Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 47
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْهًا فَنَرُدَّهَا عَلٰۤى اَدْبَارِهَاۤ اَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّاۤ اَصْحٰبَ السَّبْتِ١ؕ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دئیے گئے (اہل کتاب) اٰمِنُوْا : ایمان لاؤ بِمَا : اس پر جو نَزَّلْنَا : ہم نے نازل کیا مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والا لِّمَا : جو مَعَكُمْ : تمہارے پاس مِّنْ قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ : کہ نَّطْمِسَ : ہم مٹا دیں وُجُوْهًا : چہرے فَنَرُدَّھَا : پھر الٹ دیں عَلٰٓي : پر اَدْبَارِھَآ : ان کی پیٹھ اَوْ : یا نَلْعَنَھُمْ : ہم ان پر لعنت کریں كَمَا : جیسے لَعَنَّآ : ہم نے لعنت کی اَصْحٰبَ السَّبْتِ : ہفتہ والے وَكَانَ : اور ہے اَمْرُ : حکم اللّٰهِ : اللہ مَفْعُوْلًا : ہو کر (رہنے والا)
اے وہ لوگو ! جن کو کتاب دی گئی ایمان لاؤ اس پر جو ہم نے نازل کیا جو اس کی تصدیق کرنے والا ہے اس کی جو تمہارے پاس ہے اس سے پہلے کہ ہم چیزوں کو مٹا دیں پھر ان کو الٹی جانب کی طرح بنا دیں یا ہم ان پر لعنت کردیں، جیسا کہ ہم نے ہفتہ کے دن والوں پر لعنت کی اور اللہ کا حکم پورا ہو کر ہی رہتا ہے۔
یہود کا ملعون ہونا در منثور صفحہ 168: ج 2 میں حضرت ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت سرور عالم ﷺ نے رؤساء یہود سے بات کی جن میں عبداللہ بن صوریا اور کعب بن اسد بھی تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا کہ اے یہودیو ! اللہ سے ڈرو اور اسلام قبول کرو۔ اللہ کی قسم تم جانتے ہو کہ جو دین میں لے کر آیا ہوں وہ حق ہے، کہنے لگے کہ اے محمد ! کہ ہم اس کو نہیں پہچانتے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت بالا نازل فرمائی اور فرمایا کہ اے اہل کتاب ! جو کتاب ہم نے نازل کی ہے اس پر ایمان لاؤ جو کتاب تمہیں دی گئی تھی یعنی توریت شریف یہ کتاب اس کی بھی تصدیق کرتی ہے اس سے پہلے ایمان لے کر آؤ کہ ہم (سزا کے طور پر ) چہروں کو بالکل مٹا دیں اور ان کو الٹی جانب یعنی گدی کی طرح بالکل صفا چٹ بنا دیں، ناک آنکھ منہ کچھ بھی نہ رہے۔ یا ہم ان لوگوں پر لعنت کردیں، جیسا کہ ہم نے ہفتہ کے دن زیادتی کرنے والوں پر لعنت کی تھی، یہودیوں کو ہفتہ کے دن کی تعظیم کا حکم دیا گیا۔ جس میں یہ بھی تھا کہ اس دن شکار نہ کریں، وہ لوگ نہ مانے نافرمانی کی تو ان کو بندر بنا دیا گیا، جیسا کہ سورة بقرہ رکوع 8 میں اس کا بیان گزر چکا ہے۔ چونکہ یہ واقعہ یہودیوں کا تھا تھا ان ہی میں پیش آیا تھا اور باپ دادوں سے سنتے چلے آئے تھے، اس لیے ان کو یاد دلایا اور بتایا کہ تمہارے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے۔ آخر میں فرمایا : (وَ کَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلاً ) کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ کسی امر کا ہوجائے تو وہ ہو کر ہی رہے گا۔ اس کے فیصلہ کو کوئی روک نہیں سکتا۔ آیت بالا میں جو طمس الوجوہ (یعنی چہروں کا مسخ) فرمانے کا ذکر ہے اس کے بارے میں مفسرین نے بڑی لمبی بحث کی ہے۔ اور یہ سوال اٹھایا ہے کہ یہ مسخ دنیا میں یہودیوں کے ساتھ ہوچکا ہے۔ یا آئندہ کبھی ہوگا ؟ صاحب روح المعانی نے اس کے بارے میں دو صفحے خرچ کیے ہیں اور مفسرین کے متعدد اقوال نقل فرمائے، ہیں، بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ واقعہ پیش نہیں ہوا کیونکہ اس کے بعد بعض یہود مسلمان ہوگئے تھے اور بعض حضرات نے فرمایا کہ قیامت سے پہلے پہلے یہ واقعہ پیش آئے گا، اور یہودیوں میں مسخ ہوگا۔ بعض حضرات نے یوں فرمایا کہ دو چیزوں کا ذکر تھا۔ (مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْھًا فَنَرُدَّھَا عَلٰیٓ اَدْبَارِھَآ اَوْنَلْعَنَھُمْ کَمَا لَعَنَّآ اَصْحٰبَ السَّبْتِ ) اس میں حرف عطف اَوْ استعمال فرمایا ہے جس کا معنی یہ ہے کہ چہرے مسخ کردینا یا لعنت کردینا دونوں میں سے ایک ہوگا جب یہود پر لعنت ہوگئی تو دونوں میں سے ایک چیز وجود میں آگئی اور وعید پوری ہوگئی۔ اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ آخرت میں مسخ کرنا مراد ہے۔ لیکن حضرت حکیم الامت تھانوی قدس سرہ بیان القرآن میں فرماتے ہیں کہ قرآن میں کوئی لفظ ایسا نہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ ایمان نہ لاؤ گے تو مسخ ضرور ہوگا۔ بلکہ بطور احتمال ایک سزا کا ذکر فرمایا ہے اس کے وہ مستحق تو ہیں اللہ کو اختیار ہے کہ عذاب دے نہ دے۔
Top