Tafseer-e-Majidi - An-Nisaa : 47
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْهًا فَنَرُدَّهَا عَلٰۤى اَدْبَارِهَاۤ اَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّاۤ اَصْحٰبَ السَّبْتِ١ؕ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دئیے گئے (اہل کتاب) اٰمِنُوْا : ایمان لاؤ بِمَا : اس پر جو نَزَّلْنَا : ہم نے نازل کیا مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والا لِّمَا : جو مَعَكُمْ : تمہارے پاس مِّنْ قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ : کہ نَّطْمِسَ : ہم مٹا دیں وُجُوْهًا : چہرے فَنَرُدَّھَا : پھر الٹ دیں عَلٰٓي : پر اَدْبَارِھَآ : ان کی پیٹھ اَوْ : یا نَلْعَنَھُمْ : ہم ان پر لعنت کریں كَمَا : جیسے لَعَنَّآ : ہم نے لعنت کی اَصْحٰبَ السَّبْتِ : ہفتہ والے وَكَانَ : اور ہے اَمْرُ : حکم اللّٰهِ : اللہ مَفْعُوْلًا : ہو کر (رہنے والا)
اے وہ لوگوج نہیں کتاب مل چکی ہے اس (کتاب) پر ایمان لاؤ جسے ہم نے نازل کیا ہے تصدیق کرنے والی اس (کتاب) کی جو تمہارے پاس ہے،154 ۔ قبل اس کے کہ ہم چہروں کو مٹا ڈالیں اور چہروں کو ان کے پیچھے کی جانب الٹا دیں،155 ۔ یا ہم ان پر (اس طرح) لعنت کریں جس طرح ہم نے سبت والوں پر لعنت کی تھی،156 ۔ اور اللہ کا حکم پورا ہو کر ہی رہتا ہے،157 ۔
154 ۔ (آیت) ” اوتوالکتب “۔ میں کتاب سے مراد توریت ہے (آیت) ” بمانزلنا “۔ اس کتاب پر جسے ہم نے اب اپنے رسول پر نازل کیا ہے یعنی قرآن پر (آیت) ” مصدقالما معکم “۔ یعنی قرآن تو اصل توریت کی تصدیق ہی کرنے والا ہے، اس کے محرف اجزا ظاہر ہے کہ اس عام تصدیق سے مستثنی ہیں۔ 155 ۔ (غرض اسی طرح کے کسی عذاب شدید وہولناک میں مبتلا کردیں) (آیت) ” نطمس وجوھا “۔ طمس وجہ سے مراد ہے چہرہ کے نقش ونگار اور آنکھ وناک منہ وغیرہ اعضا کو مٹا دینا (آیت) ” فنردھا علی ادبارھا “۔ یعنی ان لوگوں کے چہروں کو گدیوں کی طرف صفاچٹ کردیں۔ ف۔ ہمیشہ تعجب ہی کے لیے نہیں ہوتی کبھی تفصیل اجمال کے لیے بھی ہوتی ہے۔ چناچہ یہاں اسی غرض سے ہے۔ اور یہ دوسرا فقرہ پہلے فقرہ کی تفصیل و توضیح کررہا ہے۔ یہ ڈراوے سب عذاب اخروی کے ہیں لیکن وجوہ کے معنی مجازا سرداروں اور رئیسوں کے بھی آئے ہیں قیل عینی بالوجوہ الاعیان والرؤساء (راغب) یراد بالوجوہ رء وسھم ووجھاؤھم (کشاف) اس لیے فقرہ کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم ان کے سرداروں کو ذلیل و خوار کریں۔ چناچہ کشاف وکبیر وغیرہ میں یہ معنی بھی نقل ہوئے ہیں۔ اسی طرح اس کے متصل فقرہ کے معنی یہ ہوں گے کہ ” ہم ان کی وجاہت واقبال کو سلب کرلیں اور ان پر ذلت وادبار نازل کریں “۔ چناچہ کشاف، بیضاوی وغیرہ میں یہ قول بھی نقل ہوا ہے۔ (آیت) ’ ’ من قبل “ کا صحیح مفہوم پیش نظر نہ رہنے سے ایک سوال یہ پیدا ہوگیا ہے کہ طمس ومسخ کی یہ سزا ملی ہی کب ؟ ظاہر ہے کہ ان سزاؤں کا ظہور تو آخرت میں ہوگا اور من قبل ہمیشہ کسی واقعہ کے واقع ہوجانے ہی پر دلالت نہیں کرتا بلکہ صرف اس کے ہوسکنے پر بھی دلالت کرتا ہے اور محل تہدید میں آتا ہے کہ اس معنی میں اس کا استعمال قرآن مجید میں کثرت سے ہوا ہے۔ حدیث نبوی میں ایک دعا آتی ہے۔ اللھم ارزقنی عینین ھطالتین تسقیان القلب یذرون الدمع من خشیتک قبل ان تکون الدموع دما والاضر اس جمرا “۔ قبل کے یہاں یہ کوئی معنی بھی نہیں سمجھتا کہ بعد کا واقعہ صرف زمانا مؤخر ہے اور واقع ہو کر رہے گا بلکہ مطلب صرف اس قدر ہے کہ اس کے وقوع سے اپنے کو بچایا جائے، اردوہی کے محاورہ میں ہم برابر کہتے رہتے ہیں کہ قبل اس کے کہ دوزخ میں پڑو، گناہوں سے توبہ کرلو، اس کا یہ مطلب کوئی بھی نہیں لیتا کہ دوزخ میں تو بہرحال پڑنا ہے صرف زمانا اس سے قبل توبہ کرلینا چاہیے بلکہ صاف مطلب یہ ہے کہ دوزخ سے بچنے کے لیے گناہوں سے توبہ کرلو، اسی طرح آیت کا خلاصہ مفہوم صرف اس قدر ہے کہ طمس ومسخ کی سزاؤں سے بچنے کے لئے قرآن وصاحب قرآن کی تصدیق کرلو۔ 156 ۔ (آیت) ” اصحب السبت “ پر حاشیہ پارۂ اول میں گزر چکا۔ 157 ۔ (سوطمس، مسخ لعنت جس چیز کا بھی حکم ہوگیا وہ بہرحال پورا ہو کر رہے گا)
Top