Urwatul-Wusqaa - Al-Kahf : 65
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ١ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ١ؕ وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَهُنَّ فَعِظُوْهُنَّ وَ اهْجُرُوْهُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْهُنَّ١ۚ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْهِنَّ سَبِیْلًا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیًّا كَبِیْرًا
اَلرِّجَالُ : مرد قَوّٰمُوْنَ : حاکم۔ نگران عَلَي : پر النِّسَآءِ : عورتیں بِمَا : اس لیے کہ فَضَّلَ : فضیلت دی اللّٰهُ : اللہ بَعْضَھُمْ : ان میں سے بعض عَلٰي : پر بَعْضٍ : بعض وَّبِمَآ : اور اس لیے کہ اَنْفَقُوْا : انہوں نے خرچ کیے مِنْ : سے اَمْوَالِهِمْ : اپنے مال فَالصّٰلِحٰتُ : پس نیکو کار عورتیں قٰنِتٰتٌ : تابع فرمان حٰفِظٰتٌ : نگہبانی کرنے والیاں لِّلْغَيْبِ : پیٹھ پیچھے بِمَا : اس سے جو حَفِظَ : حفاطت کی اللّٰهُ : اللہ وَالّٰتِيْ : اور وہ جو تَخَافُوْنَ : تم ڈرتے ہو نُشُوْزَھُنَّ : ان کی بدخوئی فَعِظُوْھُنَّ : پس امن کو سمجھاؤ وَاهْجُرُوْھُنَّ : اور ان کو تنہا چھوڑ دو فِي الْمَضَاجِعِ : خواب گاہوں میں وَاضْرِبُوْھُنَّ : اور ان کو مارو فَاِنْ : پھر اگر اَطَعْنَكُمْ : وہ تمہارا کہا مانیں فَلَا تَبْغُوْا : تو نہ تلاش کرو عَلَيْهِنَّ : ان پر سَبِيْلًا : کوئی راہ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ كَانَ : ہے عَلِيًّا : سب سے اعلی كَبِيْرًا : سب سے بڑا
تو انہیں ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ مل گیا کہ اس پر ہم نے خصوصیت کے ساتھ مہربانی کی تھی اسے اپنے پاس سے علم عطا فرمایا تھا
جب وہ واپس اس مقام پر پہنچے تو ان کی ملاقات ایک اللہ کے بندہ سے ہوگئی : 70۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے جب اپنے ساتھی کی بات سنی تو مطمئن ہوگئے اور وہاں سے واپس چل کر جب اس مقام پر پہنچے تو اس جگہ ان کی ملاقات ایک بندے سے ہوگئی جو عام بندہ نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں میں سے ایک تھا جو اس وقت کی اس علاقہ کی حکومت کا کوئی صاحب اختیار بندہ تھا جو باقاعدہ کسی مہم پر نکلا تھا جیسا کہ اس کے کاموں سے خودبخود اس بات کا ثبوت مل جاتا ہے جو آگے بیان ہوئے ہیں اور اس علاقہ کی اس وقت کی حکومت کا کھوج نکالا جائے اور تاریخ کے ابواب کی ورق گردانی کی جائے تو یہ بات یقینا پایہ ثبوت کو پہنچ جائے گی کہ اس علاقہ کی حکومت کی باگ دوڑ کسی خاص بندہ کے ہاتھ میں تھی خواہ اس حکومت کا رقبہ کتنا ہی کم یا زیادہ ہو اور اس نے علاقہ میں قانون الہی کو نافذ کیا ہوا تھا اور یہ اللہ کا بندہ بھی اسی حکومت کا کوئی خاص بااختیار بندہ تھا ۔ موسیٰ (علیہ السلام) اگرچہ اس وقت تک ابھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث نہیں ہوئے تھے تاہم آپ میں نبوت و رسالت کی صلاحیتیں تو یقینا موجود تھیں کیونکہ آپ نبی بنائے جانے ہی والے تھے اور یقینا آپ کو کسی رویا میں ایسے آدمی کی ملاقات کے ہونے کی یقینی توقع تھی اور یہی وہ توقع تھی جو آپ کو آگے بڑھنے سے اللہ تعالیٰ کے تکوینی حکم کے تحت روک رہی تھی اور آگے نکل جانے کے بعد واپس لے آئی تھی ، رہی یہ بات کہ اس کے علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے اس لئے اس کو وقت کا کوئی نبی تسلیم کرلیا جائے کسی حال میں بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس نے جو کام کئے ہیں وہ نبوت کے کاموں سے میل نہیں کھاتے بلکہ حکومت الہیہ سے میل کھاتے ہیں ، بہرحال موسیٰ (علیہ السلام) نے جب اس سے ملاقات کی اور یہ معلوم ہوا کہ یہ بندہ کسی خاص پروگرام کے تحت نکلا ہوا ہے تو آپ نے اس سفر میں اس کے ساتھ رہنے کی خواہش کا اظہار کردیا اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت جو ساتھی آپ کے ساتھ تھا اس کو واپس مصر روانہ کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ عارضی طور پر ساتھ لے لیا گیا تھا ۔
Top