Tafseer-e-Haqqani - Yaseen : 6
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اُنْذِرَ اٰبَآؤُهُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ
لِتُنْذِرَ : تاکہ آپ ڈرائیں قَوْمًا : وہ قوم مَّآ اُنْذِرَ : نہیں ڈرائے گئے اٰبَآؤُهُمْ : ان کے باپ (دادا) فَهُمْ : پس وہ غٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
کہ آپ اس قوم کو عذاب الٰہی سے ڈرائیں کہ جن کے باپ دادا نہ ڈرائے گئے۔ سو وہ غافل ہیں۔
لتنذر قوماً ما انذر ابائوھم فہم غافلون تاکہ اے محمد ﷺ تو ان عرب کی جاہل قوموں کو متنبہ کرے، جن کے باپ دادا بھی متنبہ نہیں کئے گئے تھے۔ کس لیے کہ مدت سے نبی برپا نہیں ہوا تھا۔ تاریکی جہالت میں ٹکراتے پھرتے تھے اور غفلت میں پڑے ہوئے تھے، اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ آپ صرف عرب ہی کے لیے رسول تھے، کس لیے کہ ایک قوم کا ذکر کرنا جو مخاطب بالذات تھے، دوسرے کی نفی پر دلالت نہیں کرتا۔ دوم اس میں بھی تمام دنیا شریک تھی، کیونکہ گو اول ان کے پاس انبیاء آئے۔ جیسا کہ یہود و نصاریٰ مگر گمراہ ہونے کے بعد ان کے پاس یا ان کے باپ دادا کے پاس کوئی ہادی نہیں آیا تھا، اس میں اشارہ ہے کہ عرصہ سے عالم میں تاریکی کی گھٹا چھائی ہوئی تھی، جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے۔ سوم عموم بعثت کے لیے بہت سی آیات و احادیث آئی ہیں، جیسا کہ قل یا ایہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً پھر جو اس شمع ہدایت یا آفتاب رہنمائی کی روشنی میں نہیں آتا اور اس سے فیض نہیں اٹھاتا تو جان لو کہ وہ جنم کا اندھا اور ازلی بدنصیب ہے۔ اسی بات کو ان آیات میں ظاہر فرماتا ہے۔
Top