Tafseer-e-Madani - Al-Ankaboot : 15
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَصْحٰبَ السَّفِیْنَةِ وَ جَعَلْنٰهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
فَاَنْجَيْنٰهُ : پھر ہم نے اسے بچالیا وَاَصْحٰبَ السَّفِيْنَةِ : اور کشتی والوں کو وَجَعَلْنٰهَآ : اور اسے بنایا اٰيَةً : ایک نشانی لِّلْعٰلَمِيْنَ : جہان والوں کے لیے
پھر بچالیا ہم نے نوح کو بھی اور کشتی والوں کو بھی اپنی رحمت و عنایت سے اور بنادیا ہم نے اس کو ایک عظیم الشان نشانی جہاں والوں کے لئے
13 حاجت روا و مشکل کشا سب کا اللہ ہی ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " آخرکار عذاب آنے پر ہم نے بچا لیا نوح کو بھی اور کشتی والوں کو بھی "۔ " ہم نے بچا لیا " سے واضح فرما دیا گیا ہے کہ نجات دھندہ اور حاجت روا و مشکل کشا سب کے ہم ہی ہیں۔ حضرات انبیاء و رسل بھی ہماری ہی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے محتاج ہیں۔ اور جب حضرت نوح جیسے اولوالعزم رسول اور ان کے جلیل القدر ساتھیوں کو نجات دینا اور ان کو اس طوفان سے بچا نکالنا بھی ہمارا ہی کام ہے۔ اور جب ان عظیم الشان اور جلیل القدر ہستیوں کے نجات دھندہ اور مشکل کشا و حاجت روا اور دستگیر بھی ہم ہی ہیں تو پھر اور کون ایسا ہوسکتا ہے جو ان صفات کا حامل اور مالک ہو سکے ؟ پس اللہ پاک کے سوا کسی اور کو حاجت روا و مشکل کشا اور دستگیر ماننا شرک ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ حاجت روا و مشکل کشا سب کا اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے۔ اس لیے دل کا بھروسہ ہمیشہ اسی پر ہو اور رجوع بھی اسی کی طرف کہ سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے اور خالق ومالک اور حاکم و متصرف وہی وحدہ لا شریک ہے۔ 14 قصہ نوح سے متعلق عظیم الشان نشان عبرت کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " ہم نے اس کو بنادیا ایک عظیم الشان نشانی "۔ یعنی حضرت نوح کی اسی کشتی کو جو ایک عرصہ تک " جودی " پہاڑی پر دنیا کیلئے سامان عبرت بنی رہی اور صدیوں تک بعد میں آنے والی نسلوں کو اپنی زبان حال سے یہ بتلاتی رہی کہ یہاں کوئی ایسا طوفان آیا تھا جس نے اس کشتی کو اس پہاڑی کی چوٹی پر پہنچا دیا تھا۔ اور سورة قمر کی آیت نمبر 13، 14 میں بھی اس کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں حضرت قتادہ سے نقل کیا ہے کہ جب مسلمان الجزیرہ کے علاقے میں گئے تو انہوں نے اس کشتی کو خود دیکھا اور موجودہ زمانے میں بھی گاہے گاہے اس طرح کی خبریں آتی رہتی ہیں کہ کشتی نوح کی تلاش کے لئے مہمات بھیجی جا رہی ہیں۔ اور وجہ اس کی یہ بیان کی جاتی ہے کہ بعض اوقات جب ہوائی جہاز کوہ اراراط کے اوپر سے گزرتے ہیں تو ان لوگوں کو اس پہاڑ کی چوٹی پر اس کشتی کے مشابہ ایک چیز دکھائی دیتی ہے۔ نیز { جعلنا ھا } کی اس ضمیر کا مرجع قصہ نوح بھی ہوسکتا ۔ " اَیِ السَّفِیْنَۃُ اَوِ الْقِصَّۃُ " ۔ (جامع البیان، روح، قرطبی، فتح القدیر وغیرہ) ۔ سو حضرت نوح کا یہ قصہ بھی ایک بڑی عظیم الشان نشانی تھی جو اپنے اندر کئی درسہائے عبرت و بصیرت کو سمیٹے ہوئے تھی۔ مثلاً یہ کہ انکار اور تکذیبِ حق کا لازمی نتیجہ اور آخری انجام بہرحال ہولناک تباہی ہے اگرچہ اس کیلئے کسی قوم کو صدیوں اور قرنوں تک مہلت بھی کیوں نہ مل جائے اور نجات انہی کو نصیب ہوگی جنہوں نے اللہ کے رسول کے دامن میں پناہ کو پکڑا ہوگا اور صدق دل سے ان پر ایمان لاکر ان کی اتباع و پیروی کی ہوگی۔ ایسوں کو ہی اللہ تعالیٰ اپنی خاص عنایات سے نوازتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہرکیف کشتی نوح بھی ایک عظیم الشان نشان عبرت تھی اور پورا قصہ نوح بھی۔ اس لیے اس کی تذکیر و یاددہانی فرمائی گئی تاکہ جس نے عبرت پکڑنا ہو پکڑ لے اور اس کی روشنی میں اپنی اصلاح کرلے۔ قبل اس سے کہ فرصت حیات ہی ہاتھ سے نکل جائے اور اس کو ہمیشہ بچھتانا پڑے ۔ والعیاذ باللہ -
Top