Kashf-ur-Rahman - Al-Ankaboot : 15
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَصْحٰبَ السَّفِیْنَةِ وَ جَعَلْنٰهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
فَاَنْجَيْنٰهُ : پھر ہم نے اسے بچالیا وَاَصْحٰبَ السَّفِيْنَةِ : اور کشتی والوں کو وَجَعَلْنٰهَآ : اور اسے بنایا اٰيَةً : ایک نشانی لِّلْعٰلَمِيْنَ : جہان والوں کے لیے
پھر ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور جہاز والوں کو بچا لیا اور ہم نے اس واقعہ عذاب کو اہل عالم کے لئے ایک عبرت آموز نشانی بنایا
15۔ پھر ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور جہاز والوں کو بچا لیا اور ہمنی اس واقعہ طوفان کو اقوام عالم کیلئے ایک عبرت امور نشانی بنایا ۔ یعنی جب تک طوفان نوح (علیہ السلام) کا تذکرہ باقی رہے لوگوں کو عبرت حاصل ہوتی رہے۔ اصحاب سفنہ وہی لوگ جو حضرت نوح (علیہ السلام) کے ہمراہ اس جہاز میں سوار تھے وہ سب بچ گئے اور آئندہ نسل انہی سے چلی یہ جہاز پانی اترنے کے بعد جو دی پر ٹھہر گیا اور وہیں مدتوں رکھا رہا، جیسا کہ سورة ہود میں تفصیل گزر چکی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کہتے ہیں طوفان سے پہلے اتنا رہے اور پیچھے بھی ایک مدت رہے ساری عمر چودہ برس ۔ 12 حضرت نوح (علیہ السلام) کی عمر میں چند قول ہیں صاحب روح نے فرمایا ایک ہزار پچاس سال کی عمر ہوئی بعض حضرات نے اس سے بھی زیادہ بتائی ہے۔ واللہ اعلم ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جس وقت یہ سورت اتری ہے حضرت کے یار بہت سے کافروں کی ایذا سے جہاز پر بیٹھ کر حبشہ کے ملک گئے تھے جب حضرت مدینہ کو ہجرت کر آئے تب دے بھی سلامتی سے آئے اور جہاز نشانی رکھا لوگوں کو یعنی دنیا میں نائو سے بڑے کام چلتے ہیں اور قدرتیں اللہ کی نظر آتی ہیں ۔ 12 خلاصہ۔ یہ کہ حسن اتفاق سے جس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے کشتی میں بیٹھ کر نجات پائی کفار سے اسی طرح امت محمدیہ کے بھی بعض مخلصین اہل مکہ کی ایذا رسانی سے تنگ آ کر حبشہ چلے گئے کشتی میں بیٹھ کر پھر جب حضور مدینے پہنچ گئے تب حبشہ سے وہ مہاجرین واپس مدینہ منورہ جا کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے سورة عنکبوت نازل ہوچکی تھی ۔ میں نوح (علیہ السلام) کی قوم کا کشتی میں بیٹھ کر نجات پانا مذکور ہے اس لئے شاہ صاحب (رح) نے دونوں امتوں کی مناسب ذکر فرمائی پھر سورة عنکبوت کا حس سال نزول ہوا اسی سال حبشہ کی ہجرت کا واقعہ پیش آیا۔
Top