Mualim-ul-Irfan - Al-Kahf : 65
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا
فَوَجَدَا : پھر دونوں نے پایا عَبْدًا : ایک بندہ مِّنْ : سے عِبَادِنَآ : ہمارے بندے اٰتَيْنٰهُ : ہم نے دی اسے رَحْمَةً : رحمت مِّنْ : سے عِنْدِنَا : اپنے پاس وَعَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے علم دیا اسے مِنْ لَّدُنَّا : اپنے پاس سے عِلْمًا : علم
پس پایا ان دونوں نے ایک بندے کو ہمارے بندوں میں سے کہ دی تھی ہم نے اس کو رحمت اپنی طرف سے ، اور سکھلایا تھا ہم نے اس کو اپنے پاس سے ایک علم ۔
ربط آیات : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ایک معمولی سی لغزش ہوگئی تھی جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے انہیں ابتلا میں ڈال دیا اور فرمایا کہ ہمارے بندوں میں سے ایک ایسا بندہ ہے جو تم سے زیادہ علم رکھتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کیا ، مولا کریم ! میں تیرے اس بندے تک کیسے رسائی حاصل کرسکتا ہوں تاکہ اس سے کچھ حاصل کرسکوں اللہ نے حکم دیا کہ آپ فلاں سفر پر روانہ ہوجائیں اور ایک تلی ہوئی مچھلی اپنے ہمراہ لے لیں جب مقام پر وہ مچھلی گم ہوجائے گی ، میرا خاص بندہ تمہیں وہیں مل جائے گا ، چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے ایک شاگرد اور خادم حضرت یوشع بن نون (علیہ السلام) کو ہمراہ لیا اور سفر پر روانہ ہوگئے ، پھر ان دونوں نے ایک پتھر کے پاس آرام کیا ، موسیٰ (علیہ السلام) سو رہے تھے ، جب کہ آپ کے خادم بیدار تھے ، اس کے سامنے تلی ہوئی مچھلی تھیلے سے کود کر سمندر میں چلی گئی ، جب موسیٰ (علیہ السلام) بیدار ہوئے تو انہوں نے آگے چلنے کا حکم دیا ، مگر خادم مچھلی کی گمشدگی کے متعلق آپ کو مطلع کرنا بھول گیا اور وہ آگے چل پڑے ۔ حدیث شریف میں ان کے اگلے سفر کے متعلق آتا ہے ” بقیۃ یومھما ولیلتھما “ کہ ان دونوں نے دن کا باقی حصہ اور پھر اگلی رات بھر سفر کیا ، اس دروان وہ سخت تھک چکے تھے ، صبح ہوئی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے ناشتہ کرنے کا ارادہ کیا اور خادم سے توشہ لانے کے لیے کہا ، حضرت یوشع (علیہ السلام) کو اس وقت یاد آیا کہ ان کی مچھلی تو وہیں سمندر میں چلی گئی تھی ، جہاں انہوں نے گذشتہ روز دوپہر کو آرام کیا تھا ، انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے مچھلی والا واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا کہ اسی جگہ کے تو ہم متلاشی تھے ، چناچہ وہ اپنے قدموں کے نشانات پر واپس لوٹ پڑے ۔ (حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملاقات) جب وہ دونوں ساتھی واپس اس پتھر کے قریب پہنچے ، جہاں انہوں نے آرام کیا تھا (آیت) ” فوجدا عبدا من عبادنا “۔ تو انہوں نے پایا ہمارے بندوں میں سے ایک بندے کو (آیت) ” اتینہ رحمۃ من عندنا “۔ جسے ہم نے اپنی مہربانی عطا فرمائی تھی (آیت) ” وعلمنہ من لدنا علما “۔ اور جسے ہم نے اپنی طرف سے خاص علم یعنی علم لدنی عطا فرمایا تھا ، بہرحال جب پہلی ملاقات ہوئی ” فسلم “ موسیٰ (علیہ السلام) نے خضر (علیہ السلام) کو سلام کہا ، خضر (علیہ السلام) نے جواب دیا ” انی بارضک سلام وانی بارضی سلام “۔ یہاں تمہاری اس سرزمین میں یا میری اس سرزمین میں سلام کہاں یعنی یہاں پر سلام کرنے کا کونسا موقع ہے یہاں تو کوئی آبادی ہی نہیں ہے ، بالکل ویران جگہ ہے اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ یہاں گردونواح میں سب کفار ومشرکین آباد ہیں تو یہاں کیسے سلام ہوا ؟ بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے خضر (علیہ السلام) نے یہ بھی کہا ” من انت “ کہ تو سلام کرنے والا کون آدمی ہے تو موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا ” انا موسیٰ “ یعنی میں موسیٰ ہوں خضر (علیہ السلام) نے پھر پوچھا (علیہ السلام) اموسی بنی اسرآئیل “ کیا بنی اسرائیل والے موسیٰ ؟ تو آپ نے کہا ، ہاں ۔ حافظ ابن حجر (رح) اس جملے پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں ” فیہ دلیل علی ان الانبیاء ومن دونھم لا یعلمون من الغیب الا ما علمھم اللہ لو کان الخضر یعلم کل غیب یعرف موسیٰ قبل ان یسئلہ “۔ یعنی انبیاء اور اولیاء وغیرہ غیب کی اتنی ہی بات جانتے ہیں جتنی اللہ انہیں بتلا دیتا ہے اگر خضر (علیہ السلام) غیب دان ہوتے تو موسیٰ (علیہ السلام) کو بغیر پوچھے ہی پہچان لیتے ۔ یہاں پر بعض لوگوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا ان آیات میں مذکور موسیٰ وہی ہیں جو اللہ کے صاحب کتاب نبی ہیں ؟ قرآن میں تو مزید تصریح موجود نہیں ۔ البتہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ کسی نے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے سامنے ذکر کیا کہ ” نوف بکالی “ کہتا ہے کہ جس شخص کے ساتھ خضر (علیہ السلام) کی ملاقات ہوئی تھی ، وہ بنی اسرائیل والے اللہ کے جلیل القدر نبی نہیں تھے بلکہ موسیٰ ابن میشا تھے ، اگرچہ ان کا تعلق بھی بنی اسرائیل سے تھا مگر یہ صاحب تورات موسیٰ نہیں تھے ، یہ سن کر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا ” کذب عدواللہ “ دشمن خدا نے جھوٹ بولا ہے کیونکہ میرے سامنے ابی ابن کعب ؓ نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کرنے والے صاحب تورات موسیٰ ہی ہیں ۔ (خضر (علیہ السلام) کی شخصیت) دراصل آپ کا اصل نام بلیا ، کنتی ابو العباس اور لقب خضر تھا آپ کا سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا جاتا ہے ، بلیا بن ملکان بن فالغ بن عامر بن شالخ بن ارفخشذ بن سام بن نوح ، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرح یہ بھی سامی نسل سے تعلق رکھتے تھے ، ان کا زمانہ بھی حضرت خلیل اللہ (علیہ السلام) کے قریب ہی ہے خضر کا معنی ہرا بھرا یا سرسبز و شاداب ہوتا ہے ، بخاری شریف میں اس کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ خضر (علیہ السلام) صاف چٹیل زمین پر بیٹھتے تو سرسبز ہوجاتی ، حدیث کے الفاظ ہیں ” فصارت خضرآئ “۔ دوسری وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہے ” اذا صلی اخضرما حولہ “۔ جب آپ نماز پڑھتے تو آپ کا اردگرد سرسبز ہوجاتا تاریخی روایات کے مطابق خضر (علیہ السلام) فریدوں کے زمانہ میں ہوئے ہیں بعض کہتے ہیں کہ آپ ذوالقرنین یعنی سکندر اعظم کے وزیر تھے تاہم یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا سوائے اس بات کے جو حضور ﷺ نے بیان کردی ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ خضر (علیہ السلام) انسانوں میں سے نہیں بلک ملائکہ میں سے تھے مولانا مودودی صاحب (رح) نے اسی قول کو اختیار کرکے غلطی کا ارتکاب کیا ہے امام نووی (رح) فرماتے ہیں کہ ملائکہ میں سے ہونے کا نظریہ غلط ہے خضر (علیہ السلام) انسان تھے اور سلسلہ نسب رکھتے تھے جیسا کہ بیان ہوچکا ہے ، امام نووی (رح) سے بھی یہی بات منقول ہے اور حدیث شریف سے بھی یہی متبادر ہوتا ہے ۔ (حیات خضر (علیہ السلام) حیات خضر کے مسئلہ میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے ، بعض کہتے ہیں کہ آپ وفات پا چکے ہیں ، اشکال یہ ہے کہ اگر آپ زندہ ہوتے تو ان کا فرض تھا کہ وہ حضور ﷺ کے زمانہ میں آپ کی مدد کرتے مگر اس کا ذکر کہیں نہیں ملتا ، دوسری بات یہ ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی وفات سے ایک ماہ پہلے فرما دیا تھا کہ اس وقت روئے زمین پر موجود لوگوں میں سے ایک سو سال گزرنے کے بعد کوئی بھی باقی نہیں ہوگا لہذا اگر خضر (علیہ السلام) آپ کے زمانہ میں بھی زندہ تھے تو سو سال کے بعد تو لامحالہ ان کی زندگی باقی نہیں رہی تاہم محدثین کرام اس کی توجیہہ یہ بیان کرتے ہیں کہ خضر (علیہ السلام) تو زمین کی بجائے فضا اور پانی پر بھی جاتے تھے اور ہو سکتا ہے کہ حضور ﷺ کے مذکورہ فرمود کے وقت آپ زمین پر موجود ہی نہ ہوں ، اس سلسلہ میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کی مثال پیش کی جاسکتی ہے ۔۔۔ وہ ۔۔۔۔ آسمان پر زندہ ہیں ، لہذا ان پر حضور ﷺ کی پیش گوئی کا اطلاق نہیں ہوتا ، بایں ہمہ امام احمد (رح) امام بخاری (رح) ، ابن تیمیہ (رح) ابن قیم (رح) ، مجدد الف ثانی (رح) وغیرہ کہتے ہیں کہ خضر (علیہ السلام) کا دنیا کا دور ختم ہوچکا ہے ۔ البتہ اکثر علماء صوفیا اور نیکی والے لوگ ، محدث ابن صلاح (رح) ، امام نووی (رح) اور محدثین کہتے ہیں کہ خضر (علیہ السلام) زندہ ہیں ، بعض شروح میں لکھا ہوا ہے کہ قرب قیامت میں دجال ایک شخص کو قتل کرنے کے بعد پھر زندہ کرے گا اور اس سے پوچھے گا کہ کیا اب مجھے خدا تسلیم کرتا ہے یا نہیں وہ شخص جواب دے گا کہ اب مجھے حق الیقین ہوگیا ہے کہ تو دشمن خدا دجال ہے اس گواہی کو ” اعظم شھادۃ عند اللہ “ کہا گیا ہے یعنی یہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑی گواہی ہوگی ، یہ شہادت دینے والا خضر (علیہ السلام) ہی ہے ، مطلب یہ ہے کہ اللہ نے دجال کو قتل کرنے کے لیے عیسیٰ (علیہ السلام) کو آسمان پر زندہ رکھا ہوا ہے اسی طرح اگر اس نے اس عظیم شہادت کے لیے خضر (علیہ السلام) کو اپنی قدرت سے زندہ رکھا ہو تو کون سی عجیب بات ہے ۔ تفسیری روایات میں آتا ہے کہ خضر (علیہ السلام) سمندروں پر زندہ ہیں اور آبی راستوں کے بھٹکے ہوئے مسافروں کو راہ بھی دکھاتے ہی ، اسی طرح حضرت الیاس (علیہ السلام) کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں اور ان کا گزران جنگلوں میں ہے ، وہ بھی بعض اوقات بھولے بسروں کی راہنمائی کرتے ہیں ، تاہم یہ باتیں کسی حدیث سے ثابت نہیں ہیں ، حضرت مجدد الف ثانی (رح) بعض نیک لوگوں کی حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملاقات کی یہ توجیہہ بیان کرتے ہیں کہ خضر (علیہ السلام) دنیا کا دور تو ختم کرچکے ہیں البتہ اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے ان کی مثالی صورت ظاہر کردیتا ہے لہذا ممکن ہے کہ وہ مثالی صورت میں بھولے بھٹکوں کی راہنمائی کرتے ہوں مثالی صورت خواب میں بھی نظر آسکتی ہے اور بیداری میں بھی بعض اوقات نیک آدمی خواب میں نظر آتے ہیں اور کوئی اچھی بات بھی بتلا دیتے ہیں حالانکہ اس بندے کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ کون ہے جس طرح اللہ تعالیٰ خواب میں مثالی وجود دکھانے پر قادر ہے اسی طرح بیداری میں بھی ایسا ہو سکتا ہے ۔ (خضر (علیہ السلام) کا علم) جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ خضر (علیہ السلام) اللہ کے نبی تھے اور علم معرفت بواطن رکھتے تھے یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو باطنی امور کا علم عطا فرمایا تھا ، موسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کا علم ظاہری عوامل یعنی حلال و حرام اور عبادات کے متعلق ہے جب کہ خضر (علیہ السلام) کا علم باطنی امور کے بارے میں تھا ، چناچہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی خضر (علیہ السلام) سے ملاقات ہوئی تو مؤخر الذکر نے کہا اے موسیٰ (علیہ السلام) ” انت علی علم “ تم ایک ایسے علم پر ہو جسے میں نہیں جانتا اور میں ایک ایسے علم پر ہوں جسے آپ نہیں جانتے غرضیکہ موسیٰ (علیہ السلام) کا علم دین ، شریعت اور ظاہری احکام کے متعلق تھا جب کہ خضر (علیہ السلام) کو اللہ نے تکوینی امور کا علم عطا کیا تھا ۔ مسلم شریف میں حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ ایک خارجی نے بذریعہ خط آپ سے دریافت کیا کہ جنگ میں عورتوں اور بچوں کو قتل کرنا جائز ہے یا نہیں ، آپ نے جواب دیا کہ اگر تم وہ علم رکھتے ہو ، جو خضر (علیہ السلام) رکھتے تھے تو بیشک عورتوں اور بچوں کو قتل کرسکتے ہو ورنہ کسی عورت اور بچے کا قتل روا نہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ خضر (علیہ السلام) بعض باطنی امور کے متعلق قطعی علم رکھتے تھے جن کا ظاہری احکام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا ۔ بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہتے ہیں اللہ نے مجھے ” وعائین من العلم “ کے دو برتن عطا کیے ہیں ان میں سے ایک علم کو تو میں نے پھیلا دیا ہے جس کا تعلق عقائد ، حلال و حرام اور عبادات سے ہے اور اگر میں دوسرے علم کو بھی ظاہر کر دوں ” لقطع بلعوم “ تو یہ گردن کٹ جائے ، اس خاص علم کی پیش گوئیاں اور باطنی باتیں ہرگز برداشت نہیں ہو سکیں گی حضرت علی ؓ سے بھی منقول ہے ” یا رب جوھر علم لوابوح لقیل انت ممن یعبد الوثن “ علم کے بہت سے جوہر ایسے ہیں کہ اگر میں ان کو ظاہر کر دوں تو تم مجھ پر کفر کا فتوی لگا دو گے ” ولا ستحل رجال المسلمون دمی یرون اقبح ما یاتونہ حسنا “۔ اور کئی مسلمان میرے خون کو حلال سمجھنے لگیں گے جو خود برے سے برا عمل کرتے ہیں اور اسے اچھا خیال کرتے ہیں ۔ (علم لدنی) علم فرشتے کے ذریعے بھی سکھلایا جاسکتا ہے ، اشارے سے بھی ایسا ہوتا اور علم قلب میں ڈالا جاسکتا ہے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں ذرائع سے اپنے بندوں کو علم عطا کرتا ہے ، علم لدنی وہ علم ہے جس میں اچھے کام کی توفیق یاخذ لان یعنی رسوا کرنے کی طرف اشارہ ہوتا ہے ایسا علم بغیر کسب اور تلقین کے حاصل ہوتا ہے اور اسے علم وہبی بھی کہتے ہیں اس کو کشف اور الہام کے ساتھ بھی تعبیرکر سکتے ہیں تاہم خضر (علیہ السلام) کا علم انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام والا علم تھا اگرچہ آپ تشریعی نبی تھے بلکہ اللہ نے تکوینیات کے سلسلے میں کچھ علوم سکھائے تھے ، اس علم کے متعلق مولانا رومیرحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے لوگ کہتے ہیں ۔ علم چوں بردل زند یارے شود علم چوں برگل زندی بارے شود : جس علم کی چوٹ دل پر لگتی ہے وہ انسان کے لیے مفید ہوتا ہے اور جس علم کا تعلق مٹی یا جسم سے ہوتا ہے وہ انسان کے لیے بطور بوجھ ہی ہوتا ہے دوسرے شعر میں ہے ۔ علم را برتن زنی مارے بود : جس علم کی چوٹ دل کی بجائے جسم پر پڑتی ہے ، وہ علم انسان کے لیے بطور سانپ کے ہوتا ہے کہ اس سے نقصان کی توقع ہی کی جاسکتی ہے بہرحال علم لدنی وہ ہے جس سے قلب کی صفائی ہو اور تعلق باللہ درست ہوجائے ، اس قسم کا علم انبیاء کو تو قطعی نص سے ہوتا ہے البتہ کسی حد تک اولیاء اللہ کو بھی حاصل ہوتا ہے ، شاعر لوگ کہتے ہیں کہ اگر انسان کو سربلندی اور تفوق کا باعث بننے والا علم حاصل نہ ہو تو وہ خسارے میں رہتا ہے اردو زبان کے شاعر آزاد کا شعر بھی ہے ۔ سب صنعتیں جہاں کی آزاد ہم کو آئیں ملتا وہ یار جس سے ایسا ہنر نہ آیا : شیخ ابن عربی نے بھی کہا ہے ” مالذۃ العیش الا صحبۃ الفقرآء ھم السطین والسادات والامرآء “۔ فقراء کی صحبت کے بغیر کمال درجے کی مجلسی زندگی حاصل نہیں ہوسکتی یہی لوگ جو سلاطین بھی ہیں ، سادات بھی ہیں اور امراء بھی ہیں ان کے قلوب پر ہمیشہ اللہ کی تجلیات نازل ہوتی رہتی ہیں اور انہی کو علم لدنی حاصل ہے اگر ان لوگوں کی رفاقت نصیب ہوجائے تو بڑے کمال کی بات ہے ۔ (خصوصی سفر) مجاز کی زبان میں ذوق نے بھی کہا ہے ۔ کسی ہمدم دیرینہ سے ملنا بہتر ہے ملاقات مسیحا وخضر سے ۔ اس کا ظاہر معنی تو کفر پر دلالت کرتا ہے اگر کسی دراز مدت اور دراز عمر آدمی سے انسان ملتا رہے تو اس سے کہیں بہتر ہے کہ انسان کو ہمدم دیرینہ حاصل ہو ، خضر (علیہ السلام) کی عمر بڑی لمبی ہے اور حضرت مسیح (علیہ السلام) کی بھی ، لہذا یہاں صرف مجازی معنی لیا گیا ہے ، اس سے یہ مسئلہ بھی نکلتا ہے کہ مطلقا عالم ، شیخ یا بزرگ کی ملاقات کے لیے جاناجائز ہے حدیث شریف میں آتا ہے ” لا تشدوالرجال الا الی ثلثۃ مساجد “۔ تین مسجدوں کے علاوہ کجاوے نہ کسو اور وہ تین مسجدیں مسجدالحرام ، مسجد بیت المقدس ، اور مسجد نبوی ہیں مطلب یہ ہے کہ ان مساجد کے علاوہ کسی جگہ کے لیے سفر اختیار نہ کرو ، کیونکہ یہ تین مقامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخصوص ہیں اور حضور ﷺ نے بھی فرمایا ہے کہ ان مقامات پر نماز پڑھنے کا اجر بہت زیادہ ہے ، عام مساجد کی نسبت مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک لاکھ گنا ہے جس جب کہ بیت المقدس اور مسجد نبوی میں ادا کی جانے والی نماز کا ثواب پچاس پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے ، ان کے علاوہ کسی دوسری مسجد کے لیے کوئی نص موجود نہیں لہذا ہم نہیں کہہ سکتے کہ کسی فلاں مسجد میں نماز کی ادائیگی زیادہ اجر کا باعث ہوگی ، گویا کسی مکان کی طرف اس نیت سے سفر نہ کیا جائے ہاں ! کسی اچھے مقصد کے لیے سفر کرنا درست ہے اور منجملہ اس میں شیخ کی ملاقات بھی شامل ہے ۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے پیش نظر بھی یہی مسئلہ تھا انہوں نے صاف کہا ، اے پروردگار ! اس بندے کے ساتھ ملاقات کی کیا صورت ہو سکتی ہے تو اللہ نے وہ نشانی بھی بتلا دی جہاں ملاقات ممکن تھی آپ نے کہا میں وہاں ضرور جاؤں گا یہاں تک کہ اس سے ملاقات ہوجائے یا میں مدت دراز تک چلتا رہوں ، فارسی والے بھی کہتے ہیں ۔ دست از طلب نہ دارم تاکام من برآید یاتن رس بجاناں یا جاں زتن برآید : مطلب یہ ہے کہ میں اپنی مطلوبہ چیز سے دست کش نہیں ہوں گا چاہے میرے جسم سے جان ہی نکل جائے ۔ (پیٹ اور معرفت الہی) شیخ عبدالعزیز دباغ (رح) مادر زاد ولی اور باطنی نسبت کے باکمال بزرگ تھے ، اللہ نے آپ کی زبان پر بڑی بڑی باتیں جاری کیں ، سید احمد شہید بریلوی (رح) کی طرح زیادہ لکھے پڑھے نہیں تھے مگر اللہ نے بڑا روشن دل عطا فرمایا تھا یہی حال حاجی امداد اللہ مہاجر مکی (رح) کا ہے ظاہری علم کم تھا مگر مولانا گنگوہی (رح) اور مولانا نانوتوی (رح) جیسے لوگ آپ کے مرید تھے ، اگر یہ کہا جائے کہ گزشتہ صدی میں پوری دنیا میں اتنا بڑا ولی اللہ نہیں گزرا تو یہ بات غلط نہیں ہوگی بہرحال شیخ عبدالعزیز دباغ (رح) نے ایک نکتہ بیان کیا ہے ، فرماتے ہیں کہ جس مقام پر موسیٰ (علیہ السلام) کی مچھلی گم ہوئی اسی مقام پر ان کا مطلوب حاصل ہوا مچھلی پیٹ کا معاملہ تھا ، تو جہاں پیٹ کا معاملہ ختم ہوا وہاں معرفت حاصل ہوگئی ، اسی طرح فرماتے ہیں کہ جب تک انسان کے ساتھ پیٹ کا دھندا غالب ہوگا ، خدا تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہو سکتی ۔ (تعلیم و تعلم کے لیے شرائط) بہرحال جب موسیٰ (علیہ السلام) کی خضر (علیہ السلام) سے ملاقات ہوگئی (آیت) ” قال لہ موسیٰ “۔ تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا (آیت) ” ھل اتبعک علی ان تعلمن مما علمت رشدا “۔ کیا میں اس شرط پر آپ کی پیروی کرسکتا ہوں کہ آپ اللہ کی سکھلائی ہوئی چیز میں سے کچھ مجھے بھی سکھلائیں ؟ خضر (علیہ السلام) نے کہا (آیت) ” قال انک لن تستطیع معی صبرا “۔ کہ تو میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کرسکے گا ، پھر بےصبری کی وجہ بھی بیان کی (آیت) ” وکیف تصبر علی مالم تحط بہ خبرا “۔ بھلا آپ اس چیز پر کیسے صبر کرسکیں گے جس خبر کا آپ کو احاطہ ہی نہیں ، مطلب یہ کہ جس بات کی حقیقت کا آپ کو علم ہی نہیں آپ اس میں ضرور بےصبری کا اظہار کرتے ہوئے دخل اندازی کریں گے موسیٰ (علیہ السلام) نے یقین دلایا (آیت) ” قال ستجدنی ان شآء اللہ صابرا “۔ آپ انشاء اللہ مجھے صابر پائیں گے یعنی میں آپ کے معاملہ میں مداخلت نہیں کروں گا اور دوسری بات یہ (آیت) ” ولا اعصی لک امرا “۔ اور میں آپ کے کسی حکم کی نافرمانی بھی نہیں کروں گا ، اس قدر تسلی دلانے کے بعد خضر (علیہ السلام) موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنے ساتھ رکھنے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم میں سے کچھ سکھانے کے لیے آمادہ ہوگئے مگر اس شرط کے ساتھ (آیت) ” قال فان اتبعتنی فلا تسئلنی عن شیء حتی احدث لک منہ ذکرا “۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا اگر آپ میری پیروی کرتے ہیں تو آپ مجھ سے کسی چیز کے بارے میں سوال نہیں کریں گے حتی کہ میں خود ہی اسے تمہارے سامنے ظاہر کر دوں ۔ مطلب یہ کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے حصول مقصد کے لیے استاد اور شاگرد کے درمیان بعض شرائط طے ہوگئیں ، موسیٰ (علیہ السلام) کی شرط تھی کہ وہ خضر (علیہ السلام) کی معیت کے دوران صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے اور ان کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کریں گے ، ادھر خضر (علیہ السلام) کی شرط یہ تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) ان سے کسی چیز کے متعلق کوئی سوال نہیں کریں گے حتی کہ وہ خود ہی ان کو بیان کردیں ، اس سے معلوم ہوا کہ استاد اور شاگرد کے درمیان شرائط پر تعلیم و تعلم کا انتظام کرنا درست ہے استاد کہے کہ میں ان شرائط کے تحت پڑھاؤں گا اور شاگرد کہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے میری شرائط یہ ہون گی ، بہرحال ملاقات کے بعد ان دونوں صاحبان کے درمیان رفاقت اور تعلیم کی شرائط طے ہوگئیں اور وہ اپنے سفر پر روانہ ہوگئے جس کا ذکر اگلی آیات میں آرہا ہے ۔
Top