Al-Qurtubi - Yaseen : 6
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اُنْذِرَ اٰبَآؤُهُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ
لِتُنْذِرَ : تاکہ آپ ڈرائیں قَوْمًا : وہ قوم مَّآ اُنْذِرَ : نہیں ڈرائے گئے اٰبَآؤُهُمْ : ان کے باپ (دادا) فَهُمْ : پس وہ غٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
تاکہ تم ان لوگوں کو جن کے باپ دادا کو متنبہ نہیں کیا گیا تھا متنبہ کردو وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں
لتنذر قوما ما انذر ابائوہم اکثر علماء تفسیر کے نزدیک ما کا اعراب میں کوئی محل نہیں ‘ ان میں سے قتادہ بھی ہیں کیونکہ یہ نافیہ ہے (1) تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جسے آپ سے قبل کسی ڈرانے والے نے نہیں ڈرایا ‘ یہ حضرت ابن عباس ‘ عکرمہ اور قتادہ کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا : ما اور فعل مصدر ہیں تقدیر کلام یہ ہوئی لتنذر قوما ما انذار آبائہم۔ ایک قول یہ کیا گیا : ما ‘ الذی کے معنی میں ہے (2) معنی یہ ہوگا آپ انہیں ڈرائیں جس طرح ان کے آبا کو ڈرایا گیا۔ یہ حضرت ابن عباس ‘ عکرمہ اور قتادہ کا قول ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ عربوں کو تواتر سے انبیاء کی خبریں پہنچی ہوں معنی یہ ہوگا انہیں میں سے کسی رسول میں سے انہیں نہ ڈرایا گیا۔ یہ جائز ہے کہ انہیں خبر تو پہنچی ہو لیکن انہوں نے غفلت کی ہو ‘ اعراض کیا ہو اور وہ بھول گئے ہوں۔ یہ بھی جائز ہے کہ اس قوم کو خطاب ہو جن تک کسی نبی کی خبر نہ پہنچی ہو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : وما اتینہم من کتب یدرسونہا ومآ ارسلنا الیہم قبلک من نذیر) سبا ( اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : لتنذر قوما ما اتھم من نذیر من قبلک لعھم یتذکرون) القصص ( یعنی ان کے پاس کوئی نبی نہیں آیا۔ جس نے یہ کہا ان تک انبیاء کی خبریں پہنچیں تو اس کا معنی ہوگا وہ اب اعراض کرنے والے ہیں اس سے جان بوجھ کر غافل بنتے ہیں۔ جو آدمی کسی چیز سے اعراض کرتا ہے اسے غافل کہتے ہیں : ایک قول یہ کیا گیا : معنی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی سزا سے غافل ہیں۔ لقد حق القول علی اکثرھم فھم لا یومنون۔ یعنی ان میں سے اکثر پر عذاب ثابت ہوچکا ہے وہ آپ کے خبردار کرنے پر ایمان نہیں لائیں گے یہ پھر ان لوگوں کے بارے میں ہوگا جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے علم میں پہلے ہی تھا کہ وہ کفر پر مریں گے (3) ۔ پھر انہوں نے جو ایمان ترک کیا اس کا سبب ذکر کیا فرمایا : انا جعلنا فی اعناقھم اغللاً ۔۔ ایک قول یہ کیا گیا : یہ آیت ابو جہل بن ہشام اور اس کے دو مخزومی ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی اس کی وجہ یہ بنی ‘ ابو جہل نے قسم اٹھائی اگر اس نے) حضرت ( محمد ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تو وہ ان کا سر پتھر سے کچل دے گا۔ جب اس نے رسول اللہ ﷺ کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو وہ مارنے کے لئے گیا ‘ پتھر اٹھایا جب پتھر مارنے کا قصد کیا تو اس کا ہاتھ گردن کی طرف لوٹ آیا اور پتھر اس کی گردن کے ساتھ چمٹ گیا۔ جب وہ اپنے ساتھیوں کے پاس آیا تو جو کچھ دیکھ وہ بتایا۔ ایک آدمی جس کا نام ولید بن مغیرہ تھا اس نے کہا : میں اس کا سر کچل دوں گا 0 وہ پتھر مارنے کے لئے آیا جب کہ آپ ﷺ اسی طرح نماز پڑھ رہے تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے اسے اندھا کردیا وہ آپ ﷺ کی آواز کو سن رہا تھا مگر وہ دیکھتا نہیں تھا وہ اپنے ساتھیوں کی طرف لوٹا مگر اپنے ساتھ بھی نظر نہیں آئے یہاں تک کہ انہوں نے اسے ندادی۔ اس نے کہا : اللہ کی قسم ! میں نے اسے دیکھا نہیں ‘ اس کی آواز سنی ہے۔ تیسرے نا کہا : میں اس کا سر پیس دونگا پتھر اٹھایا وہ چلا پھر پچھلے پائوں واپس پلٹا یہاں تک کہا پنی گدی کے بل گرپڑا اور بےہوش ہوگیا اسے کہا گیا : تجھے کیا ہوا اس نے کہا : میرا معاملہ بڑا عظیم ہے میں نے اسے دیکھا جب میں اس کے قریب ہوا تو اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نر اونٹ اپنی دنب ہلا رہا ہے میں نے اس جیسا بڑا نر کبھی بھی نہیں دیکھا وہ میرے اور ان کے درمیان حائل ہوگا لات و عزی کی قسم ! اگر میں اس کے قریب ہوتا تو وہ مجھے کھا جاتا تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا۔ ابن عباس ؓ نے اسے یوں پڑھا ہے انا جعلنا فی ایمانھم۔ زجاج سے اسے انا جعلنا فی ادیھم پڑھا ہے۔ نحاس نے کہا : یہ قرأت تفسیر ہے۔ مصحف کے برعکس قرأت نہیں کی جائے گی جماعت قرأت میں کلام میں حذف ہے تقدیر کلام یوں گی انا جعلنا فی اعناقھم فی ایدیھم اغلا لا فہی الی الاذقان عرب اس قسم کے الفاظ کو حذف کردیتے ہیں اس کی مثل سرابیل تقیکم الحر) النحل (81: تقدیر کلام یہ ہوگی و سرابیل تقیکم الحر) النحل (81: تقدیر کلام یہ ہوگی تو اس کو حذف کردیا گیا۔ کیونکہ جو چیز گری سے بچاتی ہے وہ سردی سے بچاتی ہے کیونکہ طوق جب گردن میں ہوتا ہے تو لازما ًہاتھ میں ہوتا ہے خصوصاً اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : فھی الی لاذقان اس سے مراد ہاتھ ہیں پس وہ اپنے سروں کو اٹھائے ہوں گے وہ انہیں نیچے کرنے کی طاقت نہ رکھیں گے کیونکہ جس کا ہاتھ اس کی ٹھوڑی کے ساتھ جکڑا ہوا ہو تو اس کا سر بلند ہوتا ہے۔ عبداللہ بن یحیٰی سے مروی ہے کہ حضرت علی شیر خدا نے انہیں الاقماح کا طریقہ بتایا آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنی داڑھی کے نیچے رکھا دونوں کو ساتھ چمٹایا اور اپنے سر کو اوپر اٹھایا (1) ۔ اس لفظ کے معنی کی تعبیر میں جو کچھ روایت کیا گیا ہے اس میں سے یہ ذی شن ہے ‘ یہ معنی اس چیز سے ماخوذ ہے جو اصمعی نے ذکر کیا ہے اس نے کہا : یہ جملہ بولا جاتا ہے اتحمت الدابۃ جب تو اس کو لگام کو کھینچے تاکہ اپنے سر کو اوپر اٹھائے۔ نحاس نے کہا : قاف ‘ کاف سے بدلا ہوا ہے کیونکہ اس کا قریبی لفظ ہے جس طرح یہ کہا جاتا ہے قھرتہ ‘ کھرتہ اصمعی نے کہا : یہ جملہ بولا جاتا ہے اکحمت الدابۃ۔ یہ جملہ اس وقت بولتے ہیں جب تو اس کی لگام کھینچے یہاں تک کہ وہ اپنا سر اوپر اٹھالے ‘ اسی معنی میں یہ قول ہے : والراس مکمح سر اوپر اٹھا ہوا۔ اسی طرح یہ جملے بولے جاتے ہیں اکمح تھا ‘ اکفح تھا اور کبح تھا۔ سب کا معنی ایک ہے کبح تھا باب افعال کے وزن پر نہیں ‘ اصمعی سے یہ بھی مروی ہے قمع البعیر قموحا جب اونٹ حوض پر اپنے سر کو اٹھا لے اور وہ پانی پینے سے رک جائے ‘ اسی سے بعیر قامح اور قمع ہے یہ بھی جملہ بولا جاتا ہے : شرب فتقمح وانقمح دونوں کا معنی ایک ہے جب وہ اپنا سر اٹھالے اور سیراب ہونے کی وجہ سے پانی پینے سے رک جائے یہ جملہ بولا جاتا ہے : و قد قامحت ابلک جب وہ پانی پروارد ہو اور پانی نہ پیئے اس نے اپنا سر کسی بیماری کی وجہ سے اٹھا لیا یا سرد کی وجہ سے ایسا کیا اس کے ساتھ یوں صفت بھی ذکر کی جاتی ہے ابل مقامحۃ ‘ بعیر مقامح ‘ ناقۃ مقامح اس کی جمع خلاف قیاس قماح آتی ہے ‘ بشر کشتی کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے۔ ” ہم کشتی کے اطراف میں بیٹھے ہوئے تھے ہم آنکھیں بند کئے ہوئے تھے جس طرح وہ اونٹ آنکھیں بند کرلیتے جو پانی پینے سے رک جاتے ہیں “۔ اقماح کا معنی سر اٹھانا اور آنکھیں بند کرنا ہے یہ جملہ بولا جاتا ہے : اقمحہ الغل جب وہ تنگی کی وجہ سے اپنا سر اوپر کو اٹھالے شہر قماح ایسا مہینہ جس میں سخت سردی ہوتی ہے وہ دونوں دسمبر اور جنوری ہیں انہیں نام اس لئے دیا گیا ہے کیونکہ اونٹ جب پانی پر وارد ہوتا ہے تو پانی کی ٹھنڈک اسے اذیت دیتی ہے تو وہ اپنا سر اوپر کو اٹھا لیتا ہے اسی سے ایک جملہ قمحت السویق ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ ضرب المثل ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں بیان فرمائی ہے کہ وہ ہدایت سے یوں رکے ہوئے ہیں جس طرح وہ آدمی رکا ہوتا ہے جس کے گلے میں طوق ڈالا گیا ہو ‘ یہ یحییٰ بن سلام اور ابوعبیدہ نے کہا جس طرح یہ جملہ بولا جاتا ہے : فلان حمار یعنی وہ ہدایت کو نہیں دیکھتا جس طرح یہ جملہ بولا جاتا ہے : فلان حمار یعنی وہ ہدایت کو نہیں دیکھتا۔ جس طرح شاعر نے کہا : لھم عن الرشد اغلال و اقیاد ہدایات پانے میں انہیں طوق اور بیڑیاں لگی ہوئی ہیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ذئویب دور جاہلیت میں ایک عورت سے محبت کرتے تھے جب وہ مسلمان ہوگئے تو اس عورت نے انہیں بہلانا چاہا تو انہوں نے انکار کردیا اور کہنے لگے : انہوں نے یہ کہنا چاہا تھا کہ اسلام کے احکام نے ہمیں بدکاری اور فسق سے روک دیا ہے۔ فراء نے بھی یہ کہا ہے : یہ ضرب المثل یعنی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے ہمیں روک دیا گیا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک) الاسراء (29 یہ صحاک کا قول بھی ہے۔ ایک قوم یہ کیا گیا ہے کہ یہ حق کو قبول کرنے سے تکبر میں اس طرح وہ آدمی ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں طوق ہے اور اسے اس کی گردن کے ساتھ چسپاں کردیا گیا ہو وہ ہمہ وقت سر اٹھائے ہی رہتا ہے وہ اسے جھکا نہیں سکتا وہ اپنی آنکھ بند رکھتا ہے وہ اسے کھولتا نہیں۔ متکبر کی صفت بھی اسی چیز کے ساتھ لگائی جاتی ہے کہ وہ اپنی گردن کھڑی کئے ہوئے ہے۔ ازہری نے کہا : جب ان کے ہاتھ ان کی گردنوں میں جکڑ دیئے جاتے ہیں تو ان طوقوں نے ان کی ٹھوڑیوں کو اوپر اٹھا دیا جب کہ ان کے سر سیدھے کھڑے ہیں جس طرح وہ اونٹ ہوتے ہیں جو اپنے سروں کو اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں یہ رکاوٹ اس طرح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کفار کے دلوں میں کفر پیدا کردیتا ہے۔ ایک قوم کے نزدیک اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے کفر کی وجہ سے سزا کے طور پر توفیق سلب کرلیتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : آیت میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ قیامت کے روز لوگوں کے ساتھ جو کچھ کیا جائے گا ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے اور بیڑیاں ہونگی جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : اذا لا غلل فی اعناقھم والسلسل) غافر (71: ماضی کے لفظ کے ساتھ اسے تعبیر فرمایا یعنی فرمایا ان جعلنا مقمحون کی تفسیر پہلے گزر چکی ہے۔ مجاہد نے کہا : مقمحون کا معنی ہے انہیں ہر بھلائی سے روک دیا گیا ہے۔
Top