Taiseer-ul-Quran - Yaseen : 6
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اُنْذِرَ اٰبَآؤُهُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ
لِتُنْذِرَ : تاکہ آپ ڈرائیں قَوْمًا : وہ قوم مَّآ اُنْذِرَ : نہیں ڈرائے گئے اٰبَآؤُهُمْ : ان کے باپ (دادا) فَهُمْ : پس وہ غٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
تاکہ آپ ایسی قوم کو ڈرائیں جن کے آباء و اجداد نہیں 5 ڈرائے گئے تھے لہذا وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں
5 مکہ میں شعیب کے دو ہزار سال بعد آپ مبعوث ہوئے :۔ اس آیت کے دو مطلب ہوسکتے ہیں اور دونوں ہی درست ہیں۔ مَااُنْذِرَمیں اگر ما کو نافیہ سمجھا جائے جیسا کہ اس کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ چونکہ ان کی طرف کوئی نبی نہیں آیا لہذا یہ لوگ گہری غفلت اور جہالت میں پڑے ہوئے ہیں اور اگر ما کو موصولہ سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کے قدیمی آباء و اجداد مدتوں پہلے جس چیز سے ڈرائے گئے تھے اسی چیز سے آپ ان کو ڈرائیں۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ سیدنا ابراہیم، سیدنا اسماعیل اور سیدنا شعیب انہی کے آباء و اجداد کی طرف مبعوث ہوئے تھے اور آخری نبی شعیب تھے انہیں بھی دو ہزار سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور اتنی مدت بعد رسول اللہ ان کی طرف مبعوث ہوئے تھے۔ خ آپ کی بعثت سے پہلے عرب کی حالت :۔ اور یہ اس طویل مدت کا ہی اثر تھا کہ یہ لوگ انتہائی جہالت اور غفلت میں پڑے ہوئے تھے۔ ان کے عادات و خصائل سخت بگڑ چکے تھے۔ شرک اس قدر عام تھا کہ کعبہ کے اندر تین سو ساٹھ بت موجود تھے اور ہر قبیلہ کا الگ الگ بت بھی موجود تھا۔ ان میں اکثر لوگوں کا پیشہ لوٹ مار اور رہزنی تھا۔ شراب کے سخت رسیا تھے۔ فحاشی اور بےحیائی عام تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے کھڑے کردینا ان کا معمول تھا۔ پھر ان کے قبائلی نظام کی وجہ سے قبیلوں میں ایسی جنگوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا جو ختم ہونے میں آتا ہی نہ تھا۔ غرض ہر لحاظ سے یہ قوم ایک اجڈ، تہذیب سے ناآشنا اور ایک ناتراشیدہ اور اکھڑ قوم تھی جس کی اصلاح و ہدایت کے لئے آپ کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ اسی صورت حال سے اس بات کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ آپ کی یہ ذمہ داری کس قدر سخت اور عظیم تھی۔
Top