Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 203
وَ اذْكُرُوا اللّٰهَ فِیْۤ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ١ؕ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ۚ وَ مَنْ تَاَخَّرَ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَیْهِ١ۙ لِمَنِ اتَّقٰى١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّكُمْ اِلَیْهِ تُحْشَرُوْنَ
وَاذْكُرُوا
: اور تم یاد رکھو
اللّٰهَ
: اللہ
فِيْٓ
: میں
اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ
: دن۔ گنتی کے
فَمَنْ
: پس جو
تَعَجَّلَ
: جلد چلا گیا
فِيْ
: میں
يَوْمَيْنِ
: دو دن
فَلَآ
: تو نہیں
اِثْمَ
: گناہ
عَلَيْهِ
: اس پر
وَمَنْ
: اور جس
تَاَخَّرَ
: تاخیر کی
فَلَآ
: تو نہیں
اِثْمَ
: گناہ
عَلَيْهِ
: اس پر
لِمَنِ
: لیے۔ جو
اتَّقٰى
: ڈرتا رہا
وَاتَّقُوا
: اور تم ڈرو
اللّٰهَ
: اللہ
وَاعْلَمُوْٓا
: اور جان لو
اَنَّكُمْ
: کہ تم
اِلَيْهِ
: اس کی طرف
تُحْشَرُوْنَ
: جمع کیے جاؤگے
اور (قیام منیٰ کے) دنوں میں (جو) گنتی کے (دن میں) خدا کو یاد کرو۔ اگر کوئی جلدی کرے (اور) دو ہی دن میں (چل دے) تو اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ اور جو بعد تک ٹھہرا رہے اس پر بھی کچھ گناہ نہیں۔ یہ باتیں اس شخص کے لئے ہیں جو (خدا سے) ڈرے اور تم لوگ خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تم سب اس کے پاس جمع کئے جاؤ گے۔
وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْٓ اَ يَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ ۭ فَمَنْ تَعَـجَّلَ فِيْ يَوْمَيْنِ (اور یاد کرتے رہو اللہ کو گنتی کے چند دنوں میں پھر جو جلدی چلا گیا دو ہی دن میں) اولیک فریق ثانی ( جو دین اور دنیا دونوں کی بھلائی کے طالب ہیں) کی طرف اشارہ ہے اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ دونوں فریق مراد ہیں۔ مما کسبوا دعا کو کسب اس لیے فرمایا کہ وہ اعمال میں سے ہے : وا اللہ سریع الحساب ( اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے) حسن فرماتے ہیں کہ جتنی دیر میں آنکھ جھپکتی ہے اس سے بھی جلدی حساب لے لیں گے اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ معنی اس کے یہ ہیں کہ قیامت عنقریب آنے والی ہے اس لیے آخرت کو طلب کرو ایام معدوادت سے ایام تشریق مراد ہیں ان کو معدودات کمی کے سبب سے فرمایا ہے ابن عباس ؓ اور دیگر مفسرین سے اسی طرح منقول ہے اور نیز آیت : فمن تعجل فی یومین بھی اس پر دال ہے۔ فمن تعجل فی یومین یعنی جس نے کوچ کرنے میں جلدی کی اور ایام تشریق کے دوسرے دن چل دیا۔ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ جو شخص دوسرے دن نہ چلا اور ایام تشریق کا تیسرا دن آگیا تو اس دن کی رمی اس پر واجب ہے۔ اس میں اختلاف ہے کہ تشریق کی راتوں میں سے تیسری رات کا اعتبار ہے یا تیسرے دن کا جمہور تو رات کا اعتبار کرتے ہیں اس بنا پر جو شخص منیٰ میں ٹھہرا رہا حتیٰ کہ تیسری رات آگئی تو اس کے لیے کوچ کرنا بغیر رمی جمار کے حلال نہیں اور امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ اس پر رمی ضروری نہیں ہاں اگر منیٰ میں اس کو تیسرے دن کی صبح ہوجائے تو البتہ اس دن کی رمی اس پر واجب ہوگی اور جب تک صبح نہ ہوئی اس کو اجازت ہے کہ رات کو کوچ کرے۔ امام ابوحنیفہ (رح) یہ فرماتے ہیں کہ رمی کا وقت دن ہے تو جو شخص رات کو چل دیا اس کی ایسی مثال ہے جیسے جمعہ کے وقت سے پہلے کسی نے سفر کیا کہ اس پر جمعہ واجب نہیں اور جمہور یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ کنکریاں مارنے کا وقت رات نہیں ہے لیکن ٹھہرنے کا وقت تو ہے اور منی میں شب باشی کرنا رات ہوجانے کے بعد واجب ہے کوچ کرنا حلال نہیں۔ وا اللہ اعلم فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ : تو اس پر کچھ گناہ نہیں ( گناہ اس لیے نہیں ہے کہ اس نے رخصت پر عمل کیا۔ وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَيْهِ ۙ لِمَنِ اتَّقٰى ( اور جو ٹھہرا رہا اس پر بھی کچھ گناہ نہیں یہ ان کے لیے ہے جو پرہیزگاری کریں) یعنی جس نے کوچ میں تاخیر کی اور تیسرے دن رمی کی اس پر بھی کچھ گناہ نہیں اور یہ ادنیٰ اور افضل ہے۔ اس آیت میں اہل جاہلیت کا رَد ہے بعض لوگ تو جلدی چلے جانے والوں کو گنہگار سمجھتے تھے اور بعض تاخیر کرنے والوں پر گناہ کا دھبہ لگاتے تھے لمن اتقیٰ یعنی یہ احکام اس شخص کے لیے ہیں جو پرہیزگاری اختیار کرے کیونکہ وہی ان سے منتفع ہوگا اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ لمن اتقی کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص اپنے حج میں ان اشیا سے بچا جن کو اللہ تعالیٰ نے منع کردیا ہے تو وہ بخشا بخشایا وہاں گیا اس پر کچھ گناہ نہیں خواہ وہ کوچ میں جلدی کرے یا دیر کرے۔ علامہ بغوی نے فرمایا ہے کہ حضرت علی ؓ اور ابن مسعود کا بھی یہی قول ہے اور ایک حدیث مرفوع اس کی مؤید بھی ہے جناب رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ جس نے اللہ کے واسطے حج کیا اور نہ اس میں جماع کیا نہ فسق کیا وہ ایسا ہو کر آیا گویا اس کی ماں نے ابھی اس کو جنا ہے ( بےگناہ) اس حدیث کو ابوہریرہ ؓ ؓ نے روایت کیا ہے نیز ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے کہ حج مبرور ( جس میں کوئی امر خلاف شرع نہ ہوا ہو) کا بدلہ سوائے جنت کے اور کچھ نہیں اور ابن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ حج اور عمرہ دونوں فقر اور گناہوں کو ایسا دور کردیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے کے میل کو اس حدیث کو امام شافعی اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور حضرت عمر ؓ سے بھی امام احمد نے اسی مضمون کی حدیث روایت کی ہے۔ جاننا چاہئے کہ ایام تشریق میں منی میں ٹھہرنا اور راتوں کو رہنا اور رمی یہ سب بالاتفاق رکن نہیں ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فاذا قضیتم مناسکم فاذکروا اللہ [ الایۃ ] اس آیت میں مناسک کے ادا کرلینے پر منیٰ میں ذکر کرنے کو مرتب فرمایا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ بعد کے سب افعال داخل مناسک نہیں ہیں رہا وجوب سو اس میں اختلاف ہے امام احمد (رح) تو فرماتے ہیں کہ رات کو رہنا اور رمی کرنا دونوں واجب ہیں اور امام مالک (رح) کہتے ہیں کہ ٹھہرنا واجب اور رمی سنت مؤکدہ اور امام ابوحنیفہ (رح) بالعکس فرماتے ہیں یعنی رمی واجب اور ٹھہرنا سنت اور امام شافعی (رح) اللہ کے دو قول ہیں ایک قول تو امام احمد کے موافق ہے اور دوسرا امام ابوحنیفہ (رح) کے موافق ہے اور بعض بعض علماء نے فرمایا ہے کہ رمی تو تکبیر کی حفاظت کے لیے مشروع ہوئی ہے پس اگر رمی ترک کردی اور تکبیر کہہ لی تو کافی ہے اس مذہب کو ابن جریر نے حضرت عائشہ ؓ اور دیگر صحابہ ؓ سے نقل کیا ہے اور ظاہر آیت کے بھی یہ موافق ہے لیکن اجماع کے خلاف ہے۔ امام احمد آیت کریمہ : واذکرو اللہ فی ایام [ الایۃ ] سے استدلال کرتے ہیں کہ یہ آیت رمی اوراقامۃ دونوں کے واجب کرنے کا احتمال رکھتی ہے۔ گویا مجمل ہے جناب رسول ﷺ اللہ نے اپنے فعل سے دونوں کا وجوب صاف ظاہر فرما دیا اور اپنے اتباع کا حکم فرمایا کہ مجھ سے اپنے حج کے طریقے سیکھ لو اور امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ مقصود ٹھہرنے اور رات گذارنے سے رمی ہے خود رات کا گذارنا مطلوب نہیں اور دلیل اس کی یہ ہے کہ امام بخاری نے روایت کیا ہے کہ ابن مسعود ؓ نے بطن وادی سے رمی کی لوگوں نے ان سے کہا کہ اور لوگ تو اوپر کی طرف سے رمی کرتے ہیں ابن مسعود ؓ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں جس مقام سے میں نے رمی کی ہے یہی مقام اس ذات پاک کا ہے جس پر سورة بقرہ نازل ہوئی ہے۔ ( یعنی جناب رسول ﷺ اللہ ) پس ابن مسعود کا یہ قول اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ یہ آیت رمی کے ہی بارے میں نازل ہوئی ہے دوسری دلیل امام صاحب کی یہ ہے کہ عاصم بن عدی ؓ فرماتے ہیں کہ جناب رسول ﷺ اللہ نے منیٰ میں اونٹ کے چرواہوں کو رات سے چل دینے کا حکم فرمایا اور فرمایا کہ یوم نحر کی رمی کرلو۔ اسکے بعد گیارہویں تاریخ اور بارہویں کو اور پھر کوچ کے دن رمی کرو اور نسائی میں اس طرح ہے کہ چرواہوں کو حضور ﷺ نے رات سے چلنے کی اجازت عطا فرمائی اور فرمایا کہ یوم النحر میں رمی کرلیں اور دو دن بعد کی رمی بھی اسی دن کرلیں ایک دن میں تینوں دن کی رمی جمع کرلیں امام مالک (رح) فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی تفسیر یہ ہے کہ یوم النحر میں رمی کریں پھر جب یوم النحر سے اگلا روز گذر جائے تو بارہویں تاریخ کو اوّل گیارہویں کی رمی کی قضا کریں پھر بارہویں کی رمی کریں۔ وجہ استدلال اس حدیث سے یہ ہے کہ دیکھو رسول ﷺ اللہ نے رمی کی قضا کو واجب فرمایا اقامت کی قضا کو لازم نہیں فرمایا پس معلوم ہوا کہ رمی مقصود ہے اور وہاں کا ٹھہرنا اور رات گذارنا تبعاً واجب ہے۔ امام احمد جواب دیتے ہیں کہ چرواہوں کو ضرورت کے لیے اجازت دے دینا اس امر کو نہیں چاہتا کہ وہاں ٹھہرنا واجب نہ ہو بلکہ رخصت اور اجازت تو ایسے ہی امر کی ہوا کرتی ہے جو واجب ہو اور امام مالک کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر اور ابن عمر ؓ ان ایام میں نمازوں کے بعد مجالس میں بچھونے پر جا کر اور خیموں میں اور راہ میں غرض ہر حال میں تکبیر کہتے تھے اور لوگ بھی انکی تکبیر سن کر تکبیر کہتے تھے اور اسی آیت سے استدلال کرتے تھے وجہ استدلال کی یہ ہے کہ ایام تشریق میں مطلقاً کسی جگہ ذکر بالاتفاق واجب نہیں صرف منیٰ میں واجب ہے اور یہ آیت کریمہ : فمن تعجل الخ اس پر دال ہے اور یہ ظاہر ہے کہ یہ نیت عبادت وثواب وہاں رہنا ذکر ہے اور ذکر لسانی اگر ہو تو اور بھی اولیٰ و افضل ہے پس معلوم ہوا کہ اس آیت کا محمل اور مصداق منیٰ میں قیام کرنا ہے رمی نہیں ہے ہم کہتے ہیں کہ تم نے جو کچھ بیان کیا ہے یہ اس کے کچھ منافی نہیں کہ مجمل آیت رمی اوراقامۃ دونوں ہوں ‘ وا اللہ اعلم۔ جاننا چاہئے کہ حدیث نے اس آیت کا اجمال اس طرح واضح کیا ہے کہ یوم النحر میں صرف جمرہ عقبہ کی رمی سات کنکریوں سے واجب ہے اور امام ابوحنیفہ (رح) ومالک (رح) کے نزدیک اس رمی کا وقت یوم النحر کی طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے اور امام احمد (رح) و شافعی (رح) کے نزدیک دسویں شب کی نصف کے بعد سے ہے اور مجاہد ؓ کے نزدیک یوم النحر کی طلوع آفتاب سے اس کا وقت ہے۔ مجاہد کی دلیل ابن عباس ؓ کی یہ حدیث ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے اپنے اہل میں ضعفاء کو آگے بھیج دیا اور یہ فرمایا کہ آفتاب نکلنے تک تم رمی نہ کرنا اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے اور صحیح کہا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ استحباب پر محمول ہے اور طلوع آفتاب سے پہلے صبح صادق کے بعد بھی رمی جائز ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ طحاوی نے خود اپنی سندوں سے ابن عباس ؓ سے نقل کیا ہے کہ رسول ﷺ اللہ نے ابن عباس کو اور دوسرے ضعفا کو آگے بھیج دیا اور فرمایا کہ جمرہ کی صبح تک رمی نہ کرنا اور یہی حدیث اس امر کی بھی دلیل ہے کہ قبل از صبح رمی جائز نہیں۔ امام شافعی و احمد (رح) فرماتے ہیں کہ قبل از صبح جائز ہے کیونکہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جناب رسول ﷺ اللہ نے ام سلمہ کو دسویں شب کو بھیج دیا انہوں نے قبل از فجر جمرہ کی رمی کی پھر آگے چل کر طواف افاضہ کیا اس حدیث کو دار قطنی نے روایت کیا ہے ہم کہتے ہیں یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں ضحاک بن عثمان راوی ہے اور قطان نے اس کو ( لین) ضعیف کہا ہے دوسرا جواب یہ ہے کہ معنی اس کے یہ ہیں کہ نماز فجر سے پہلے رمی کی، طلوع فجر سے پہلے نہیں کی اس تقدیر پر یہ خود ہماری دلیل مجاہد (رح) کے خلاف ہوجائے گی۔ رمی کا آخری وقت امام ابو یوسف (رح) کے نزدیک زوال تک ہے کیونکہ جناب رسول ﷺ اللہ نے اس جمرہ کی رمی یوم نحر کو چاشت کے وقت کی ہے اور جمہور کے نزدیک آخر وقت غروب تک ہے کیونکہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ یوم نحر میں جناب رسول ﷺ اللہ سے لوگ مختلف سوال کرتے تھے آپ فرماتے تھے کچھ حرج نہیں چناچہ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ میں نے ذبح سے پہلے سر منڈا لیا فرمایا کچھ حرج نہیں اب ذبح کرلے ایک نے پوچھا کہ میں نے عشا کے بعد رمی کی ہے فرمایا کچھ ڈر نہیں، اس حدیث کو بخاری اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے اور عشاء کے بعد کا مطلب یہ ہے کہ بعد زوال کے رمی کی ہے کیونکہ عشاء کا اطلاق اس وقت پر ہے جو بعد زوال کے ہے غروب کے بعد مراد نہیں کیونکہ یوم نحر غروب سے پہلے پہلے کہلاتا ہے چناچہ اس حدیث کی بعض طرق میں صریح مذکور ہے کہ یہ سوال سائل نے ظہر کے وقت کیا تھا اور اس رمی کا آخر وقت گیارہویں تاریخ کے طلوع فجر تک ہے کیونکہ رسول اللہ نے چرواہوں کو رات کے وقت رمی کرنے کی اجازت عطا فرمائی تھی اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے اس اجازت عطا فرمانے سے معلوم ہوتا ہے کہ معذور کو تو بلا کراہت رات کو رمی جائز ہے اور غیر معذور کو بہ کراہت جائز ہے اور ایام تشریق یعنی گیارہویں بارہویں تیرہویں کو تینوں جمروں کی رمی کرنا چاہئے ہر جمرہ کی رمی سات کنکریوں سے کرے۔ اس رمی کا اوّل وقت پہلے دن تو صبح سے ہے اور دوسرے دن بعد زوال کے ہے کیونکہ جابر ؓ کی حدیث میں ہے کہ پھر جناب رسول ﷺ اللہ نے دن ڈھلے تک رمی نہیں فرمائی اور آخر وقت ہر دن میں بلاکراہت غروب تک رمی کا وقت ہے اور معذور کے واسطے اگلے دن کی صبح صادق تک ہے اور غیر معذور کے واسطے صبح تک تاخیر کرنا مکروہ ہے دلیل اس کی وہی چرواہوں کی اجازت عطا فرمانے کی حدیث ہے۔ اسی طرح تیسرے دن یعنی تیرھویں تاریخ بھی بعد زوال کے اوّل وقت ہے اور آخر وقت غروب تک ہے اور یہی امام ابو یوسف اور محمد کا مسلک ہے صرف اوّل دو دنوں اور اس تیسرے دن میں اس قدر فرق ہے کہ اس تیسرے دن میں بعد غروب کے رمی بالاتفاق جائز نہیں کیونکہ وہ رات ایام تشریق کی نہیں اور رمی ایام تشریق ہی میں ہوتی ہے اور امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ تیرہویں تاریخ کو زوال سے پہلے بھی رمی جائز ہے لیکن مجھے اب تک اس قول کی دلیل صحیح معلوم نہیں ہوئی۔ ابن ہمام نے اس کی دلیل یہ بیان کی ہے کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا ہے کہ یوم نفر ( تیرہویں تاریخ) کو جب دن بلند ہو تو رمی اور طواف صدر کا وقت آگیا اس حدیث کو بیہقی نے روایت کیا ہے لیکن اس کی سند میں طلحہ بن عمر راوی ہے بیہقی اور ابن معین اور دارقطنی نے اس کو ضعیف کہا ہے اور امام احمد اس کو متروک الحدیث کے لقب سے یاد کرتے ہیں اس میں بھی اختلاف ہے کہ آیا ایام تشریق میں رمی جمار کے اندر ترتیب واجب ہے یا نہیں۔ جمہور کے نزدیک تو ترتیب واجب ہے ( یعنی اوّل پہلے جمرہ کی رمی کرے پھر دوسرے کی پھر تیسرے کی) اور امام ابوحنیفہ (رح) فرماتے ہیں کہ ترتیب سنت ہے جمہور کی دلیل تو یہ ہے کہ رائے سے کوئی امر تعبدی ثابت نہیں ہوتا اس لیے جس طریق وہیئت سے احادیث میں وارد ہے وہ طریق و ہیئت واجب ہے اور ترتیب کا فوت ہونا کسی جگہ نہیں آیا اس لیے ترتیب واجب ہے اور امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ اگر تینوں جمروں کی رمی ایک نسک ہوتی تو بیشک تمام خصوصیات کی رعایت ضروری تھی لیکن یہ امر ثابت ہے کہ ہر جمرہ کی رمی علیحدہ مستقل نسک ہے اس لیے ہر جمرہ کی رمی میں تو تمام خصوصیات واردہ کی رعایت لازم ہے اور تمام جمروں کی رمی میں جو کہ مختلف علیحدہ علیحدہ نسک ہیں ‘ واجب نہیں جیسا کہ رمی اور ذبح اور حلق میں ترتیب شرط نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ امام صاحب کے قول کے موافق تو قیاس سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ یہ ترتیب اگرچہ شرط نہیں ہے لیکن پھر بھی واجب ہے اس کے ترک پر قربانی واجب ہونا چاہئے جیسے کہ اگر رمی اور ذبح اور حلق میں ترتیب فوت ہوتی ہے تو قربانی واجب ہوتی ہے اسی طرح یہاں بھی قربانی واجب ہونا ضروری ہے اب تک مجھ کو ان دونوں مسئلوں میں فرق صاف سمجھ نہیں آیا۔ وا اللہ اعلم وَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّكُمْ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ ( اور ڈرتے رہو خدا سے اور جانتے رہو کہ تم اس کے پاس جمع ہو گے) مطلب یہ ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور جانے رہو کہ تم سب اسی کے پاس جمع ہوگے پھر وہ تم کو تمہارے اعمال اور اخلاص کے موافق بدلہ دیں گے فقط وا اللہ اعلم۔ علامہ بغوی (رح) نے بروایت کلبی و مقاتل و عطا فرمایا ہے کہ اخنس بن شریف بنی زہرہ کا حلیف تھا اخنس اس کو اس لیے کہتے تھے کہ خنس لغت میں الگ ہوجانے کو کہتے ہیں چونکہ اخنس بھی بدر کے تین سو اشخاص کو لے کر جناب رسول اللہ کی معیت سے ہٹ گیا تھا اس لیے اس کا نام اخنس ہوگیا یہ شخص بہت شیریں کلام خوبصورت ملیح تھا جناب رسول اللہ کی خدمت میں آتا بیٹھتا اور باتیں بناتا تھا اور قسمیں کھا کھا کر کہتا تھا کہ مجھے آپ ﷺ سے محبت ہے اور حضور ﷺ بھی اسے ملاطفت فرماتے تھے واقع میں وہ منافق تھا اور اس کے بارے میں حق تعالیٰ نے ذیل کی آیت کریمہ نازل فرمائی۔
Top