Al-Quran-al-Kareem - Al-Ankaboot : 15
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَصْحٰبَ السَّفِیْنَةِ وَ جَعَلْنٰهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
فَاَنْجَيْنٰهُ : پھر ہم نے اسے بچالیا وَاَصْحٰبَ السَّفِيْنَةِ : اور کشتی والوں کو وَجَعَلْنٰهَآ : اور اسے بنایا اٰيَةً : ایک نشانی لِّلْعٰلَمِيْنَ : جہان والوں کے لیے
پھر ہم نے اسے بچالیا اور کشتی والوں کو بھی اور اسے جہانوں کے لیے ایک نشانی بنادیا۔
فَاَنْجَيْنٰهُ وَاَصْحٰبَ السَّفِيْنَةِ : یہ واقعہ سورة ہود (37 تا 48) میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ وَجَعَلْنٰهَآ اٰيَةً لِّــلْعٰلَمِيْنَ : اس جملے کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ ہم نے اس واقعہ کو تمام جہانوں کے لیے نشانی بنادیا کہ جو بھی اسے سنے اس سے عبرت حاصل کرے۔ دوسرا یہ کہ ہم نے اس کشتی کو تمام جہانوں کے لیے نشانی بنادیا کہ پانی میں غرق ہونے سے بچاؤ کا یہ طریقہ ہے۔ چناچہ اس کے بعد تمام زمانوں میں انسان نے اس کی مانند کشتیاں بنا کر غرق ہونے سے بچنے کا اور سمندر میں سفر کا بندوبست کیا۔ یہ مضمون ان آیات میں بھی بیان کیا گیا ہے : (وَاٰيَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّــتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِ وَخَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّثْلِهٖ مَا يَرْكَبُوْنَ وَاِنْ نَّشَاْ نُغْرِقْهُمْ فَلَا صَرِيْخَ لَهُمْ وَلَا هُمْ يُنْقَذُوْنَ اِلَّا رَحْمَةً مِّنَّا وَمَتَاعًا اِلٰى حِيْنٍ) [ یٰسٓ : 41 تا 44 ] ”اور ایک نشانی ان کے لیے یہ ہے کہ بیشک ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ اور ہم نے ان کے لیے اس جیسی کئی اور چیزیں بنائیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں۔ اور اگر ہم چاہیں تو انھیں غرق کردیں، پھر نہ کوئی ان کی فریاد سننے والا ہو اور نہ وہ بچائے جائیں۔ مگر ہماری طرف سے رحمت اور ایک وقت تک فائدہ پہنچانے کی وجہ سے۔“ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ”جس وقت یہ سورت اتری ہے آپ ﷺ کے بہت سے اصحاب کافروں کی ایذاؤں سے تنگ آکر جہاز پر سوار ہو کر ملک حبشہ کی طرف گئے تھے، جب آپ ﷺ مدینہ ہجرت کر آئے تب وہ جہاز والے صحابہ بھی سلامتی سے آ ملے۔“ (موضح) گویا نوح ؑ اور سفینۂ نوح کی تاریخ اس رنگ میں دہرائی گئی۔ تیسرا مطلب اس کا یہ ہوسکتا ہے کہ وہ کشتی صدیوں تک جودی پہاڑ کی چوٹی پر موجود رہی اور بعد کی نسلوں کو خبر دیتی رہی کہ اس سرزمین میں کبھی ایسا طوفان آیا تھا جس کی بدولت یہ اتنی بڑی کشتی پہاڑ کی چوٹی پر پہنچی۔ اب بھی اخباروں میں اس کشتی کی تلاش کے لیے مہمات روانہ ہونے کی خبریں آتی رہتی ہیں۔ اس مطلب کی تائید اللہ کے اس فرمان سے ہوتی ہے : (وَحَمَلْنٰهُ عَلٰي ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ تَجْرِيْ بِاَعْيُنِنَا ۚ جَزَاۗءً لِّمَنْ كَانَ كُفِرَ وَلَقَدْ تَّرَكْنٰهَآ اٰيَةً فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ) [ القمر : 13 تا 15 ] ”اور ہم نے اسے تختوں اور میخوں والی (کشتی) پر سوار کردیا۔ جو ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی، اس شخص کے بدلے کی خاطر جس کا انکار کیا گیا تھا۔ اور بلاشبہ یقیناً ہم نے اسے ایک نشانی بنا کر چھوڑا، تو کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ؟“ چوتھا مطلب اس کا یہ ہوسکتا ہے کہ ہم نے نوح ؑ اور کشتی میں سوار لوگوں کو نجات دی اور اس نجات کو تمام جہانوں کے لیے نشانی بنادیا، جو کئی لحاظ سے نشانی تھی، ایک یہ کہ طوفان آنے سے پہلے کشتی تیار ہوگئی، دوسرا یہ کہ نوح ؑ نے اپنا اور کشتی میں موجود تمام انسانوں اور جانوروں کی خوراک کا ذخیرہ کرلیا، تیسرا یہ کہ خوراک ختم ہونے سے پہلے پہلے پانی زمین میں جذب ہو کر خشک ہوگیا، جب کہ اتنا بڑا سمندر جو پہاڑوں کی بلندی کے برابر گہرا ہو، اتنی مدت میں کبھی خشک نہیں ہوتا، اگر اتنی جلدی پانی جذب نہ ہوتا تو ان میں سے کوئی زندہ باقی نہ رہتا، چوتھا یہ کہ وہ کشتی اتنی مدت تک ہوا کے تھپیڑوں اور خطرناک بحری جانوروں کے حملوں سے بھی محفوظ رہی۔ ان تمام باتوں میں کشتی کا یا کشتی والوں کا کچھ کمال نہ تھا، یہ ہم تھے جنھوں نے ان تمام چیزوں کا اہتمام کر کے نوح ؑ اور کشتی والوں کو نجات دی اور اس نجات کو تمام جہانوں کے لیے نشانی بنادیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان چاروں مطالب میں کوئی تضاد نہیں، چاروں بیک وقت مراد ہوسکتے ہیں۔
Top