Mutaliya-e-Quran - Al-Baqara : 203
وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ۚ وَ مَنْ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ۙ لِمَنِ اتَّقٰى١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
وَاذْكُرُوا : اور تم یاد رکھو اللّٰهَ : اللہ فِيْٓ : میں اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ : دن۔ گنتی کے فَمَنْ : پس جو تَعَجَّلَ : جلد چلا گیا فِيْ : میں يَوْمَيْنِ : دو دن فَلَآ : تو نہیں اِثْمَ : گناہ عَلَيْهِ : اس پر وَمَنْ : اور جس تَاَخَّرَ : تاخیر کی فَلَآ : تو نہیں اِثْمَ : گناہ عَلَيْهِ : اس پر لِمَنِ : لیے۔ جو اتَّقٰى : ڈرتا رہا وَاتَّقُوا : اور تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ وَاعْلَمُوْٓا : اور جان لو اَنَّكُمْ : کہ تم اِلَيْهِ : اس کی طرف تُحْشَرُوْنَ : جمع کیے جاؤگے
یہ گنتی کے چند روز ہیں، جو تمہیں اللہ کی یاد میں بسر کرنے چاہییں پھر جو کوئی جلدی کر کے دو ہی دن میں واپس ہو گیا تو کوئی حرج نہیں، اور جو کچھ دیر زیادہ ٹھیر کر پلٹا تو بھی کوئی حرج نہیں بشر طیکہ یہ دن اس نے تقویٰ کے ساتھ بسر کیے ہو اللہ کی نافرمانی سے بچو اور خوب جان رکھو کہ ایک روز اس کے حضور میں تمہاری پیشی ہونے والی ہے
[ وَاذْکُرُوا : اور تم لوگ یاد کرو ] [ اللّٰہَ : اللہ کو ] [ فِیْ اَ یَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ : گنے ہوئے دنوں میں ] [ فَمَنْ : پس جس نے ] [ تَعَجَّلَ : جلدی کی ] [ فِیْ یَوْمَیْنِ : دو دنوں میں ] [ فَلَا اِثْمَ : تو کسی قسم کا گناہ نہیں ہے ] [ عَلَیْہِ : اس پر ] [ وَمَنْ تَاَخَّرَ : اور جس نے دیر کی ] [ فَلاَ اِثْمَ عَلَیْہِ : تو کسی قسم کا کوئی گناہ نہیں ہے اس پر ] [ لِمَنِ اتَّقٰی : اس کے لیے جس نے تقویٰ کیا ] [ وَاتَّقُوا : اور تم لوگ تقویٰ کرو ] [ اللّٰہَ : اللہ کا ] [ وَاعْلَمُوْآ : اور تم لوگ جان لو ] [ اَنَّـــکُمْ : کہ ] [ اِلَــیْہِ : اس کی طرف ہی ] [ تُحْشَرُوْنَ : تم سب اکٹھا کیے جائو گے ] ح ش ر حَشَرَ (ن) حَشْرًا : (1) جمع کرنا ‘ اکٹھا کرنا۔ (2) جمع کرنے کے لیے نکالنا ‘ اُٹھانا۔ { یَوْمَ نَحْشُرُ الْمُتَّقِیْنَ اِلَی الرَّحْمٰنِ وَفْدًا ۔ } (مریم) ” جس دن ہم جمع کریں گے متقی لوگوں کو رحمن کی طرف بطور وفد کے۔ “{ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِیْ اَعْمٰی } (طٰہٰ :125) ” اے میرے رب ! تو نے کیوں اٹھایا مجھ کو اندھا ؟ “ اُحْشُرْ (فعل امر) : تو جمع کر۔ { اُحْشُرُوا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا } (الصّٰفّٰت :22) ” تم لوگ اکٹھا کرو ان لوگوں کو جنہوں نے ظلم کیا۔ “ حَاشِرٌ (اسم الفاعل) : جمع کرنے والا۔{ وَابْعَثْ فِی الْمَدَآئِنِ حٰشِرِیْنَ ۔ } (الشُّعرائ) ” اور تو بھیج شہروں میں جمع کرنے والوں کو۔ “ مَحْشُوْرٌ (اسم المفعول) : جمع کیا ہوا۔ { وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرَۃً ط } (صٓ:19) ” اور پرندوں کو ‘ جمع کیے ہوئے۔ “ ترکیب : ” وَاذْکُرُوْا “ کا فاعل اس کی ” اَنْتُمْ “ کی ضمیر ہے ‘ لفظ ” اللّٰہَ “ مفعول ہے اور مرکب توصیفی ” اَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ “ ظرف ہے ‘ لیکن ” فِیْ “ کی وجہ سے حالت جر میں آیا ہے۔ ” فَمَنْ “ میں ” مَنْ “ شرطیہ ہے۔” تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ “ شرط ہے جبکہ ” فَلَا اِثْمَ عَلَیْہِ “ جوابِ شرط ہے اور اس پر لائے نفی ٔ‘ جنس ہے۔ نوٹ (1) : ” تَعَجَّلَ “ کے ساتھ دو دنوں کی وضاحت ہے لیکن ” تَاَخَّرَ “ کے ساتھ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ حاجی کی مرضی ہے کہ جب تک اس کا جی چاہے منیٰ میں رہے ‘ تین دن میں واپسی ضروری نہیں ہے۔ کچھ لوگ سعودی حکومت پر تنقید کرتے ہیں کہ تمام انتظامات ختم کر کے حاجیوں کو تین دنوں میں واپسی پر مجبور کرنا اس آیت کے خلاف ہے۔ وہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ طریقہ اسلام سے بھی پہلے سے رائج ہے جسے قرآن یا حدیث میں تبدیل نہیں کیا گیا۔ نیز ان کی دلیل کی تردید اس آیت کے الفاظ ” اَیَّامٍ مَّعْدُوْدَاتٍ “ سے ہوجاتی ہے کہ جلدی یا دیر کرنے کی بات ان دنوں کے حوالے سے ہے۔ اس قسم کی بحثوں میں الجھنے کے بجائے ہمیں اپنی توجہ کو اس آیت کے اصل سبق پر مرکوز کرنا چاہیے۔ اس میں سبق یہ دیا گیا ہے کہ کسی حاجی کی فضیلت اس میں نہیں ہے کہ دس تاریخ کو حج کے ارکان سے فارغ ہونے کے بعد کون منیٰ میں دو دن رہا اور کون تین دن ‘ بلکہ فضیلت اس میں ہے کہ قیام کے دوران کس نے اللہ کو کتنا یاد کیا اور اللہ کی نافرمانیوں سے بچنے کی کتنی پریکٹس کی۔ جس طرح حج پر آنے کے سفر کے لیے بہترین زاد راہ تقویٰ تھا اسی طرح واپسی کے لیے بھی بہترین زاد راہ اور حج کا بہترین تحفہ تقویٰ ہونا چاہیے۔ اس لیے حج سے فارغ ہو کر کچھ عرصہ منیٰ میں قیام کر کے اپنے تقویٰ میں حسن و نکھار پیدا کر کے اسے خوب مستحکم کرلو ‘ اس کے بعد اپنے کمرئہ امتحان میں واپس جائو۔
Top