Tafheem-ul-Quran - Yaseen : 6
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اُنْذِرَ اٰبَآؤُهُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ
لِتُنْذِرَ : تاکہ آپ ڈرائیں قَوْمًا : وہ قوم مَّآ اُنْذِرَ : نہیں ڈرائے گئے اٰبَآؤُهُمْ : ان کے باپ (دادا) فَهُمْ : پس وہ غٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
تاکہ تم خبردار کرو ایک ایسی قوم کو  جس کے باپ دادا خبر دار نہ  کیے گئے تھے اور اس وجہ سے وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔ 4
سورة یٰسٓ 4 اس آیت کے دو ترجمے ممکن ہیں۔ ایک وہ جو اوپر متن میں کیا گیا ہے۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ " تم ڈراؤ ایک قوم کے لوگوں کو اسی بات سے جس سے ان کے باپ دادا ڈرائے گئے تھے، کیونکہ وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں "۔ پہلا مطلب اگر لیا جائے تو باپ دادا سے مراد زمانۂ قریب کے باپ دادا ہوں گے، کیونکہ زمانۂ بعید میں تو عرب کی سر زمین میں متعدد انبیاء آچکے تھے اور دوسرا مطلب اختیار کرنے کی صورت میں مراد یہ ہوگی کہ قدیم زمانے میں جو پیغام انبیاء کے ذریعہ سے اس قوم کے آباؤ اجداد کے پاس آیا تھا اس کی اب پھر تجدید کرو، کیونکہ یہ لوگ اسے فراموش کر گئے ہیں۔ اس لحاظ سے دونوں ترجموں میں درحقیقت کوئی تضاد نہیں ہے اور معنی کے لحاظ سے دونوں اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ اس مقام پر یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم کے اسلاف پر جو زمانہ ایسا گزرا تھا جس میں کوئی خبردار کرنے والا ان کے پاس نہیں آیا، اس زمانے میں اپنی گمراہی کے وہ کس طرح ذمہ دار ہو سکتے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کوئی نبی دنیا میں بھیجتا ہے تو اس کی تعلیم و ہدایت کے اثرات دور دور تک پھیلتے ہیں اور نسلاً بعد نسلٍ چلتے رہتے ہیں۔ یہ آثار جب تک باقی رہیں اور نبی کے پیروؤں میں جب تک ایسے لوگ اٹھتے رہیں جو ہدایت کی شمع روشن کرنے والے ہوں، اس وقت تک زمانے کو ہدایت سے خالی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اور جب اس نبی کی تعلیم کے اثرات بالکل مٹ جائیں یا ان میں مکمل تحریف ہوجائے تو دوسرے نبی کی بعثت ناگزیر ہوجاتی ہے۔ نبی ﷺ کی بعثت سے پہلے عرب میں حضرت ابراہیم و اسماعیل اور حضرت شعیب اور حضرت موسیٰ (علیہم السلام) کی تعلیم کے اثرات ہر طرف پھیلے ہوئے تھے اور وقتاً فوقتاً ایسے لوگ اس قوم میں اٹھتے رہے تھے، یا باہر سے آتے رہے تھے جو ان اثرات کو تازہ کرتے رہتے تھے۔ جب یہ اثرات مٹنے کے قریب ہوگئے اور اصل تعلیم میں بھی تحریف ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کو مبعوث فرمایا اور ایسا انتظام فرمایا کہ آپ کی ہدایت کے آثار نہ مٹ سکتے ہیں اور نہ محرف ہو سکتے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورة سبا، 5)
Top