Maarif-ul-Quran - An-Noor : 76
فَلَا یَحْزُنْكَ قَوْلُهُمْ١ۘ اِنَّا نَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ
فَلَا يَحْزُنْكَ : پس آپ کو مغموم نہ کرے قَوْلُهُمْ ۘ : ان کی بات اِنَّا نَعْلَمُ : بیشک ہم جانتے ہیں مَا يُسِرُّوْنَ : جو وہ چھپاتے ہیں وَمَا : اور جو يُعْلِنُوْنَ : وہ ظاہر کرتے ہیں
اب تو غمگین مت ہو ان کی بات سے ہم جانتے ہیں جو وہ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں
خلاصہ تفسیر
(جب یہ لوگ ایسے واضح اور کھلے ہوئے امور میں بھی خلاف ہی کرتے ہیں) تو ان لوگوں کی باتیں (انکار توحید و رسالت سے متعلق) آپ کے لئے آزردگی کا باعث نہ ہونا چاہئے (کیونکہ آزردگی ہوتی ہے امید سے، اور امید ہوتی ہے مخاطب کے عقل و انصاف سے اور ان لوگوں میں نہ عقل ہے نہ انصاف تو ان سے کسی چیز کی امید ہی نہیں ہو سکتی، پھر غم کیوں ہو۔ آگے دوسرے طریقہ سے آنحضرت محمد ﷺ کی تسلی ہے) بیشک ہم سب جانتے ہیں جو کچھ یہ دل میں رکھتے ہیں اور جو کچھ (زبان سے) ظاہر کرتے ہیں (اس لئے وقت مقرر پر ان کو ان کے عمل کی سزا ملے گی) کیا (اس) آدمی کو (جو قیامت کا انکار کرتا ہے) یہ معلوم نہیں کہ ہم نے اس کو (ایک حقیر) نطفہ سے پیدا کیا (جس کا تقاضا یہ تھا کہ اپنی ابتدائی حالت کو یاد کر کے اپنی حقارت اور خالق کی عظمت کو دیکھ کر خود شرماتا کہ گستاخی کی جرأت نہ کرتا دوسرے خود اپنے حالات سے اس پر استدلال کرتا کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کردینا اس کی قدرت سے کیا بعید ہے) سو (اس نے ایسا نہ کیا بلکہ اقتضائے مذکور کے خلاف) وہ علانیہ اعتراض کرنے لگا اور (وہ اعتراض یہ کہ) اس نے ہماری شان میں ایک عجیب مضمون بیان کیا (عجیب اس لئے کہ اس سے انکار قدرت لازم آتا ہے) اور اپنی اصل کو بھول گیا (کہ ہم نے اس کو نطفہ حقیر سے ایک کامل انسان بنایا) کہتا ہے کہ ہڈیوں کو جبکہ وہ بوسیدہ ہوگئی ہوں کون زندہ کر دے گا۔ آپ جواب دے دیجئے کہ ان کو وہ زندہ کرے گا جس نے پہلی مرتبہ ان کو پیدا کیا ہے (کہ پہلی تخلیق کے وقت ان ہڈیوں کا زندگی سے کوئی تعلق ہی نہ تھا اور اب تو ایک مرتبہ ان میں حیات پیدا ہو کر ایک قسم کا تعلق حیات سے ہوچکا ہے اب ان میں حیات پیدا کرنا کیا مشکل ہے) اور وہ ہر طرح کا پیدا کرنا جانتا ہے (یعنی ابتداً کسی چیز کو پیدا کردینا یا پیدا شدہ کو فنا کر کے دوبارہ پیدا کردینا) وہ ایسا (قادر مطلق) ہے کہ (بعض) ہرے درخت سے تمہارے لئے آگ پیدا کردیتا ہے، پھر تم اس سے اور آگ سلگا لیتے ہو (جیسا کہ عرب میں ایک درخت تھا، مرخ دوسرا عفار، ان دونوں درختوں سے چقماق کا کام لیتے تھے، دونوں کے ملانے سے آگ پیدا ہوجاتی تھی، تو جس قادر نے ہرے درخت کے پانی میں آگ پیدا فرما دی تو دوسرے جمادات میں حیات پیدا کردینا اس کے لئے کیا مشکل ہے) اور جس نے آسمان اور زمین پیدا کئے ہیں کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ ان جیسے آدمیوں کو (دوبارہ) پیدا کر دے، ضرور قادر ہے اور وہ بڑا پیدا کرنے والا خوب جاننے والا ہے (اور اس کی قدرت ایسی ہے کہ) جب وہ کسی چیز (کے پیدا کرنے) کا ارادہ کرتا ہے تو بس اس کا معمول تو یہ ہے کہ اس چیز کو کہہ دیتا ہے کہ ہوجا بس وہ ہوجاتی ہے تو (ان سب مقدمات سے ثابت ہوگیا کہ) اس کی پاک ذات ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا پورا اختیار ہے اور (یہ بات سب شبہات سے سالم رہ گئی کہ) تم سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے (یعنی قیامت کے روز)۔
Top