Fi-Zilal-al-Quran - An-Noor : 2
لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِهِمْ خَیْرًا١ۙ وَّ قَالُوْا هٰذَاۤ اِفْكٌ مُّبِیْنٌ
لَوْلَآ : کیوں نہ اِذْ : جب سَمِعْتُمُوْهُ : تم نے وہ سنا ظَنَّ : گمان کیا الْمُؤْمِنُوْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتُ : اور مومن عورتوں بِاَنْفُسِهِمْ : (اپنوں کے) بارہ میں خَيْرًا : نیک وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا ھٰذَآ : یہ اِفْكٌ : بہتان مُّبِيْنٌ : صریح
جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتا ہے ؟
(لولآ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مبین) (24 : 12) ” جس وقت تم لوگوں نے اسے سنا تھا اسی وقت کیوں نہ مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے آپ سے نیک گمان کیا اور کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ صریح بہتان ہے ؟ “ ہاں یہ درست ہے کہ اہل ایمان سنتے ہی یہ کہہ دیتے۔ وہ اپنے بھائیوں کے بارے میں حسن ظن سے کام لیتے تو یہ ان کے لیے اچھا ہوتا۔ اور یہ فرض کرلیتے کہ ایک مسلمان اس قدر گندے کام میں ملوث نہیں ہو سکتا۔ پھر اس کے نبی کی پاک بیوی اور ان کے بھائی مسلم۔ یہ تو خود ان میں سے تھے۔ نہ حضرت نبی ﷺ کی حریم اور نہ اس صحابی کے ساتھ یہ بات لائق تھی جو انہوں نے سنی۔ ان کو حسن ظن کا معاملہ رکھنا چاہیے تھا جیسا کہ ابو ایوب خالد ابن زید انصاری اور ان کی بیوی نے ایسا ہی کیا۔ امام ابن اسحاق نے روایت کی ہے۔ ابو ایوب کو اس کی بیوی ام ایوب نے کہا تم سنتے نہیں ہو کہ لوگ حضرت عائشہ ؓ کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ اس نے کہا ہاں میں بھی سنتا ہوں لیکن یہ جھوٹ ہے۔ ام ایوب کیا تم ایسا کر تیں ہو ؟ تو اس نے کہا نہیں خدا کی قسم میں تو ہر گز ایسا نہ کرتی۔ تو پھر عائشہ تو تم سے بہتر ہیں۔ امام محمود ابن عمر زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں نقل کیا ہے۔ کہ ابو ایوب نے ام ایوب سے یہ کہا کہ تم دیکھتی ہو لوگ کیا کہتے ہیں تو اس نے کہا اگر تم صفوان کی جگہ ہوتے تو کیا تم رسول اللہ ﷺ کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کے بارے میں سوچ سکتے تھے۔ تو اس نے کہا ہر گز نہیں۔ اگر میں عائشہ کی جگہ ہوتی تو میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خیانت نہ کرتی۔ عائشہ ؓ مجھ سے اچھی ہیں اور صفوان تم سے اچھے ہیں۔ یہ دونوں روایات یہ بتاتی ہیں کہ بعض مسلمانوں نے اس مسئلے پر اپنے ہاں غور کیا تھا۔ اپنے دل سے استفثاء کیا تھا اور ان کے عقول نے ان کو یہ باور کرادیا تھا کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ اور یہ بات غلط ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی کی طرف اس قسم کی گراوٹ کو منسوب کیا جائے اور وہ بھی محض شب ہے کی بناء پر محض بدظنی کی بناء پر۔ یہ تو پہلی راہ ہے جس کی نشاندہی قرآن مجید کرتا ہے کہ کسی بھی معاملے میں ذرا گہرے غور اور قیاس کے بعد کوئی رائے قائم کرو۔ اپنے نفس سے پوچھو ‘ اپنے وجدان سے پوچھو ‘ اور دوسری جگہ قرآن یہ بتاتا ہے کہ کسی بھی معاملے میں تمہارے پاس دلیل ہونا چاہیے۔ بغیر دلیل وبرہان کے ایسے نازک معاملات میں فیصلہ نہیں ہونا چاہیے۔
Top