Tafseer-e-Madani - Yaseen : 6
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اُنْذِرَ اٰبَآؤُهُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ
لِتُنْذِرَ : تاکہ آپ ڈرائیں قَوْمًا : وہ قوم مَّآ اُنْذِرَ : نہیں ڈرائے گئے اٰبَآؤُهُمْ : ان کے باپ (دادا) فَهُمْ : پس وہ غٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
تاکہ آپ (اس کے ذریعے) خبردار کریں ایسے لوگوں کو جن کے باپ داداوں کو خبردار نہیں کیا گیا تھا (عہد قریب میں) جس سے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں
6 تنزیل قرآن کا اصل مقصد انذار و تنبیہ : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ قرآن حکیم کے نازل فرمانے کا اصل مقصد انذار ہے۔ یعنی ان لوگوں کو خبردار کرنا جن کے باپ دادا کو خبردار نہیں کیا گیا تھا۔ یعنی عربوں کو جن کے پاس حضرت اسماعیل کے بعد سے کوئی نبی نہیں آیا تھا اگرچہ دوسرے انبیائے کرام کی کچھ تعلیمات ان کو پہنچی تھیں۔ مگر ان کو ان لوگوں نے ادل بدل کر کے کچھ کا کچھ بنادیا تھا۔ اسلئے اب آپ ﷺ کے ذریعے ان کی ابدی راہنمائی کا انتظام فرمایا گیا ہے۔ سو قرآن حکیم کے نازل فرمانے کا اصل اور اولین مقصد انذار ہے۔ یعنی غفلت میں پڑے لوگوں کو انکے انجام سے خبردار کرنا تاکہ وہ چونک کر راہ حق و ہدایت کو اپنائیں ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید ۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ قرآن حکیم کو اس اہتمام کے ساتھ اس لیے اتارا گیا کہ تاکہ آپ اس کے ذریعے غفلت میں پڑے ان لوگوں کو ان کے انجام سے خبردار کردیں جن کے پاس آپ کی بعثت سے پہلے کوئی نذیر نہیں آیا تھا۔ یہ اشارہ بنواسماعیل کی طرف ہے جن کے اندر رسول کی بعثت کے لیے ان کے جدِّ امجد حضرت ابراہیم نے خاص طور پر یہ دعا فرمائی تھی اور اس مضمون کو قرآن حکیم میں دوسرے مختلف مقامات پر بھی مختلف انداز میں بیان فرمایا گیا۔ مثلا سورة القصص میں ارشاد فرمایا گیا { لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا اَتَاہُمْ مِنْ نَذِیْرٍ مِّنْ قَبْلِکَ } ۔ ( القصص : 46) ۔ 7 غفلت میں پڑے ہوؤں کی تذکیر و تنبیہ کا سامان و انتظام : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ قرآن پاک کو اس لیے نازل فرمایا گیا کہ اس سے غفلت میں پڑے ہوئے ان لوگوں کی تنبیہ و تذکیر کا سامان ہو۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ ﷺ کی بعثت و تشریف آوری صرف عربوں ہی کے لئے تھی۔ نہیں آپ ﷺ کی نبوت و بعثت تو قیامت تک کے لئے اور سارے جہانوں اور تمام انسانوں کے لئے تھی اور ہے ۔ { وَمَآ اَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ } ۔ (الانبیائ : 107) ۔ نیز دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { تَبٰرَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلیٰ عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمیِْنَ نَذِیْرًا } ۔ (الفرقان : 1) وغیرہ۔ مگر اس کی طبعی ترتیب اس طرح رکھی گئی کہ پہلے اپنے گھر سے شروع کریں۔ جیسا کہ فرمایا گیا ۔ { وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الاَقْرَبِیِنَ } ۔ (الشعراء : 214) پھر اپنی قوم کو اور پھر سارے عالم کو خبردار کریں تاکہ خبردار کرنے کا کام اسی فطری ترتیب کے مطابق ہوتا جائے جو کہ عقل و فطرت کا تقاضا ہے۔ اور اس طرح آپ ﷺ کو اپنے اہل و اقارب اور اپنی قوم سے معاون بھی ملتے رہیں اور دعوت حق و ہدایت کے افق وسیع سے وسیع ترہوتے جائیں۔ بہرکیف اس میں غافلوں کے لیے تنبیہ و تذکیر کا عظیم الشان سامان ہے۔
Top