Maarif-ul-Quran - Al-Kahf : 65
فَوَجَدَا عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَاۤ اٰتَیْنٰهُ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ عَلَّمْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا
فَوَجَدَا : پھر دونوں نے پایا عَبْدًا : ایک بندہ مِّنْ : سے عِبَادِنَآ : ہمارے بندے اٰتَيْنٰهُ : ہم نے دی اسے رَحْمَةً : رحمت مِّنْ : سے عِنْدِنَا : اپنے پاس وَعَلَّمْنٰهُ : اور ہم نے علم دیا اسے مِنْ لَّدُنَّا : اپنے پاس سے عِلْمًا : علم
پھر پایا ایک بندہ ہمارے بندوں میں کا جس کو دی تھی ہم نے رحمت اپنے پاس سے اور سکھلایا تھا اپنے پاس سے ایک علم ،
حضرت خضر ؑ سے ملاقات اور ان کی نبوت کا مسئلہ
قرآن کریم میں اگرچہ اس صاحب واقعہ کا نام مذکور نہیں بلکہ (آیت) عَبْدًا مِّنْ عِبَادِنَآ کہا گیا مگر صحیح بخاری کی حدیث میں ان کا نام خضر بتلایا گیا ہے خضر کے لفظی معنی ہرے بھرے کے ہیں ان کا نام خضر ہونے کی وجہ عام مفسرین نے یہ بتلائی ہے کہ یہ جس جگہ بیٹھ جاتے تو کیسی ہی زمین ہو وہاں گھاس اگ جاتی اور زمین سر سبز ہوجاتی تھی قرآن کریم نے یہ بھی واضح نہیں کیا کہ خضر ؑ کوئی پیغمبر تھے یا اولیاء اللہ میں سے کوئی فرد تھے لیکن جمہور علماء کے نزدیک ان کا نبی ہونا خود قرآن کریم میں ذکر کئے ہوئے واقعات سے ثابت ہے کیونکہ خضر ؑ سے اس سفر میں جتنے واقعات ثابت ہیں ان میں بعض تو قطعی طور پر خلاف شرع ہیں اور حکم شریعت سے کوئی استثناء بجز وحی الہی کے ہو نہیں سکتا جو نبی اور پیغمبر ہی کے ساتھ مخصوص ہے ولی کو بھی کشف یا الہام سے کچھ چیزیں معلوم ہو سکتی ہیں مگر وہ کوئی حجت نہیں ہوتی ان کی بناء پر ظاہر شریعت کے کسی حکم کو بدلا نہیں جاسکتا اس لئے یہ متعین ہوجاتا ہے کہ خضر ؑ اللہ کے نبی اور پیغمبر تھے ان کو بذریعہ وحی الہی بعض خاص احکام وہ دئیے گئے تھے جو ظاہر شریعت کے خلاف تھے انہوں نے جو کچھ کیا اس استثنائی حکم کے ماتحت کیا خود ان کی طرف سے اس کا اظہار بھی قرآن کے اس جملے میں ہوگیا (آیت) وَمَا فَعَلْتُهٗ عَنْ اَمْرِيْ (یعنی میں نے جو کچھ کیا اپنی طرف سے نہیں کیا بلکہ امر الہی سے کیا ہے)
خلاصہ یہ ہے کہ جمہور امت کے نزدیک حضرت خضر ؑ بھی ایک نبی اور پیغمبر ہیں مگر ان کے کچھ تکوینی خدمتیں من جانب اللہ سپرد کی گئی تھیں انہی کا علم دیا گیا تھا اور حضرت موسیٰ ؑ کو اس کی اطلاع نہ تھی اسی لئے اس پر اعتراض کیا تفسیر قرطبی بحر محیط ابو حیان اور اکثر تفاسیر میں یہ مضمون بعنوانات مختلفہ مذکور ہے۔
کسی ولی کو ظاہر شریعت کے حکم کے خلاف ورزی حلال نہیں
یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ بہت سے جاہل غلط کار تصوف کو بدنام کرنے والے صوفی جو کہنے لگے کہ شریعت اور چیز ہے اور طریقت اور ہے بہت سی چیزیں شریعت میں حرام ہوتی ہیں مگر طریقت میں جائز ہیں اس لئے کسی ولی کو صریح گناہ کبیرہ میں مبتلا دیکھ کر بھی اس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا یہ کھلا ہوا زندقہ اور باطل ہے حضرت خضر ؑ پر کسی دنیا کے ولی کو قیاس نہیں کیا جاسکتا اور نہ ظاہر شریعت کے خلاف اس کے کسی فعل کو جائز کہا جاسکتا ہے۔
Top