Mualim-ul-Irfan - An-Nisaa : 47
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْهًا فَنَرُدَّهَا عَلٰۤى اَدْبَارِهَاۤ اَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّاۤ اَصْحٰبَ السَّبْتِ١ؕ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دئیے گئے (اہل کتاب) اٰمِنُوْا : ایمان لاؤ بِمَا : اس پر جو نَزَّلْنَا : ہم نے نازل کیا مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والا لِّمَا : جو مَعَكُمْ : تمہارے پاس مِّنْ قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ : کہ نَّطْمِسَ : ہم مٹا دیں وُجُوْهًا : چہرے فَنَرُدَّھَا : پھر الٹ دیں عَلٰٓي : پر اَدْبَارِھَآ : ان کی پیٹھ اَوْ : یا نَلْعَنَھُمْ : ہم ان پر لعنت کریں كَمَا : جیسے لَعَنَّآ : ہم نے لعنت کی اَصْحٰبَ السَّبْتِ : ہفتہ والے وَكَانَ : اور ہے اَمْرُ : حکم اللّٰهِ : اللہ مَفْعُوْلًا : ہو کر (رہنے والا)
اے وہ لوگو ! جن کو کتاب دی گئی تھی ، ایمان لاؤ اس چیز پر جس کو ہم نے اتارا اور وہ تصدیق کرنیوالی ہے اس چیز کی جو تمہارے پاس ہے اس سے پہلے کہ ہم مٹا دیں چہروں کو ، ہم پلٹا دیں ان کو پشتوں کی طرف یا ہم ان پر لعنت بھیجیں جس طرح کہ ہم نے لعنت بھیجی ہفتے کے دن زیادتی کرنیوالوں پر۔ اور اللہ کا حکم تو پورا ہو کر رہتا ہے
رابط آیات گزشتہ درس میں اہل کتاب کی بعض قبیح خصلتوں کا تذکرہ ہوا تھا کہ وہ حق و صداقت کے مقابلے میں باطل پرستی کا شیوہ اختیار کرتے ہیں ، اللہ کی کتاب کی تحریف کے مرتکب ہوتے ہیں ، اللہ اور رسول کی نافرمانی کرتے ہیں ، بلکہ اللہ کے نبی کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔ زبان کو پیچ دیکر ذومعنی الفاظ استعمال کرتے ہیں اور دین میں طرح طرح کی نکتہ چینی کرتے ہیں۔ آب آج کے درس کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو وعید سنائی ہے کہ اس قرآن پاک پر ایمان لے آؤ ورنہ ہو سکتا ہے کہ تمہاری شکلیں بگاڑدی جائیں اور تم پر اس طرح لعنت بھیجی جائے جس طرح اصحاب سبت پر بھیجی گئی اور انہیں بندر اور خنزیر بنا دیا گیا۔ ان آیات کی شان نزول کے متعلق مؤرخ محمد ابن اسحاق (رح) بیان فرماتے ہیں کہ ایک موقع پر حضور نبی کریم ﷺ نے یہودی عالموں کو دعوت دی اور انہیں اس طرح خطاب فرمایا کہ اے احبارِ یہود ! ایمان لے آؤ ، بخدا تم جانتے ہو۔ جو چیزیں میں لے کر آیا ہوں ، میں اللہ کی سچی کتاب لایا ہوں ، تم اس پر ایمان لے آؤ مگر یہودیوں پر اس نصیحت کا کچھ اثر نہ ہوا ، بلکہ وہ اپنے باطل عقائد پر اڑے رہے۔ اس پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے ان کی وعید کے لیے یہ آیات نازل فرمائیں۔ ایمان کی دعوت ارشاد ہوتا ہے۔ یایھا الذین اوتو الکتب اے وہ لوگو ! جن کو کتاب دی گئی ہو ، یہودی اور عیسائی اپنے آپ کو اہل کتاب کہلاتے تھے۔ عیسائی انجیل کے حامل ہونے کے دعویدار تھے ، جب کہ یہودی تورات کے۔ قرآن پاک کی اصطلاح میں بھی انہیں اہل کتاب کہا گیا ہے۔ گزشتہ درس میں ” اوتوا نصیباً من الکتب “ کے الفاظ تھے یعنی وہ لوگ جنہیں کتاب کا کچھ حصہ دیا گیا یعنی جن کے پاس محض الفاظ ہیں اور روح نہیں۔ یا یہ کہ اصل کتب کا کچھ حصہ ہی اپنی اصل حالت میں موجود ہے اور باقی تحریف کی نذر ہوچکا ہے۔ تاہم اس آیت میں مطلقاً اہل کتاب کو خطاب ہے کہ امنو بما نزلنا اس چیز پر ایمان لاؤ جس کو ہم نے نازل کیا ہے یعنی قرآن پاک۔ اور وہ ایسی کتاب ہے مصدقا لما معکم جو تصدیق کرتی ہے اس چیز کی جو تمہارے پاس ہے یعنی تورات اور انجیل۔ ظاہر ہے کہ ہر بعد میں آنے والی کتاب پہلی کتاب کی تصدیق کرتی ہے اور بعد میں آنے والا نبی پہلے انبیاء (علیہم السلام) کا مصدق ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک نے تورات ، انجیل اور زبور کی منزل من اللہ ہونے کی تصدیق کی اور حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلّم نے سابقہ تمام انبیاء کے برحق ہونے کی تصدیق کی البتہ سابقہ امتوں نے خود اپنی کتابوں میں خرابی ڈالی اور ان میں تحریف کے مرتکب ہوئے۔ اس بات کا اظہار قرآن پاک نے کردیا ہے۔ سورة مائدہ میں موجود ہے یاھل الکتب قدجاء کم رسولنا یبین لکم کثیراً مما کنتم تخفون من الکتب وینفوا عن کثیر اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارا رسول آ گیا ہے جو تمہاری بہت سی (مسخ شدہ) باتوں کو ظاہر کرتا ہے اور بعض چیزوں سے درگزر کرتا ہے یعنی تمہاری بعض خصلتیں ایسی بھی ہیں جنہیں ظاہر نہیں کیا گای۔ لہٰذا تم قرآن پاک پر ایمان لاؤ جو تمہاری کتابوں کی تصدیق کرتا ہے۔ من قبل ان نطمس وجوھاً اس سے پیشتر کہ تمہارے چہرے مٹا دیے جائیں یا مسخ کردیے جائیں ، بگاڑ دیے جائیں۔ فتردھا علی ادبارھا پس چہروں کو پشت کی جانب پھیردیں۔ ایسا وقت آنے سے پہلے پہلے ایمان لے آؤ ۔ جب اللہ کا غضب جوش میں آتا ہے تو پھر ایسا ہوتا ہے کہ دینا میں ہی لوگوں کی شکلیں مسخ کردی جاتی ہیں۔ قرآن پاک میں کتنی نافرمان قوموں کا ذکر ہے جن کی شکلیں بگاڑ دی گئیں اور انہیں جانوروں کی شکلوں میں تبدیل کردیا گیا۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ آخری زمانہ میں بھی ایسا ہوگا ، قربِ قیامت میں بھی بعض لوگوں کی شکلیں مسخ کردی جائیں گی۔ جب کسی کا قلب و ذہن باطنی گمراہی سے بھرا ہو تو ظاہر ہے کہ باطنی طور پر تو اس کی شکل بگڑ چکی ہے اور یہ شر کا دوسرا درجہ ہے۔ اس کا آخری درجہ یہ ہے کہ ظاہری شکلیں بھی بگڑ جائیں۔ عام طور پر ایسا نہیں ہوتا ، تاہم کہیں اکا دکا واقعہ پیش آجانا عین ممکن ہے۔ اصحابِ سبت فرمایا ایمان لے آؤ قبل اس کے کہ تمہاری شکلیں مسخ کردی جائیں اونلعنہم یا ہم ان پر لعنت بھیجیں ، رحمت سے دور کردیں کما لعناً اصحب السبت جس طرح کہ ہم نے ان لوگوں پر لعنت بھیجی جو ہفتے کے دن زیادتی کرتے تھے۔ یہ بھی بنی اسرائیل ہی کا ایک فرقہ تھا۔ ان کو حکم تھا کہ وہ ہفتے کے دن کوئی کاروبار نہ کریں سوائے عبادت کے ، مگر انہوں نے حیلے بہانے سے مچھلی کا شکار شروع کردیا اور اس طرح حرام چیز کو حلال بنانے کی کوشش کی اور بار بار سمجھانے کے باوجود نہ سمجھے۔ آخر اللہ کا عذاب اس شکل میں نازل کہ اللہ نے حکم دیا ” کونوا قردۃ خاسئین ذلیل بندر بن جاؤ دوسرے مقام پر فرمایا وجعل منہم القردۃ والخنازیر بعض کی شکلیں بندروں کی اور بعض کی خنزیروں کی بن گئیں۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ ان کے نوجوان بندروں کیش کل میں تبدیل ہوگئے اور بوڑھے خنزیر بن گئے۔ فرمایا وکان امر اللہ مفعولاً اور اللہ کا حکم تو ہو کر رہتا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو عید سنائی ہے کہ خدا کا خوف کرو ، ایمان لے آؤ ۔ اللہ کا نبی تو پہلی کتابوں کا مصدق ہے۔ لہٰذا تمہارے انکار کی کوئی وجہ باقی نہیں۔ تم کیوں۔ کفر پر ا صرار کر رہے ہو۔ شرک ناقابلِ معافی جرم ان تمام تر خرابیوں کے باوجود یہودی اس دعوے پر مصر تھے کہ وہی صحیح دین پر قائم ہیں۔ وہ اپنے کفر اور شرک کا انکار کرتے تھے ، مگر اللہ تعالیٰ نے بطور قانون ارشاد فرمایا ان اللہ لاتغفران تشرک بہ بیشک اللہ تعالیٰ نہیں بخشا اس بات کو کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے۔ شرک ایسی قبیح بیماری ہے کہ اس کے لیے بقائمی ہوش و حواس توبہ ضروری ہے اگر مرنے سے پہلے توبہ نہیں کی تو ایسا شخص ہمیشہ کے لیے عذاب کا مستحق بن گیا۔ البتہ ویغفر مادون ذلک لمن یشاء شرک کے علاوہ دیگر جس گناہ کو اللہ چاہے اپنی رحمت سے معاف فرمادے ، اللہ تعالیٰ نے یہ قانون کے طو ر پر بتلا دیا کہ شرک کے علاوہ جو بھی گناہ کریگا ، اس کی معافی کی گنجائش موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو سزا دینے کے بعد معاف کر دے یا اپنی رحمت کے ساتھ بغیر سزا دیے بھی معاف کر دے مگر جہاں تک شرک جیسے عظیم گناہ کا تعلق اس کی معافی کی کوئی صورت نہیں سوائے اس کے کہ انسان موت طاری ہونے سے پہلے پہلے سچے دل سے تائب ہوجائے۔ فرمایا و من یشرک باللہ جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا فقد افتریٰ اثما عظیماً اس نے بہت بڑے گناہ کا افتراء کیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی شان میں گستاخی ہے کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے قرآن پک میں شرک کی جگہ جگہ مذمت بیان کی گئی ہے۔ شرک کی تعریف شرک کی وضاحت قرآن و سنت میں موجود ہے۔ علمائے کرام نے شرک کی تردید میں بڑی کتابیں لکھی ہیں۔ شاہ اسماعیل شہید (رح) کا رسالہ تقویۃ الایمان توحید و شرک کے مسئلہ کی خوب وضاحت کرتا ہے۔ ایک اور بزرگ مولانا حافظ احمد الدین صاحب بھیرے کے قریب موضع بگا کی رہنے والے تھے۔ مولانا شاہ محمد اسحاق (رح) کے شاگرد تھے۔ چودہ سال تک دہلی میں تعلیم پائی۔ آپ نے آج سے قریباً ڈیڑھ ، پونے دو سو سال پہلے دلیل المشرکین کے نام سے عربی زبان میں کتاب لکھی ، جس کا ترجمہ اس فقیر نے کیا ہے۔ اس میں حافظ صاحب نے شرک کی بیس قسمیں بیان کی ہیں۔ شاہ عبدالقادر محدث دہلوی (رح) نے قرآن پاک کے دوسرے پارے کے حاشیے میں ایک چھوٹا سانوٹ دیکر یہ مسئلہ سمجھایا ہے۔ فرماتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” ولا تنکحوا المشرکین “ یعنی مومن مرد مشرک عورت سے نکاح نہیں کرسکتا۔ اور مومن عورت مشرک مرد کے نکاح میں نہیں آسکتی آپ فرماتے ہیں کہ اگر مرد یا عورت میں سے کسی ایک نے شرک کا ارتکاب کیا تو اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا کیونکہ مومن اور مشرک کا نکاح نہیں ہو سکتا۔ بعض صفات اللہ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی صفت غیر اللہ میں مانی جائے تو شرک کا ارتکاب ہوجائے گا۔ مثلاً یہ کہ کسی پیر ، ولی ، بزرگ ، فرشتے یا نبی کو ہر شے کا علم ہے ، مشرکانہ عقیدہ ہے کیونکہ واللہ بکل شی علیم ہر چیز کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ اسی طرح قدرت تامہ بھی اللہ کی صفت مختصہ ہے۔ اگر کوئی یہ اعتقاد رکھے کہ فلاں بزرگ یا نبی یا ولی جو چاہے کرسکتا ہے تو وہ بھی مشرک ہوگیا۔ قادر مطلق ہونا بھی اللہ ہی کی صفت ہے۔ اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ اس کا بُرا بھلا کرنا کسی دوسرے کے اختیار میں ہے ، کوئی نبی ، ولی اس کا نافع اور ضار ہے تو یہ بھی شرک میں داخل ہے۔ اسی طرح غایت درجہ کی جو تعظیم اللہ تعالیٰ کے سامنے کرنی چاہیے ، جیسے رکوع ، سجود وغیرہ ، یہی تعظیم اگر غیر اللہ کی کریگا ، تو شرک کا ارتکاب ہوگا۔ شرک کبھی ذات میں ہوتا ہے اور کبھی صفات یا عبادت میں۔ خدا تعالیٰ کی ذات کے علاوہ کسی دوسرے کو اگر خدا مانے گا تو یہ شرک فی الذات ہوگیا مجوسیوں کا ایک فرقہ ثنوی ہے ، جو یزدان اور اہرمن دو خدا مانتے ہیں یہ بھی مشرکانہ عقیدہ ہے۔ شرک مشیت میں بھی ہوتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی دوسری ہستی بھی ایسی مانی جائے جو جو چاہے کرسکے۔ ایک شخص نے حضور ﷺ کے سامنے عرض کیا ماشاء اللہ وماشئت یعنی جو آپ چاہیں اور اللہ چاہے۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا ، کیا تو مجھے خدا کا شریک بنانا چاہتا ہے ۔ کہو ماشاء اللہ وحدہٗ جو صرف اللہ چاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ مختار کل کوئی نہیں ہے۔ تصرف میں شرک یہ ہے کہ اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کو نفع نقصان کا مالک سمجھ کر اس سے روزی ، اولاد یا شفا طلب کی جائے۔ کسی نبی ، ولی یا پیر کے متعلق یہ عقیدہ رکھا جائے کہ اسے بھی تصرف حاصل ہے تو یہ بھی شرک ہوگا۔ عبادات میں رکوع ، سجود وغیرہ کا ذکر آ چکا ہے ، اس کے علاوہ طواف بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے اور بیت اللہ شریف کے ساتھ مختص ہے ولیطوفوا بالبیت العتیق بیت اللہ شریف کا طواف کرو۔ اگر یہی طواف کسی قبر یا مسجد کے گرد کیا ، تو یہ بھی شرک ہوگیا۔ کوہِ مراد پر کوئی گمراہ فرقہ ہے۔ انہوں نے کوئی ایسی جگہ بنائی ہوئی ہے جس کا طواف کرتے ہیں۔ یہ صریحاً شرک ہے۔ نذر بغیر اللہ یعنی اللہ کے سوا کسی دوسرے کی نذر ماننا بھی شرک ہے۔ نذر صرف خدا تعالیٰ کی مانی جاسکتی ہے۔ بعض اوقات شرک فی العادت ہوتا ہے کئی کام عادت کے طور پر کیے جاتے ہیں جیسے زنا باندھنا ، جنیوا باندھنا یا گلے میں صلیب لٹکانا وغیرہ ایک شخص صلیب لٹکا کر حضور ﷺ کے سامنے آیا تو آپ نے فرمایا الق عنک ہذا لوثن اس بت کو اتار پھینکو یہ شرک کی نشانی ہے۔ بعض نام بھی شرکیہ ہوتے ہیں جیسے عبدالمسیح ، عبدالمصطفیٰ ، عبدالرسول یا عبدالحسین ، عبدیت کی نسبت ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف ہونی چاہیے اگر غیر کی طرف ہوئی ، تو شرک ہوگیا۔ قسم اٹھانے میں بھی شرک ہوتا ہے۔ من احلف بغیر اللہ فقداشرک جس نے غیر اللہ کی قسم اٹھائی اس نے بھی شرک کیا۔ اللہ کی ذات اور اس کی صفات کے علاوہ کسی دوسرے کی قسم اٹھانا حرام ہے۔ بعض اوقات جانور ذبح کرنے میں شرک ہوتا ہے ۔ کوئی مکان یا دیگر عمارت شروع کرتے وقت اس کی بنیاد میں جانور ذبح کرتے ہیں۔ عقیدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر ایسا نہ کیا تو عمارت میں نقص رہ جائے گا۔ بسا اوقات کسی درخت کے نیچے یا کسی نہر پر جانور ذبح کیا جاتا ہے اور اس سے مقصود کسی جن بھوت کو خوش کرنا ہوتا ہے۔ یہ بھی مشرکانہ عقیدہ ہے ۔ کسی چیز میں مستقل تاثیر ماننا بھی شرک ہے کیونکہ مستقل تاثیر تو خدا تعالیٰ کے حکم میں ہے اور اس کی صفت میں ہے۔ اس کے علاوہ ہر تاثیر مستعار ہے۔ استعانت مافوق الاسباب میں بھی شرک ہوتا ہے عالم اسباب میں ایک دوسرے کی مدد کرنا شرک نہیں بلکہ یہ تو حکم ہے۔ ” تعاونوا علی البر والتقوی “ نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔ البتہ مادی اسباب کے علاوہ غائبانہ طور پر اگر کوئی غیر اللہ سے مدد طلب کرتا ہے ، تو وہ مشرک ہے ندا میں بھی شرک ہوتا ہے۔ غیر اللہ کو حاضر ناظر سمجھ کر پکارنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ وہ ہماری بات سنتے ہیں ، شرک ہے۔ جیسے یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا اللہ ، یا بہاؤ الحق ، یا پیر دستگیر ، یا علی ، یا حسین وغیرہ سب شرک ہے۔ جانور ذبح کرتے وقت اگر اللہ کے علاوہ کسی دوسری ہستی کا نام لے لیا تو بھی شرک کا ارتکاب ہوگیا جیسے بسم اللہ و اسم محمد حالانکہ صرف بسم اللہ کہنا ضروری ہے اسی طرح شگون لینا بھی شرک ہے۔ کوئی جانور الو وغیرہ دائیں یا بائیں اڑ گیا تو عرب اسے منحوس خیال کرتے تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا الطیرۃ شرک شگون لینا بھی شرک ہے۔ مومن ہمیشہ ذات خداوندی پر بھروسہ کرتا ہے ، وہ اس اس قسم کے وہم میں مبتلا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی ایسی بات ذہن میں آئے تو اسے نکال دینا چاہیے۔ لوگ خبریں معلوم کرنے میں بھی شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔ نجومی رمال ، جفار یا دست شناس سے قسمت حال معلوم کرنا شرک ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کیا یہ لوگ غیب دان ہیں ؟ عالم الغیب تو صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے فرمایا جو شخص نجومیوں سے خبریں معلوم کرتا ہے اور ان پر یقین کرتا ہے وہ محمد کی شریعت کا انکار کرتا ہے۔ ایسی شرکیہ باتوں پر قطعاً یقین نہیں رکھنا چاہیے۔ بعض لوگ تصور میں شرگ کرتے ہیں ان کا خیال ہے کہ بزرگوں ، مشائخ یا پیران پیر کی روحیں ان کے گھر آتی ہیں فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ ایسا عقیدہ رکھنے والا آدمی کافر ہے ، مشرک ہے ، یہ تصور میں شرک ہے۔ تعویز گنڈے میں بھی بعض اوقات فرعون ، جبرائیل یا کسی جن سے مدد طلب کی جاتی ہے تعویزوں میں شرکیہ کلمات ہوتے ہیں۔ حضور ﷺ نے صراحتاً فرمایا کہ گلے میں لٹکانے والے تعویزوں میں بھی شرک ہوتا ہے بعض اوقات جھاڑ پھونک میں شرکیہ الفاظ کا استعمال ہوتا ہے۔ غیر اللہ سے استعانت طلب کی جاتی ہے۔ یہ بھی شرک میں داخل ہے کبھی توسل میں شرک کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔ غیر اللہ کا وسیلہ پکڑا جاتا ہے کہ وہ ہر حالت میں ہماری حاجت خدا تعالیٰ سے پوری کرادیں گے۔ اللہ تعالیٰ راضی ہو یا ناراض ، یہ بزرگ ہمارا کام ضرور کروا دیں گے۔ مشرکین عرب ، لات ، منات اور عزیٰ کے متعلق یہ اعتقاد رکھتے تھے۔ یہودی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق یہی تصور رکھتے تھے اور شیعہ امام حسین ؓ کو وسیلہ پکڑتے ہیں۔ قبر پرست لوگ بہت سے بزرگوں کے متعلق یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کی نذر و نیاز دے دی جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کو ضرور راضی کرلیتے ہیں اور شرک کی بیسویں قسم ریا ہے ، اسے شرک اصغر کہا جاتا ہے اگر کوئی عمل دکھاوے کے لیے کیا جائے تو شرک کا ارتکاب ہوگا۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے من عمل یرالی فقد اشرک جس نے دکھلاوے کے لیے کوئی عمل کیا۔ اس نے شرک کا ارتکاب کیا ، شرک کی یہ تمام اقسام فقد افتری اثماً عظیماً میں آتی ہیں۔ خودستائی آگے اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کی مذمت میں فرمایا الم تر الی الذین یزکون انفسہم کیا آپ نے ان لوگوں کی طرف نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو پاک صاف بتاتے ہیں حالانکہ ان میں کفر ، شرک اور معاصی جیسی قبیح بیماریاں موجود ہیں۔ یہود و نصاریٰ اپنے آپ کو پیغمبر زادے کہتے تھے اور محض اس بات پر ہی فخر کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا شخص جنت میں نہیں جائیگا۔ یہ بیماری آج کل کے مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہے ، وہ پیرزادے اور سید زادے کہلاتے ہیں بعض نے یہ فتویٰ بھی دیا کہ حضرت فاطمہ ؓ کی اولاد میں سے کسی عورت کا نکاح امتی کے ساتھ جائز نہیں ، یہ ایک قسم کا خود ساختہ تقدس ہے۔ اپنے آپ کو اعلیٰ خاندان سے منسوب کرنا حالانکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بڑائی کا معیار نیکی ، ایمان اور تقویٰ ہے۔ محض ذات پاک کی وجہ سے کسی کو برتری حاصل نہیں ہے تو فرمایا کہ یہود ونصاریٰ اپنی تعریف آپ کرتے ہیں اور اس میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا بل اللہ یزکی من یشاء پاک تو اللہ کرتا ہے ، جسے چاہے پاک کر دے دوسری جگہ فرمایا فلا تزکوا انفسکم و ھو اعلم بمن اتقی اپنی پاکیزگی خود نہ کرنے لگ جاؤ ، بلکہ یہ تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تم میں سے کون زیادہ متقی ہے اور کون زیادہ پاک ہے۔ ہر شخص کی بغیر سوچے سمجھے تعریف کرنا درست نہیں ہے تعریف اللہ تعالیٰ کی ہے یا انبیاء کی معصوم جماعت کی ، جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے اجازت دی ہے۔ یقینا وہ اللہ تعالیٰ کے پاک اور برگزیدہ بندے ہیں۔ اللہ نے ان کی تعریف خود وحی الٰہی میں کی ہے مگر کسی چھوٹے بڑے آدمی کی قطعی تعریف بغیر علم کے جائز نہیں ہے۔ فرمایا اللہ کا قانون یہ ہے کہ اس کے ہاں انصاف ہوگا۔ ولایظلمون فتیلاً ایک دھاگے کے برابر بھی کسی پر زیادتی نہیں ہوگی۔ فتیل اس چھوٹے سے دھاگے کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے درمیان ہوتا ہے اسے قطمیر بھی کہتے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو جتناعمل کریگا ، اس کے مطابق بھگتان کرنا ہوگا ، مگر زیادتی کسی کے ساتھ نہیں ہوگی۔ اللہ پر افترأ فرمایا انظر کیف یفترون علی اللہ الکذب فرمایا دیکھو ! یہ یہود و نصاریٰ کس طرح اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں ان میں ہر برائی موجود ہے مگر پھر بھی کہتے ہیں ” نحن ابناء اللہ واحباء ہ “ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں۔ ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔ ہم نبی آخر الزماں پر ایمان لانے کے لیے تیار نہیں ، ہم اسے (العیاذ باللہ) سچا نبی نہیں سمجھتے۔ اللہ نے فرمایا وکفی بہ اثماً مبیناً اس سے بڑھ کر اور کیا گناہ ہو سکتا ہے۔ ان لوگوں میں ہر قسم کی برائی موجود ہے مگر اپنا تقدس ظاہر کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر ان کی کیا بدبختی ہو سکتی ہے۔
Top