Madarik-ut-Tanzil - Yaseen : 6
لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّاۤ اُنْذِرَ اٰبَآؤُهُمْ فَهُمْ غٰفِلُوْنَ
لِتُنْذِرَ : تاکہ آپ ڈرائیں قَوْمًا : وہ قوم مَّآ اُنْذِرَ : نہیں ڈرائے گئے اٰبَآؤُهُمْ : ان کے باپ (دادا) فَهُمْ : پس وہ غٰفِلُوْنَ : غافل (جمع)
تاکہ تم ان لوگوں کو جن کے باپ دادا کو متنبہ نہیں کیا گیا تھا متنبہ کردو وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں
6: لِتُنْذِرَ قَوْمًا (تاکہ آپ ایسے لوگوں کو ڈرائیں) نحو : لتنذر کا لام المرسلین کے معنی کے ساتھ متصل ہے۔ تقدیر کلام یہ ہے ارسلت لتنذر قوما۔ (تمہیں بھیجا گیا تاکہ تم ایسی قوم کو ڈرائو) مَّآ اُنْذِرَ ٰابَآ ؤُ ھُمْ (نہیں ڈرائے گئے جن کے آباء و اجداد ) فائدہ : جمہور کے نزدیک یہ ماؔ نافیہ ہے۔ اس صورت میں قوماً کی صفت ہے۔ تقدیر کلام یہ ہے قوما غیر منذر اباؤ ھم اس کی دلیل اس ارشاد میں ہے۔ لتنذر قومًا ٰاتھُمْ من نذیر من قبلک ] السجدہ : 3[ دوسری جگہ فرمایا وما ارسلنا الیہم قبلک من نذیر ] سبا : 44 [ نمبر 2۔ ماؔ موصولہ ہے مفعول ثانی ہونے کی وجہ سے منصوب ہے تقدیر کلام یہ ہے العذاب الذی اُنْذِرَہ اباء ھم۔ وہ عذاب جس سے ان کے آباء کو ڈرایا گیا۔ یہ اسی طرح ہے جیسا اس ارشاد میں انا انذر نا کم عذابا قریبًا ] النباء : 40[ نمبر 3۔ ماؔ مصدریہ ہے تقدیر کلام یہ ہے لتنذر قومًا اِنْذَارَ اباء ھم ای مثل انذار اباء ھم تاکہ تم قوم کو ان کے آباء کے ڈرانے کی طرح ڈرائو۔ فَھُمْ غٰفِلُوْنَ (پس اسی لئے بیخبر ہیں) اگر ماؔ کو نافیہ مانیں تو اس وقت اس کا تعلق نفی سے ہوگا۔ تقدیر کلام یہ ہوگی۔ لم ینذروا فھم غافلون۔ وہ ڈرائے نہیں گئے۔ اس لئے وہ غافل ہیں۔ نمبر 2۔ یہ انک لمن المرسلین سے متعلق ہے اور اصل عبارت ہے : انک لمن المرسلین لتنذر فھم غافلون بیشک تم رسولوں میں سے ہوتا کہ تم ڈرائو اس لئے کہ وہ غافل ہیں۔ جیسا تم کہو ارسلتک الی فلان لتنذرہ فانہ غافل او فھو غافل۔
Top