Jawahir-ul-Quran - Al-Kahf : 65
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا
فَوَجَدَا : پھر دونوں نے پایا عَبْدًا : ایک بندہ مِّنْ : سے عِبَادِنَآ : ہمارے بندے اٰتَيْنٰهُ : ہم نے دی اسے رَحْمَةً : رحمت مِّنْ : سے عِنْدِنَا : اپنے پاس وَعَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے علم دیا اسے مِنْ لَّدُنَّا : اپنے پاس سے عِلْمًا : علم
پھر پایا ایک بندہ ہمارے بندوں میں67 کہ جس کو دی تھی ہم نے رحمت اپنے پاس سے اور سکھلایا تھا اپنے پاس سے ایک علم
67:۔ اس بندے سے قول مختار کے مطابق حضرت خضر (علیہ السلام) مراد ہیں ان کو اللہ تعالیٰ نے تکوینیات کا وہ علم عطا فرمایا تھا جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس نہیں تھا جیسا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو علم شرائع حاصل تھا جو حضرت خضر (علیہ السلام) کے پاس نہیں تھا، چناچہ جب دونوں کی ملاقات ہوئی تو حضرت خضر نے کہا یموسا انا علی علم علمنی اللہ لا تعلمہ انت وانت علی علم علمک اللہ لا اعلمہ انا (کبیر ج 5 ص 734) ۔ حضرت خضر کے بارے میں بعض نے لکھا ہے کہ وہ فرشتہ تھا، بعض نے کہا ہے وہ ولی تھے، لیکن جمہور کا مسلک یہ ہے کہ وہ نبی تھے۔ حضرت خفر (علیہ السلام) کی نبوت پر خود قرآنی قرائن شاہد ہیں۔ اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” اتینہ رحمۃ من عندنا “ رحمت سے مراد وحی اور نبوت ہے اور یہ تعبیر انبیاء (علیہم السلام) کے بارے میں ہی اختیار کی گئی ہے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا ” یقوم ارایتم ان کنت علی بینۃ من ربی و اتنی رحمۃ من عندہ “ ( سورة ہود رکوع 3) ۔ اور دوسری جگہ حضرت صالح (علیہ السلام) کا قول نقل فرمایا ” یقوم ارایتم ان کنت علی بینۃ من ربی و اتنی منہ رحمۃ “ ( سورة ہود رکوع 6) ۔ ان آیتوں میں ” رحمۃ “ سے مراد وحی اور نبوت ہے۔ والجمھور علی انھا الوحی والنبوۃ وقد اطلقت علی ذلک فی مواضع من القران (روح ج 15 ص 320) ۔ دوم یہ کہ معصوم بچے کے قتل کا واقعہ بھی شاہد کہ وہ نبی تھے کیونکہ ولی ہونے کی صورت میں بچے کو قتل کرنے کا اشارہ زیادہ سے زیادہ کشف والہام پر مبنی ہوسکتا ہے اور ولی کا کشف یا الہام ظنی چیز ہے اس سے قطع اور یقین کا درجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کشف یا الہام کے اشارے ایک معصوم بچے کا قتل جائز نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ نبی تھے اور انہیں بچے کو قتل کرنے کا حکم وحی کے ذریعہ ہوا تھا یا کشف والہام سے کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کا کشف اور الہام بھی وحی کی طرح قطعی ہوتا ہے۔ حیات خضر (علیہ السلام) :۔ علماء میں اس بارے میں بھی اختلاف ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) زندہ ہیں یا وفات پا چکے ہیں۔ بعض علماء اور صوفیہ کا خیال ہے کہ وہ زندہ ہیں، لیکن جمہور علمائے امت اور محققین صوفیائے ملت کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) فوت ہوچکے ہیں۔ ان کی وفات پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء (علیہم السلام) سے فرداً فرداً یہ عہد لیا تھا کہ وہ اپنے بعد آنے والے ہر نبی کی تصدیق کریں اور اگر اس کا زمانہ پائیں تو اس کی مدد کریں اور اس کا ساتھ دیں، جیسا کہ ارشاد ہے۔ ” و اذ اخذ اللہ میثاق النبیین لما اتیتکم من کتب و حکمۃ ثم جاء کم ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ و لتنصرنہ “۔ اگر حضرت خضر زندہ ہوتے تو ان پر فرض تھا کہ وہحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے، آپ پر ایمان لاتے اور ہر میدان جنگ میں آپ ﷺ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے، آپ کی اقتداء میں مازیں پڑھتے، جمعہ میں آپ کے ساتھ شریک ہوتے مگر کسی نماز میں یا کسی میدانِ جہاد میں ان کے حاضر ہونے کا کوئی ذکر اذکار نہیں، اس سے معلوم ہوتا ہے وہ خودحضور ﷺ کے زمانے میں بھی زندہ نہیں تھے۔ امام بخاری (رح) تعالیٰ سے کسی حضرت خضر اور حضرت الیاس (علیہما السلام) کے بارے میں پوچھا کہ کیا وہ زندہ ہیں ؟ تو انہوں نے جواب دیا وہ کس طرح زندہ ہوسکتے ہیں جبکہ آنحضرت ﷺ نے اپنی وفات سے تھوڑا سا پہلے فرمایا تھا۔ لا یبقی علی راس المائۃ ممن ھو الیوم علی ظھر الارض احد۔ یعنی اس وقت انسان زمین پر ہیں سو سال تک ان میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہے گا۔ امام ابن تیمیہ نے فرمایا، کہ اگر حضرت خضر زندہ ہوتے تو ان پر فرض تھا کہ وہحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے، آپ سے علم قرآن حاصل کرتے اور آپ کے ہمراہ جہاد میں شریک ہوتے۔ اسی طرح امام ابراہیم بن اسحاق حربی امام شرف الدین محمد بن ابی الفضل مرسی، امام علی بن موسیٰ رضا اور ابو الحسین بن المنادی رحمہم اللہ تعالیٰ سے یہی منقول ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) فوت ہوچکے ہیں۔ (روح المعانی ج 15 ص 320) ۔ رہی یہ بات کہ بہت سے اولیاء اللہ کو حضرت خضر (علیہ السلام) کی حالت بیداری میں زیارت نصیب ہوئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے ان کی حیات پر استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ بعض کاملین اور محققین صوفیا نے فرمایا ہے۔ حضرت خضر کی زیارت عالم دنیا کی چیز نہیں بلکہ اس کا تعلق عالم مثال سے ہے، یعنی حضرت خضر (علیہ السلام) کی مثالی صورت بعض کاملین کو بیداری کی حالت میں نظر آتی ہے، چناچہ حضرت شیخ صدر الدین اسحاق قونوی (رح) اپنی کتاب تبصرۃ المبتدی و تذکرۃ المنتہی میں فرماتے ہیں۔ ان وجود الخضر (علیہ السلام) فی عالم المثال (روح ج 15 ص 326) ۔
Top