Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 47
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ اٰمِنُوْا بِمَا نَزَّلْنَا مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّطْمِسَ وُجُوْهًا فَنَرُدَّهَا عَلٰۤى اَدْبَارِهَاۤ اَوْ نَلْعَنَهُمْ كَمَا لَعَنَّاۤ اَصْحٰبَ السَّبْتِ١ؕ وَ كَانَ اَمْرُ اللّٰهِ مَفْعُوْلًا
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اُوْتُوا الْكِتٰبَ : کتاب دئیے گئے (اہل کتاب) اٰمِنُوْا : ایمان لاؤ بِمَا : اس پر جو نَزَّلْنَا : ہم نے نازل کیا مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والا لِّمَا : جو مَعَكُمْ : تمہارے پاس مِّنْ قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ : کہ نَّطْمِسَ : ہم مٹا دیں وُجُوْهًا : چہرے فَنَرُدَّھَا : پھر الٹ دیں عَلٰٓي : پر اَدْبَارِھَآ : ان کی پیٹھ اَوْ : یا نَلْعَنَھُمْ : ہم ان پر لعنت کریں كَمَا : جیسے لَعَنَّآ : ہم نے لعنت کی اَصْحٰبَ السَّبْتِ : ہفتہ والے وَكَانَ : اور ہے اَمْرُ : حکم اللّٰهِ : اللہ مَفْعُوْلًا : ہو کر (رہنے والا)
اے وہ لوگوں ! جنہیں کتاب دی گئی، ایمان لے آؤ تم اس کتاب پر جس کو ہم نے (اب) اتارا ہے، اس حالت میں کہ وہ تصدیق کرنے والی ہے اس کتاب کی جو کہ تمہارے پاس ہے قبل اس سے کہ ہم مٹا ڈالیں کچھ چہروں کو، پھر ان کو ہم الٹ دیں ان کی پیٹھوں پر، یا ان پر ایسی لعنت کردیں جیسی لعنت ہم نے ہفتہ والوں پر کی تھی (جس سے وہ ذلیل بندر بن گئے تھے) اور اللہ کا حکم تو ہو کر ہی رہتا ہے،1
120 قرآن حکیم کی تصدیق تورات و انجیل کیلئے تین طرح سے : قرآن حکیم سے تورات و انجیل کی یہ تصدیق تین طرح سے ہوتی ہے۔ ایک تو اس طرح کہ تورات و انجیل میں آخری پیغمبر اور ان پر نازل ہونے والی اس وحی کی خبر دی گئی تھی۔ تو اس طرح اس کتاب کا محض نزول ہی تورات و انجیل کی تصدیق ہے۔ کیونکہ اگر بالفرض یہ کتاب حکیم نازل نہ ہوتی تو اس سے متعلق تورات و انجیل کی ایسی تمام پیشینگوئیاں جھوٹی پڑجاتیں۔ اور دوسرے اس طرح کہ اس کتاب حکیم میں بھی انہی بنیادی حقائق و عقائد کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے جو کہ ان کتابوں میں مذکور تھے، اور اس میں یہ تعلیم بطریق احسن اور بدرجہ کمال فرمائی گئی ہے۔ اور تیسرے اس طرح کہ اس کتاب میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے کہ وہ سابقہ کتابیں بھی آسمانی اور الہامی کتابیں تھیں۔ اور وہ بھی اپنے اپنے وقتوں میں مینارہ نور اور سرچشمہئ رشد و ہدایت تھیں۔ سو اس سب کا مقتضیٰ یہ تھا کہ اہل کتاب آگے بڑھ کر اس کو قبول کرلیتے۔ صدق دل سے اس پر ایمان لاتے۔ اس کی دعوت پر لبیک کہتے اور اس کی تعلیمات مقدسہ کو دل و جان سے اپناتے۔ مگر یہ لوگ ہیں کہ الٹا اس کے مقابلے میں اور اس کا راستہ روکنے کے لئے کھڑے ہوں گے۔ سو یہ کتنی بڑی بےانصافی اور کس قدر محرومی اور بدبختی ہے۔ سو یہی نتیجہ ہوتا ہے اتباع ہویٰ اور ہٹ دھرمی کا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 121 چہروں کو مٹانے اور الٹنے سے مراد ؟ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ ایمان لے آؤ اس کتاب پر جو تصدیق کرنے والی ہے اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے قبل اس سے کہ ہم مٹا ڈالیں کچھ چہروں کو پھر ان کو ہم الٹ دیں ان کی پیٹھوں کی طرف۔ یعنی حقیقتًا جیسا کہ منکروں کے ساتھ قیامت سے پہلے، اور قیامت کے بعد ہوگا۔ یا حکماً اور مجازاً کہ راہ حق سے ان کے چہرے پھیر کر ان کو کفر و ضلال کے اندھیروں میں پھینک دیا جائے۔ (جامع البیان وغیرہ) ۔ اور یہ اس لیے کہ کانوں آنکھوں وغیرہ کی یہ نعمتیں تم لوگوں کو اسی لیے دی گئی تھیں کہ ان سے صحیح کام لیکر تم لوگ حق و ہدایت کی اس راہ کو اپناؤ جو دارین کی سعادتوں سے ہمکنار و بہرہ ور کرنے والی راہ ہے۔ لیکن جب تم ان سے ان کا یہ کام لینے کی بجائے الٹا ان کو حق اور اہل حق کیخلاف استعمال کرنے لگے اور تم نے ان کو ہدایت و روشنی کے میناروں کی بجائے ہلاکت کے گڑھے بنادیا تو اب یہ اسی قابل ہیں کہ ان کو مٹا دیا جائے اور تم لوگ اندھے بہرے بن کر ہلاکت و تباہی کے ہولناک گڑھوں میں گر کر اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ جاؤ۔ اسی لیے دوسرے مقام پر ایسے لوگوں کو بہرے گونگے اور اندھے { صُمٌّ، بُکْمٌ، عُمْیٌ} فرمایا گیا ہے۔ سو حق سے اعراض و روگردانی کا نتیجہ بڑا ہی ہولناک ہوتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 122 اللہ کا حکم ہو کر ہی رہتا ہے : اس کو روکنے کا کسی میں یارا نہیں ہوسکتا، کہ اس کی قدرت سب سے اعلیٰ وبالا اور اس کی قوت سب سے بڑی ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو جس عذاب کے واقع ہونے کی خبر اس کی طرف سے دی جارہی ہے، اس نے بھی اپنے وقت پر بہرحال ہو کر رہنا ہے۔ اس لیے اس سے بچنے کی فکر کرو۔ سو کوئی اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ ایسے لوگوں کے چہروں کو مٹا دینا یا ان کو ان کی گدیوں کی طرف پھیر دینا یا ان کو مسخ کر کے بندروں کی شکلوں میں ڈھال دینا خدا کے لئے کوئی بڑا یا انہونا کام ہے تو وہ ایسی غلط فہمی کو کھرچ کر اپنے دل و دماغ سے نکال دے۔ کہ اللہ تعالیٰ کے لئے ایسا کوئی بھی کام کچھ بھی مشکل نہیں، بلکہ محض اس کے حکم واشارہ کی دیر ہے۔ اس کا حکم بہرحال ہو کر رہتا ہے۔ اس کے حکم و ارشاد اور اس کے وقوع میں کوئی فاصلہ اور دوری نہیں۔ سو وہ اگر اپنے حلم و کرم کی بناء پر جو مہلت دیتا ہے تو اس سے دھوکے میں نہیں پڑنا چاہئے۔
Top