Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Urwatul-Wusqaa - Aal-i-Imraan : 7
هُوَ الَّذِیْۤ اَنْزَلَ عَلَیْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰیٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ١ؕ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ ابْتِغَآءَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغَآءَ تَاْوِیْلِهٖ١ؐۚ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ١ؔۘ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ١ۙ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا١ۚ وَ مَا یَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الْاَلْبَابِ
ھُوَ
: وہی
الَّذِيْٓ
: جس
اَنْزَلَ
: نازل کی
عَلَيْكَ
: آپ پر
الْكِتٰبَ
: کتاب
مِنْهُ
: اس سے (میں)
اٰيٰتٌ
: آیتیں
مُّحْكَمٰتٌ
: محکم (پختہ)
ھُنَّ
: وہ
اُمُّ الْكِتٰبِ
: کتاب کی اصل
وَاُخَرُ
: اور دوسری
مُتَشٰبِهٰتٌ
: متشابہ
فَاَمَّا
: پس جو
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
فِيْ
: میں
قُلُوْبِهِمْ
: ان کے دل
زَيْغٌ
: کجی
فَيَتَّبِعُوْنَ
: سو وہ پیروی کرتے ہیں
مَا تَشَابَهَ
: متشابہات
مِنْهُ
: اس سے
ابْتِغَآءَ
: چاہنا (غرض)
الْفِتْنَةِ
: فساد۔ گمراہی
وَابْتِغَآءَ
: ڈھونڈنا
تَاْوِيْلِهٖ
: اس کا مطلب
وَمَا
: اور نہیں
يَعْلَمُ
: جانتا
تَاْوِيْلَهٗٓ
: اس کا مطلب
اِلَّا
: سوائے
اللّٰهُ
: اللہ
وَالرّٰسِخُوْنَ
: اور مضبوط
فِي الْعِلْمِ
: علم میں
يَقُوْلُوْنَ
: کہتے ہیں
اٰمَنَّا
: ہم ایمان لائے
بِهٖ
: اس پر
كُلٌّ
: سب
مِّنْ عِنْدِ
: سے۔ پاس (طرف)
رَبِّنَا
: ہمارا رب
وَمَا
: اور نہیں
يَذَّكَّرُ
: سمجھتے
اِلَّآ
: مگر
اُولُوا الْاَلْبَابِ
: عقل والے
وہی ذات ہے جس نے تم پر کتاب نازل فرمائی جس میں ایک قسم تو محکم آیتوں کی ہے اور وہی کتاب کی اصل و بنیاد ہیں دو سری قسم متشابہات کی ہے جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ محکم آیتوں کو چھوڑ کر متشابہات کے پیچھے پڑجاتے ہیں کہ فتنہ پیدا کریں اور ان کی حقیقت معلوم کرلیں حالانکہ ان کی حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا مگر جو لوگ علم میں پکے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں کیونکہ یہ سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے اور دانائی حاصل نہیں کرتے مگر وہی جو عقل وبصیرت رکھنے والے ہیں
محکمات و متشابہات کی حقیقت کیا ہے ؟ 16: یہاں اس اصل عظیم کو بیان کیا جارہا ہے کہ کتاب اللہ کی تعلیم دو اصولی قسموں پر مشتمل ہے۔ ایک قسم محکمات کی ہے اور دوسری متشابہات کی۔ محکمات سے مراد وہ مطالب ہیں جو اصل و بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں اس لیے انسانی عقل کے لیے صاف صاف اور کھلے احکام ہیں مثلاً توحید و رسالت ، اوامرونواہی ، حلال و حرام اور متشابہات سے مراد وہ مطالبیں جن کا تعلق ماوراء عقل حقائق سے ہے اور انسانی علم و حواس کے ذریعہ ان کا ادراک نہیں ہوسکتا۔ مثلاً اللہ کی ذات ، مرنے کے بعد زندگی ، عالم آخرت کے احوال ، عذاب وثواب کی اصل حقیقت ، پس ناگزیر طور پر ان کا بیان ایسے پیرایہ میں کیا جاتا ہے کہ فہم انسانی کے لیے ناقابل برداشت نہ ہو اس لیے وہ تشبیہ و مجاز سے خالی نہیں ہوسکتا۔ ایسی صورت میں اگر ایک شخص کج فہمی سے کاوش کرنی چاہے تو طرح طرح کے معانی و مباحث کے احتمالات پیدا کرسکتا ہے۔ اس کی کچھ تفصیل بیان کیجاتی ہے تاکہ بات سمجھ میں آسکے۔ مختصر بات یہ ہے کہ عربی زبان میں محکم اس بات کو کہتے ہیں جو ایسی صفات ہو جس سے ایک ہی مطلب سمجھ میں آئے اور دوسرے مطلب کو نہ آنے دے اور متشابہ اس بات کو کہتے ہیں جس کے کئی مطلب سمجھ میں آتے ہوں اور بخوبی سمجھ میں نہ آتے ہوں اور بخوبی تمیز بھی نہ ہو سکتی ہو کہ کون سا مطلب مقصود ہے یا جو معنی اس کے الفاظ سے متبادر ہوتے ہوں وہ مقصود نہ ہوں بلکہ وہ الفاظ بطور تمثیل یا بطور مجاز و استعارہ کے آئے ہوں۔ اس پر لوگوں نے بہت بحث کی ہے کہ قرآن کریم میں آیات متشابہات کیوں لائی گئی ہیں۔ مگر ہر ایک سمجھ دار آدمی سمجھ سکتا ہے کہ جب قرآن کریم انسانوں کی زبان میں نازل ہوا ہے اور اس سے عوام و خواص سب کو ہدایت مقصود ہے تو اس میں آیات متشابہات کانہ ہونا ناممکن ہے۔ قرآن کریم میں بہت سی ایسی باتیں بیان کی گئی ہیں جن کو انسان کے حواس خمسہ ظاہری و باطنی نے محسوس نہیں کیا ہے اور نہ ہی ان کی کیفیت کو جانا ہے۔ پس امکان ہی نہیں ہے کہ وہ مطلب آیات محکمات میں بیان ہو سکے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ تمثیل کے پیرایہ میں آیات متشابہات کے ذریعہ بیان کیا جائے۔ علاوہ اس کے قرآن کریم تمام لوگوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوا ہے اس کا مقصود یہ ہے کہ جس طرح ذی علم و دانش مند اس سے ہدایت پائیں اسی طرح جاہل و نادان عوام بھیڑوں ، بکریوں اور اونٹوں کے چرانے والے بھی ویسی ہی ہدایت پائیں۔ عوام اکثر حقائق امور کے سمجھنے کے قابل نہیں ہوتے بلکہ بلحاظ زمانہ اور بلحاظ اس قدر ترقی علم و معلومات کے جو اس زمانہ میں ہوئی ہے اکثر ذی علم بھی حقائق اشیاء یا حقیقتہ الامر کے سمجھنے سے عاری ہوتے ہیں۔ صاحب مذہب کو یا یوں کہو کہ روحانی ہادی یا پیغمبر کو جب تک نبوت قائم تھی ان امور سے چنداں بحث نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ روحانی اصلاح و تربیت کو مدنظر رکھ کر ان مطالب کو ایسے الفاظ میں بیان کرتا ہے جن پر متشابہات کا اطلاق ہوتا ہے۔ اگر اس کے ایک پہلو پر خیال کرو تو اس سے وہ مطلب پایا جاتا ہے جو عوام کے خیالات یا اس زمانہ کے اہل علم کی معلومات کے مناسب ہوتا ہے لیکن اس میں ایک دوسرا پہلو بھی مخفی ہوتا ہے اور جب علم کی اور معلومات کی ترقی ہوتی جاتی ہے جب سمجھ میں آتا ہے۔ پس ایک ایسی کتاب میں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہو جیسے قرآن کریم آیات متشابہات کا ہونا امر لازمی و ضروری ہے بلکہ ان کا ہونا ہی دلیل ان کی صداقت اور منزل من اللہ ہونے کی ہے اور قرآن کریم کا بھی بہت بڑا معجزہ ہے۔ اس کے ساتھ بعض امور ایسے بھی ہوتے ہیں جو اصل اصول اور دارومدار اس روحانی تربیت کے ہیں جن کے بغیر روحانی تربیت کا ہونا جو مقصود اصل ہے ناممکن ہے۔ وہ امور بالضرور اس طرح پر بیان ہونے چاہئیں جن کا ایک ہی مطلب ہو اور نہایت صفائی سے سمجھ میں آسکے اور دسورے مطلب کو اس میں آنے کی گنجائش ہی نہ ہو اور یہی مطالب وہ ہیں جن پر آیات محکمات کا اطلاق ہوا ہے۔ اسلام کا سب سے بڑا اصول توحید ہے اور اس کے بعد اعمال حسنہ وہ اس خوبی و عمدگی اور صفائی سے قرآن کریم کی آیات محکمات میں بیان ہوئے ہیں جن میں کسی طرح دوسرا احتمال ہو ہی نہیں سکتا۔ دیکھو سورة الانعام میں فرمایا : ذٰلِكُمْ اللّٰهُ رَبُّكُمْ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ خَالِقُ کُلِّ شَىْءٍ فَاعْبُدُوْهُ وَھُوَ عَلٰى کُلِّ شَىْءٍ وَّكِیْلٌ. (الانعام 6 : 102) ” یہی ہے اللہ ! تمہارا پروردگار۔ کوئی معبود نہیں ہے مگر وہی تمام چیزوں کا پیدا کرنے والا۔ سو دیکھو اس کی بندگی کرو۔ ہرچیز اس کے حوالے سے۔ “ ایک جگہ فرمایا : ” اے پیغمبر اسلام ! کہه دیجیے کہ اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ وہی ہرچیز کا خالق ہے اس کی عبادت کرو۔ “ ایک جگہ فرمایا : ” اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود مت بناؤ ۔ “ (البقرہ 2 : 255 ) ایک جگہ فرمایا : ” كه جو شخص اللہ پر ایمان لایا بیشک اس نے مضبوط ذریعہ پکڑ لیا جس کے لیے ٹوٹنا ہی نہیں ہے۔ “ (البقرہ 2 : 256 ) ایک جگہ فرمایا : ” اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک مت کرو۔ ماں باپ کے ساتھ۔ رشتہ داروں کے ساتھ۔ یتیموں کے ساتھ۔ مسایہ میں جو رشتہ دار رہتے ہوں ان کے ساتھ۔ ہمسایہ میں جو اور لوگ رہتے ہیں ان کے ساتھ۔ جو غیر لوگ ساتھی ہوں ان کے ساتھ۔ مسافر غریب الوطن کے ساتھ احسان کرو۔ “ اور ایک جگہ فرمایا : ” غلاموں کے آزاد کرانے اور کرنے میں مال خرچ کرو۔ “ ایک جگہ فرمایا : ” اللہ صرف مشرک ہی کو نہیں بخشنے کا اور اس کے سوا جتنے گناہ ہیں اگر چاہے گا تو بخش دے گا۔ “ ایک جگہ فرمایا : ” جس شخص نے تابعداری کے ساتھ اپنا منہ اللہ کے سامنے کیا اور وہ نیکی کرنے والا ہوا تو اس کا اجر وثواب اس کے پروردگار کے پاس ہے ان کو کچھ خوف نہیں اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ “ اس طرح کی سینکڑوں آیات کریمات ہیں جو محکمات ہیں جن کا مطلب سوائے ایک کے کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔ ذات الٰه کی تعبیر بجز اس کے کہ موجود ہے۔ ” احد لا ندولا شریک لہ ولیس کمثل شی“ نہ تو آیات محکات سے ہو سکتی ہے اور نہ ہی متشابہات سے۔ اس لیے قرآن کریم میں جابجا اس کی صفات کو بیان کیا ہے مگر جہاں جہاں صفات باری بیان ہوئی ہیں وہ سب از قبیل آیات متشابہات کے ہیں۔ غور کرو کہ : ” ھُوَ حَىٌّ لَا یَمُوْتٌ “ کے الفاظ سے ہم اس زندگی اور موت کا خیال کرسکتے ہیں جو ہم انسانوں اور حیوانوں میں دیکھتے ہیں۔ حالانکہ ذات باری اس حیات و ممات سے جس کو ہم جانتے ہیں پاک ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کی ذات میں سمیع وبصیر و علیم ہونے کی صفات تسلیم کرتے ہیں لیکن ان صفات کو بجز اس قوت اور حس کو جہ ہم کو بذریعہ کانوں ، آنکھوں اور بعد وجود معلومات کے ان کے ادراک سے حاصل ہوتی ہے اور کچھ نہیں جانتے حالانکہ ذات باری اس قسم کی صفات سے بری ہے۔ رحم و غضب اور قہر سے ہم انہیں صفات کو سمجھتے ہیں جو ہمارے دل میں کی حالت زار کو دیکھ کر لاحق ہوتی ہیں اور ہمارا دل اس سے متاثر ہو کر مضطر و رقیق ہوجاتا ہے یا کسی مخالف کی مخالفت یا خلاف طبع امر سرزد ہونے کے سبب ہمارے دل میں ایک جوش انتقام لینے کا اور ایسے فعل کے کرنے کا جس سے ہمارے جوش قلب کو تسکین ہو پیدا ہوتا ہے مگر ذات باری اس قسم کی صفات رحم و فہر سے پاک و مبرا ہے۔ خدا کی نسبت عرش پر بیٹھنا۔ اس کے ہاتھ ہونا۔ اس کا منہ ہونا بیان ہوا ہے۔ ان الفاظ سے بجز ایسے تخت کے جس کو ہم نے دیکھا ہے اور بجزان ہاتھوں کے جو ہمارے بدن میں ہیں اور بجز اس منہ کے جو زیادہ سے زیادہ شان و شوکت والا ہم نے دیکھا ہے اور کوئی معنی ہمارے خیال میں نہیں آسکتے۔ مگر اللہ تعالیٰ اس طرح کے تخت پر بیٹھنے اور ایسے ہاتھوں اور اس طرح کے منہ کے ہونے سے مبرا ہے۔ حشرِ اجر ، نعیم جنت ، عذاب دوزخ کا جن آیتوں میں بیان ہوا ہے وہ سب آیات متشابہات میں سے ہیں۔ جسد کے موجود ہونے کا خیال بجز اس طریقہ کے جس کو ہم دیکھتے ہیں اور طرح پر آهی نہیں سکتا اور اس میں کچھ شبہ نہیں ہے حشر اجساد سے اسی معموی اور عرفی طریقہ پر محشور ہونا مقصود ہے تو ہمارے ذہن میں وہ کسی طرح سما سکتا ہے چناچہ ان سب باتوں کو تماثیل ہی میں بیان کرنا ممکن ہے ویسے بھی ان دیکھی چیزوں کو سوائے تماثیل کے بیان کیا ہی نہیں جاسکتا ان کا جو بیان بھی ہوگا وہ تمثیل ہی ہوگا۔ یہ سب باتیں ہمارے ایمان کا جز ہیں۔ ہم ان کو ایمانیات کی حد تک تسلیم کرتے ہیں اور حقیقت حال کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ ہمیں بحث ان چیزوں سے ہوگی جو مشاہدہ میں آسکتی ہیں اور آتی ہیں اور یہی باتیں ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مبین میں پوری وضاحت بھی فرما دی ہے۔ ان چیزوں میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں ہے جو مافوق العقل ہو ہاں ! ماوراء العقل ہو سکتی ہے۔ جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ اور کجی ہے وہ خرابی ڈالنے کے لیے ان کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور ان کی غلط تاویل کرتے ہیں اور جو لوگ علم میں راسخ ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو کچھ بیان ہوا ہے وہ سب اللہ ہی کے پاس سے آیا ہے۔ اس لیے وہ اس قسم کی تاویلوں کے درپے نہیں ہوتے۔ اب بات سمجھنا آسان ہو گئی آپ ذرا غور کریں گے تو انشاء اللہ حقیقت تک پہنچ جائیں گے۔ وہ باتیں جو مشاہدہ میں آتی ہیں اور روزمرہ زندگی میں سب لوگوں کو پیش آتی رہتی ہیں وہ سب کی سب محکمات ہیں اور جو چیزیں انسانی دسترس سے باہر ہیں اور مشاہدہ میں آهی نہیں سکتیں وہ سب کی سب متشابہات ہیں۔ ایک بات کو سنتے ہی سب سے پہلا اور بنیادی فیصلہ یہ کرنا ہوگا کہ آیا یہ بات مشاہدہ کی ہے یا نہیں۔ اللہ نے اس کا کوئی اصول و قاعدہ مقرر فرما کر اعلان کردیا ہے یا نہیں۔ اس کے ہونے نہ ہونے کا فیصلہ فرما دیا ہے یا نہیں۔ اگر جواب ہاں میں ہے تو وہ یقیناً محکمات میں داخل ہے اور اگر نہیں تو وہ متشابہات ہیں۔ محکمات اپنی جگہ پر اٹل ہیں۔ اس لیے کہ وہ صرف اور صرف ایک ہی مفہوم رکھتی ہیں اور متشابہات میں بات کرنے سے بحث کرنے کی گنجائش باقی ہے لیکن جو بات یا بحث ہوگی وہ افہام و تفہیم کے لیے ہوگی جھگڑے اور مناظرے کے لیے نہیں۔ جب کسی جگہ ایسی صورت پیش آئے گی تو خاموش ہونا ضروری ہے اور اپنا کام کرتے جانے کا حکم ہے۔ شک و تردد میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ وہ مسبّب الاسباب اور علة العلل جس کو ہم اللہ کہتے ہیں۔ وہ وحدہ لا شریک ہے۔ وہی سب چیزوں کا خالق حقیقی ہے۔ ایسے مسبب الاسباب کے لیے ضروری ہے کہ اس میں ایسی چیز بھی ہو جس کو ہم زندگی کہتے ہیں اور ایسی چیز اس میں بالکل نہ ہو جس کو ہم موت کہتے ہیں۔ اس میں کوئی چیز ایسی بھی ہونی ضروری ہے جس کو ہم لفظ سمع و بصر و علم حلم اور رحم و غضب اور قہر سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس میں کوئی ایسا امر بھی ہونا ضروری ہے کہ جن کاموں کو ہم ہاتھ پاؤں اور منہ وغیرہ کے ساتھ منسوب کرسکیں کیونکہ اس کے علة العلل اور مسبب الاسباب اور خالق جمیع اشیاء کے ہونے کو ایسی چیزوں کا اس میں ہونا لازم ہے اس لیے ہم اس کی حی لا یموت ، سمیع وبصیر ، علم ، رحمن و رحیم ، قھار و جبار ہونے پر یقین کرتے ہیں مگر اس امر کی کہ اس کی حیات کیا ہے ؟ اور عدم موت کیا ہے ؟ اس کا سمیع وعلیم و بصیر و رحمان و رحیم اور جبار وقہار ہونا کیا ہے ؟ اور کیسا ہے ؟ کچھ تاویل نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ ’ ’ لَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَهٗ اِلَّا اللّٰهُ “ ہاں ! اس قدر کہه سکتے ہیں کہ وہ ہمارا سا نہیں۔ ہمارے نزدیک آیات متشابہات پر ایمان لانے کے یہی معنی ہیں اور فطرت انسانی کا یہی مقتضیٰ ہے۔ کتاب اللہ کی اصل و بنیاد ہونے کا مطلب کیا ؟ 17: جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا محکم پکی اور پختہ چیز کو کہتے ہیں۔ اصل و بنیادہونے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم جس غرض کے لیے نازل ہوا ہے اس غرض کو یہی آیات پورا کرتی ہیں۔ انہی میں اسلام کی طرف دنیا کو دعوت دی گئی ہے۔ ان ہی میں عبرت اور نصیحت کی باتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ ان ہی میں گمراہیوں کی تردید اور راہ راست کی توضیح کی گئی ہے۔ ان ہی میں دین کے بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں۔ ان ہی میں عقائد و عبادات ، اخلاق و فرائض اور اوامرو نواہی کے احکام ارشاد ہوئے ہیں اور خصوصاً مسیح کی الوہیت کا مسئلہ بھی اصولی و بنیادی ہے یہ فروعی اور متشابہ بات نہیں کیونکہ الٰه ایک ہی ہے اور وہ بہت سی اقنوم یا صرف تین اقنوموں سے مل کر نہیں بنا بلکہ وہ وحدہ لا شریک ذات ہے جس کے اجزاء ممکن ہی نہیں۔ پس جو شخص طالب حق ہو اور یہ جاننے کے لیے قرآن کریم کی طرف رجوع کرنا چاہتا ہے کہ وہ کس راہ پر چلے اور کس راہ کے قریب بھی نہ جائے۔ اس کی پیاس بجھانے کے لیے آیات محکمات ہی اصل مرجع ہیں جن کو عقل کی کسوٹی پر بھی رکھا جاسکتا ہے اور فطرةً انہی پر اس کی توجہ مرکوز ہوگی اور وہ انہی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے اور وہی اس کو سیدھی راہ پر قائم رکھ سکتی ہے۔ متشابہات کیا ہیں اور کیوں ؟ 18: تفہیم کے لیے ضروری ہے کہ ایک بات کو پکڑ لیا جائے اور اس پر بات کر کے کوئی نتیجہ نکالا جائے پھر جب وہ نتیجہ سامنے آجائے تو باقی ساری چیزوں اور باتوں کو اس پر محمول کرلیا جائے ورنہ بات سے بات نکالی جائے گی اور کسی کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکل سکے گا اور نہ ہی باقی چیزوں کو اس پر محمول کیا جاسکے گا مثلاً آپ جنت کے انعامات ہی کو لے لیں۔ قرآن کریم کو کسی جگہ سے کھولیں تو سورتوں کی سورتیں اور آیتوں کی آیتیں اور رکوعات کے رکوعات ان انعامات جنت کے بیان سے بھرے ہوئے ہیں جن کو پڑھنے سے ایک سرور طبیعت میں محسوس ہوتا ہے اور ایک خاص حالت طاری ہوتی ہے۔ الفاظ کی ترتیب ہی ایسی ہے کہ مطلب نہ جاننے والا بھی حظ اور لطف محسوس کرتا ہے اور یہی قرآن کریم کا زندہ وجاوید معجزہ ہے اور اس لیے اس کو معجزانہ کلام کہا جاتا ہے۔ سب صحیح اور سب درست لیکن اس کے باوجود جب ہم حقیقت پر غور کرتے ہیں تو قرآن کریم ہم کو یہ بات بتاتا ہے کہ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِىَ لَھُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍ جَزَاءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ. ” پھر جو کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ان کے اعمال کی جزا میں ان کے لیے چھپا کر رکھا ہے اس کی کسی نفس کو بھی خبر ہے۔ “ (الم السجدہ 32 : 17 ) دوسری طرف نبی کریم ﷺ نے خود اشارہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ععع انی اعدت لعبادی الصالحین ما لا عین رات ولا اذن سمعت ولا خطر علی قلب بشر . ” میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کیا ہے جو کسی آنکھ نے دیکھا نہیں اور کسی کان نے سنا نہیں اور کسی انسان کے دل میں اس کا تصور پیدا ہونا بھی ممکن نہیں۔ “ اس طرح کی آیات کریمات اور احادیث ہم کو بتاتی ہیں کہ جنت کے جن انعامات کا ذکر کیا گیا ہے اور ان کے لیے جو الفاظ اور مفہوم متعین کیا گیا وہ صرف اور صرف اس لیے ہے کہ اگر ان کو اس طرح بیان نہ کیا جاتا تو انسان کی سمجھ میں ان چیزوں اور ان انعامات کا آنا ممکن ہی نہ تھا۔ اس کی اصل حقیقت انسانی مشاہدہ اور احاطہ عقل دونوں سے باہر ہے اور اس چیز کو بیان کرنے کے لیے جو فطرة انسانی کے مشاہدہ اور احاطہ عقل سے باہر ہو ان ہی تمثیلات میں بیان کیا گیا ۔ اس لیے ان آیات کا مفہوم متشابہات میں سے ہے۔ رہی یہ بات کے متشابہات کیوں ہیں ؟ اس لیے کہ محکمات کا پتہ چل جائے اور وہ معلوم ہو سکیں۔ کیونکہ ان انعامات کا انسانی گرفت میں آنا جب تک کہ انسان اس عالم میں موجود ہے ناممکنات میں سے ہے اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو چیزیں انسان کے حواس سے ماوراء ہیں۔ جو انسانی علم میں نہ کبھی آئی ہیں اور نہ ہی آسکتی ہیں جن کو اس نے نہ کبھی دیکھا ، نہ چھوا ، نہ چکھا۔ ان کے لیے انسانی زبان میں نہ ایسے الفاظ مل سکتے ہیں جو انہی کے لیے وضع کئے گئے ہوں اور نہ ایسے معروف اسالیب بیان ہی مل سکتے ہیں جن سے ہر سامع کے ذہن میں ان کی صحیح اور اصل تصویر کھنچ جائے۔ لا محالہ یہ ناگزیر ہے کہ اس نوعیت کے مضامین کو بیان کرنے کے لیے الفاظ اور اسالیب بیان وہ استعمال کیے جائیں جو اصل حقیقت سے قریب تر مشابہت رکھنے والی محسوس چیزوں کے لیے انسانی زبان میں پائے جاتے ہیں۔ چناچہ ما بعد الطبعی مسائل کے بیان میں قرآن کریم کے اندر ایسی ہی زبان استعمال کی گئی ہے اور متشابہات سے وہ آیات مراد ہیں جن میں یہ زبان استعمال ہوئی ہے۔ فتنہ سے کیا مراد ہے اور وہ فتنہ کیوں چاہتے ہیں ؟ 19: فتنہ کے معنی ہر جگہ ایک ہی جیسے نہیں بیان کئے جاسکتے کیونکہ یہ لفظ ہی بہت سے مفہومات کا متحمل ہے۔ اس جگہ فتنہ کے معنی کیا ہیں ؟ اس جگہ اس کا مفہوم حق سے پھیر دینا ہے فتن الرجل یعنی جس حالت پر وہ تھا اس سے اس کو ہٹا دیا۔ چناچہ قرآن کریم میں ایک جگہ رشاد الٰہی ہے کہ : وَاِنْ کَادُوْا لَیَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِىْ اَوْحَیْنَا اِلَیْكَ (بنی اسرائیل 17 : 73) ” اور اے پیغمبر اسلام ! ان لوگوں نے تو اس میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی کہ تجھے فریب دے کر اس تبلیغ کے کام سے روک دیں جو ہم نے بذریعہ وحی نازل کیا ہے۔ “ پس ” ابتغاء الفتنة “ کے معنی ہوئے حق سے پھیر دینے کو چاہتے ہوئے یا گراہی چاہتے ہوئے یا اختلاف چاہتے ہوئے پھر تینوں ہی کا نتیجہ ایک ہے۔ گویا متشابہات ہی میں الجھے رہنے سے ان کی غرض حق کی بجائے گمراہی کا پیدا کرنا ہوتا ہے۔ دین حق سے پھیرنا یا اختلاف ڈالنا۔ رہی یہ بات کہ وہ ایسا کیوں چاہتے ہیں ؟ منافق منافقت کیوں کرتا ہے ؟ کافر کفر کیوں کرتا ہے ؟ جو جواب ان کا ہے وہی ان کا بھی ہے۔ خود محکمات پر عمل کرنا نہیں چاہتے اور اس جھگڑے اور بحث و مباحثہ میں مسلمانوں کو بھی محکمات پر عمل کرنے سے روک دیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آدمی ایک طرف مصروف ہو تو دوسری طرف متاثر ہوتی ہے اور یہ بھی کہ اس طرح سے سچے مسلمانوں کے دلوں میں بھی شبہات پیدا ہونے لگتے ہیں اور یہی ان کی مراد اور یہی ان کا مطلوب ہے۔ اصلیت اور حقیقت صرف ان چیزوں کی معلوم ہو سکتی ہے جو مشاہدہ میں آئیں : 20: ” تاویل “ اول سے ہے جس کے معنی ہیں ایک چیز کا اصل کی طرف رجوع کرنا اور ” تاویل “ کے معنی ہوئے ایک چیز کا اس غایت کی طرف لوٹانا جس کا اس سے ارادہ کیا گیا ہو علمی طور پر یا فعلی طور پر (امام راغب) یہاں تاویل بلحاظ علم مراد ہے۔ ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا تَاْوِیْلَهٗ یَوْمَ یَاتِىْ تَاْوِیْلُهٗ (الاعراف 7 : 53) اور ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا (اسرائیل 17 : 35 ) تاویل فعلی یعنی مال یا انجام مراد ہے اس جگہ ” ابتغاء تاویلہ “ سے مراد مخصوص تاویل ہے یا ایسی تاویل ہے جو محکمات کے خلاف ہے اور تاویل کرنے والا اپنی خواہش کے مطابق تاویل کرے۔ جس طرح وَاَقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا (المزمل 20:73) ” اور اللہ تعالیٰ کو قرض حسن دیتے رہو۔ “ کی اہل کتاب نے یہ تاویل کی کہ : یَدُ اللّٰهِ مَغْلُوْلَةٌ (المائدہ 5 : 64) ” اللہ کا ہاتھ تنگ ہوگیا۔ “ کیونکہ وہ قرض کی اپیل کر رہا ہے۔ حالانکہ صدقہ و خیرات کو قرض اس لیے کہا گیا تھا کہ وہ قابل واپسی ہے ایس نہیں کہ تمہارا خرچ کیا اکارت چلا جائے۔ لیکن جن لوگوں کے دلوں میں کجی یا ٹیڑھا پن تھا انہوں نے اس کو اپنی مرضی کے معنی پہنائے اور اس کو ایک بحث کا موضوع بنالیا۔ اس کی مثالیں قرآن کریم میں بیسیوں موجود ہیں۔ مسیح (علیہ السلام) کے متعلق اناجیل میں بھی محاورات و استعارات کثرت سے استعمال ہوئے تھے اور قرآن کریم نے بھی ان کا استعمال کیا ہے جس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ یہی وہ طریقہ کلام ہے جس میں بڑے بڑے مضامین چند الفاظ میں بیان کئے جاسکتے ہیں اور دوسرے یہ کہ یہی محاورات و استعارات کلام کی روح و جان ہوتے ہیں لیکن کچھ لوگوں نے ان کی تاویل اس طرح کی کہ مسیح (علیہ السلام) کو مخلوق سے اٹھا کر خالق ، عبد سے اٹھا کر معبود اور پروردہ سے اٹھا کر پروردگار بنا دیا۔ مفسرین نے عموماً ” طلب تاویل الذی یشتھونہ “ یعنی اس تاویل کو چاہتے ہوئے جو ان کی اپنی خواہش ہوتی ہے اور یہ بھی معنی ہوسکتے ہیں کہ وہ اس کی تاویل کی طلب میں حد سے تجاوز کرتے ہیں اور وہ حد سے تجاوز کرنا یہ ہے کہ اسے محکمات کی طرف نہیں پھیرتے متشابہ الفاظ کے معنی میں ” ابتغاء “ یہی ہے کہ انسان ان الفاظ کے پیچھے اس طرح پڑے کہ دوسرے الفاظ یا اصول کی طرف توجہ ہی نہ کرے اور اکثر متشابہ کی پیروی کرنے والوں کو یہی غلطی لگتی ہے کہ وہ ان الفاظ کے پیچھے اس طرح پڑتے ہیں کہ باقی بڑی بڑی روشن اور واضح اور غیر مبہم باتوں کی پرواہ تک نہیں کرتے اور اس میں شک نہیں کہ یہ محض اپنی خواہش کی پیروی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اپنی خواہش کیا ہے ؟ یہ کہ جس جماعت یا فرقہ یا گروہ سے انسان وابستہ ہوتا ہے اس جماعت فرقہ اور گروہ کے کسی بزرگ نے کوئی بات کہی اور ایک مدت گزرنے کے بعد اس گروہ کا آدمی اس بات پر محض اس لیے ڈٹ گیا کہ اس کے بزرگوں سے یہ منقول ہے اور یہ اس کی خواہش ہو گئی کہ ہمارے بزرگوں کا کہنا غلط نہیں ہو سکتا۔ اس کے سامنے ہزار دلائل رکھو لیکن وہ سب کی طرف سے آنکھیں بند کرے گا کوئی جواب نہ آیا تو وہ یہ راگ الاپتا رہے گا کہ یہ ہمارے بزرگوں نے کہا ہے اور ان کا کہنا غلط نہیں ہو سکتا۔ ان سے زیادہ آپ سمجھدار کیسے ہوگئے ؟ ان کو یہ بات کیوں معلوم نہ ہوئی جو آپ کو معلوم ہو ﴾گئی۔ قرآن کریم میں اس کی ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ چناچہ سورة شعراء میں سیدنا ابراہیم (علیہ السلام) کے ذکر میں فرمایا گیا ہے کہ : ” اے پیغمبر اسلام ! انہیں ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ پڑھ کر سنائیں جب انہوں نے اپے باپ اور اپنی قوم سے کہا یہ کیا چیزیں ہیں جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ انہوں نے کہا ہم بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور ہم انہیں کے گرد معتکف بیٹھتے ہیں۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا کہ کیا جب تم ان کو پکارتے ہو تو وہ تمہاری پکار سنتے ہیں یا تمہیں کوئی نفع و نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہمے اپنے بڑوں کو ایسا ہی کرتے پایا ہے۔ “ بَلْ وَجَدْنَا اٰبَآءَ نَا کَذٰلِكَ یَفْعَلُوْنَ (الشعراء 26 : 74) اسی مضمون کو وضاحت کے یے مزید دیکھنا مقصود ہو تو ان مقامات کا مطالعہ کرو : (الاعراف 7 : 28) (یونس 10 : 78) (الانبیاء 21 : 53) (لقمان 31 : 21) اور (الزخرف 43 : 20 ۔ 22) علم میں پکے لوگ کون ہیں ؟ 21: ” رسوخ “ کے معنی ہیں کسی چیز کا نہایت ہی مضبوطی کے ساتھ قائم ہوجانا اور ” راسخ فی العلم “ علم میں متحقق کو کہا جاتا ہے (راغب) یہاں ” الا اللہ “ اور ” راسخون فی العلم “ دونوں جگہ پر وقف ہے اس لیے ” وراسخون فی العلم “ کا جملہ دونوں طرف ملتا ہے۔ یعنی اس کی تاویل کوئی نہیں جانتا سوائے اللہ کے اور راسخون فی العلم کے اور یہ بتانے کے لیے کہ وہ راسخون فی العلم کس طرح اس تاویل کو جانتے ہیں یہ الفاظ فرمائے گئے کہ : ” یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِهٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا “ یعنی متشابہات اور محکمات دونوں اللہ کی طرف سے مانتے ہیں۔ گویا ان کا اصول یہ ہے کہ متشابہات کو محکمات پر عرض کرتے ہیں اور ان کے معنی متعین ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ بخاری میں اس طرح پر ان الفاظ کے معنی کئے گئے ہیں۔ بخاری میں ہے : والراسخون یعلمون یقولون امنا بہ ، یعنی راسخ بھی ان معنوں کو جانتے ہیں وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے اور یہ ظاہر ہے کہ اگر متشابہات کے معنی راسخون فی العلم کو بھی معلوم ہو سکتے تو ان کا انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل کرنا بےمعنی ہوجاتا ہے۔ رہی وہ چیزیں جو جنت کے انعامات اور دوزخ کے عذاب نار وغیرہ کے متعلق ہیں تو اس کے معلوم کرنے کی یہاں ضرورت کیا ؟ کیونکہ جب وہ مشاہدہ میں آهی نہیں سکتے تو بس ان کو ماننا اور تسلیم کرنا ہی مراد ہوسکتا ہے جس کو ” ایمان بالغیب ” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہاں ! جب اس عالم سے کوچ کر کے دوسرے عالم میں منتقل ہوں گے تو ان کی حقیقت بھی یقیناً کھل جائے گی۔ عقل مند ہی ہمیشہ نصیحت قبول کرتے ہیں : 22: محاورہ ہے کہ ” عاقل را اشارہ کافی است “ زیر نظر آیت میں محکم اور متشابہ کا ایک اصول بیان فرمایا ہے اور اس سورت کے ان مضامین کی مناسبت ہی سے یہ بیان اس جگہ درج کیا گیا ہے کہ اس میں عیسائیت کے بطلان کی طرف اشارہ ہے کیونکہ عیسائیوں نے محکمات اور متشابہات میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے ہی غلطی کھائی ہے۔ عیسائی مذہب کی بنیاد خصوصاً اس وقت جس کو عیسائیت کہا جاتا ہے اس کی بنیاد صرف متشابہات پر ہے۔ سب سے بڑی دلیل حضرت مسیح کی خدائی کی یہ دی جاتی ہے کہ پیش گوئیوں میں آپ کو خدا کہا گیا ہے اور آپ کی آمد کو خدا کی آمد قرار دیا گیا ہے۔ غور کرو کہ یہ کس قدر لغو بنیاد ہے کیوں ؟ اس لیے کہ پیش گوئی تو خود متشابہات میں سے ہوتی ہے اور پیش گوئیوں کی زبان میں استعارہ اور مجاز کا استعمال بکثرت ہوتا ہے چناچہ خود مسیح (علیہ السلام) کی آمد کے جو نشانات تھے یعنی کتب سابقہ میں ان ہی کو دیکھا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ کس قدر استعارہ و مجاز ہے کیونکہ ان کا استعمال بکثرت ہوا ہے حق تو یہ ہے کہ جن پیش گوئیوں میں خدا کا لفظ آیا وہ حضرت مسیح کے لیے نہیں بلکہ وہ ہمارے نبی کریم ﷺ کی آمد کے متعلق ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ خود حضرت مسیح نے بھی خدا کے آنے کی پیش گوئی کا ذکر کیا ہے۔ (متی 40 , 23:21) جہاں انگورستان کے مالک کی تمثیل میں بیٹے کے آنے کا ذکر کر کے لکھا ہے کہ پھر انگور ستان کا مالک خود آئے گا اور ٓاگے چل کر آیت 43 میں صفائی سے بتادیا کہ ” خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک اور قوم کو جو اس کے پھل لائے دی جائے گی۔ “ پس وہ خدا جس کے آنے کی پیش گوئی بائبل میں ہے وہ بھی محمد رسول اللہ ﷺ ہیں مگر باوجود ان پیش گوئیوں کے وہ خدائی کا دعویٰ نہیں کرتے کیونکہ آپ ﷺ کے نزدیک ان استعارات کا مطلب ہی یہ نہیں ہے اس لیے کہ یہ محکمات اور بدیہی کے خلاف ہے اور جو بدیہی کے خلاف ہو وہ مطلب صحیح ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ بائبل میں لفظ ” خدا “ کا استعمال بطور مجاز نیک لوگوں کے حق میں موجود ہے۔ ” میں نے تو کہا کہ تم الٰه ہو اور تم سب حق تعالیٰ کے فرزند ہو۔ “ (زبور 6:82) ، (یوحنا 43:10) میں حضرت مسیح اس قول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں جب کہ اس نے انہیں جس کے پاس خدا کا کلام آیا ” خدا “ کہا پس اول پیشگوئی بھی حضرت مسیح کے لیے نہیں بلکہ بنی کریم حضرت محمد ﷺ کے لیے ہیں پھر بغیر پیش گوئیوں کے بھی اس بائبل میں لفظ ” خدا “ بطور مجاز نیک لوگوں کے حق میں استعمال ہوا ہے اس لیے اس کے معنی دوسری جگہ بھی یہی مراد ہوں گے۔ پس ایک متشابہ امر کی بنیاد پر تمام محکمات کا رد کرنا یہ عیسائی مذہب کی خطرناک غلطی ہے۔ پھر خود مسیح (علیہ السلام) نے بھی ان کو بتا دیا تھا کہ وہ جو لفظ ” خدا کا بیٹا “ اپنے لیے استعمال کرتے ہیں تو اسی مجازی معنی کی رو سے جس مفہوم کو مدنظر رکھ کر سارے راست بازوں کو خدا اور خدا کا فرزند قرار دیا گیا ہے۔ چناچہ جب یہودیوں نے حضرت مسیح کو سنگسار کرنے کی دھمکی دی تو حضرت مسیح نے ان سے دریافت کیا کہ میں نے خدا کی طرف سے بہت نیک کام کیے ہیں میے کس نیک کام کے عوض مجھے سنگسار کرتے ہو تو انہوں نے جواب میں کہا کہ اچھے کم کے لیے ہم تم کو سنگسار نہیں کرتے بلکہ اس لیے کہ تو کفر کہتا ہے اور ” انسان ہو کر اپنے تئیں خدا بناتا ہے۔ “ (یوحنا 33:10) تو حضرت مسیح نے اس کا جواب یہ دیا کیا تمہاری شریعت میں یہ نہی لکھا کہ میں نے کہا تم خدا ہو جب کہ اس نے انہیں جن کے پاس خدا کا کلام آیا خدا کہا… تم اسے جس کو خدا نے مخصوص کیا اور جہاں میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں۔ “ (یوحنا 36 , 34:10) اس سوال و جواب پر غور کرو کہ اگر حضرت مسیح (علیہ السلام) کا دعویٰ واقعی خدائی کا ہوتا تو جب آپ پر یہ الزام لگایا گیا کہ تم انسان ہو کر اپنے آپ کو خدا کہتے ہو تو اس کا جواب یوں دیتے کہ میں تو خدا ہی ہوں اور تمہاری پیشگوئیوں میں خدا کا آنا لکھا ہے مگر بجائے اس کے آپ نے یہ جواب دیا کہ تمہارے بزرگوں کو بھی ” خدا “ کے کلام میں ” خدا “ کہا گیا ہے۔ اگر ان کا خدا کہلانا کفر نہیں تو میرا خدا کا بیٹا کہلانا کفر کیوں ہوگیا ؟ بالفاظ دیگر جن معنوں میں وہ خدا کہلائے انہیں معنوں میں میں خدا کا بیٹا ہوں۔ نہ وہ حقیقت میں خدا تھے نہ میں حقیقت میں خدا کا بیٹا ہوں مگر مجازی طور پر ان کو بھی خدا کہا گیا ہے۔ مجازی طور پر ہی میں بھی خدا کا بیٹا ہوں۔ اس قدر صفائی کے ہوتے ہوئے عیسائیوں نے متشابہات کو لیا اور محکمات کو چھوڑ دیا۔ اس لیے ان کے عقیدہ کے بطلان میں اس مسئلہ کی توضیح کرنی ضروری تھی۔ پس اس بحث کی ابتداء میں اصولی طور پر بیان کر کے خدا کی صفات مسیح میں نہ پائی جاتی تھیں اب بتایا جاہا ہے کہ ان کو ٹھوکر متشابہات سے لگی تھی اور یہ ٹھوکر ٹھوکر ہی نہیں بلکہ یہ ان کے دلوں کی سراسر کجی کا نتیجہ ہے کہ محکمات کو چھوڑ کر متشابہات میں الجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے مسلمانوں کو بھی متنبہ فرمایا گیا تھا کہ تم ایسی غلطی میں نہ پڑنا مگر افسوس ہے کہ آج بعینہٖ یہی غلطی مسلمانوں نے کی اور کرتے ہی چلے جا رہے ہیں کہ مسیح (علیہ السلام) کی پوری زندگی کو ایک اعجوبہ بنا کر ررکھ دیا ہے لیکن یاد رہے کہ عقل مند وہی ہے جو دوسروں کی ٹھوکر سے فائدہ اٹھا کر خود گرنے سے بچ جائے۔
Top