟
Top