Maarif-ul-Quran - Al-Maaida : 90
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ١ۙ اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَهَ عَلَیْنَا١ؕ وَ اِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا ادْعُ : دعا کریں لَنَا : ہمارے لیے رَبَّکَ : اپنا رب يُبَيِّنْ : وہ بتلادے لَنَا : ہمیں مَا هِيَ : وہ کیسی اِنَّ : کیونکہ الْبَقَرَ : گائے تَشَابَهَ : اشتباہ ہوگیا عَلَيْنَا : ہم پر وَاِنَّا : اور بیشک ہم اِنْ : اگر شَآءَ : چاہا اللّٰہُ : اللہ لَمُهْتَدُوْنَ : ضرور ہدایت پالیں گے
اے ایمان والو ! شراب اور جوا اور بت اور پا سے (یہ سب) ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں۔ سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ۔
حکم ہفدہم تحریم خمروقمار۔ قال اللہ تعالی، یا ایھا الذین آمنوا انماالخمر۔۔۔۔ الی۔۔۔ المحسنین۔ ربط) ۔ اوپر کی آیتوں میں حلال کو حرام سمجھنے کی ممانعت تھی اب اس آیت میں یہ بیان فرماتے ہیں کہ جیسے حلال کی حرام سمجھنا گناہ ہے ایسے ہی حرام کو حلال سمجھنا بھی گناہ اور حرام ہے جیسے شراب اور جوا وغیرہ وغیرہ، اہل عرب شراب اور جوے کو حلال اور طیب سمجھتے تھے اللہ نے یہ بتلا دیا کہ یہ چیزیں حلال اور طیب نہیں بلکہ خبیث اور جس میں ان سے اجتناب ضروری ہے اور انکا استعمال حرام ہے چناچہ فرماتے ہیں اے ایمان والو ایمان کا مقتضی یہ ہے کہ جس چیز کو اللہ نے حرام کردیا اس کے قریب نہ جاؤ جزایں نیست کہ شراب اور جو ابتوں کے تھان انصاب ان پتھروں کو کہتے ہیں جن کو مشرک لوگ کسی دیوی یا دیوتا کے نام پر کھڑا کردیتے تھے اور ان کو پوجتے تھے اور وہاں قربانیاں کیا کرتے تھے انصاب اور اصنام میں یہ فرق ہے کہ انصاب بےمورت والے پتھر ہوتے تھے اور اصنام موت والے یعنی انصاب ان گھڑت پتھروں کو کو ہتے ہیں جن کو زمانہ جاہلیت میں پوجتے تھے اور اصنام تراشی ہوتی مورتوں کو کہتے ہیں اور فال کے تیر جاہلیت میں دو قسم کے ازلام تھے ایک قسم کے ساتھ عرب جوا کھیلا کرتے تھے اور دوسری قسم سے فال لیا کرتے تھے یہ سب چیزیں گندی اور پلید اور قابل نفرت ہیں، شیطانی کام ہیں پس تم ان ناپاک اور شیطانی کاموں سے بچتے رہو تاکہ تم فلاح پاؤ ناپاک اور شیطانی کاموں سے بچنے ہی سے فلاح ہوسکتی ہے شراب انسان کی عقل جیسی بےمثال نعمت کو ضائع کرتی ہے اور عقل ہی وہ چیز ہے جو برے اور بھلے میں تمیز کرتی ہے اور انسان کو ناجائز خواہشوں سے روکتی ہے جب عقل ہی نہ رہے گی تو برے کاموں سے کیونکر بچے گا اور جوا مال کو ضائع اور برباد کردیتا ہے اور معبودان باطل کے تھانوں اور تیروں کی تعظیم اور ان کی پرستش انسان کی عزت کو برباد کردیتی ہے اور ایک ادنی اور حقیر چیز کے سانے سرجھکانے سے انسان ذلیل اور خوار ہوجاتا ہے اور تیروں سے فال کے کر کام کرنا یہ سراسر جہالت اور وہم پرستی ہے جو علم کو ضائع کردیتی ہے یہ سب برے کام شیطان کے اغوا سے کچھ لوگ ان کاموں کو اچھا سمجھتے ہیں شیطان تو بس یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوے سے تمہارے درمیان عداوت اور نفرت ڈالوا دے شراب سے باہم عداوت نفرت کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ شرابی جب شراب پی کر مست ہوجاتا ہے اور ان کی عقل زائل ہوجاتی ہے تو بسا اوقات ان کی زبان سے ایک دوسرے کی نسبت بےہودہ الفاظ نکلتے ہیں جو باہمی نزاع کا سبب بنتے ہیں اور بسا اوقات ضرب اور قتل تک نوبت پہنچتی ہے اور اس طرح ان کے دلوں میں ایک دوسرے کی عداوت بیٹھ جاتی ہے۔ اور جوئے سے باہم عداوت یوں پیدا ہوتی ہے کہ بعض وقت آدمی جوئے میں اپنے کل مال سے ہار جاتا ہے اور وہ بالکل مفلس اور بےدست وپارہ جاتا ہے پھر جب وہ اپنا مال دوسرے کے پاس دیکھتا ہے تو اس کو اس کے ساتھ عداوت ہوجاتی ہے غرض یہ کہ شراب اور جوا عداوت اور نفرت کے قوی ترین اسباب میں سے ہیں یہ تو شراب اور جوئے کی دنیوی مضرت ہوئی اور اخروی مضرت یہ ہے کہ شیطان یہ چاہتا ہے کہ تم کو اللہ کی یاد سے نماز سے روک دے یعنی شیطان کا مقصود تم کو شراب اور جوئے میں پھنسا کر دیاد الٰہی اور نماز کا ہوش ہی نہ رہے اور اس کی دلیل مشاہدہ اور تجربہ سے ہے شطرنج کھیلنے والوں کو دیکھ لو نماز کا تو کیا کھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا پس جب تم پر شراب اور جوئے کی دنیوی اور اخروی مضرتیں واضح ہوگئی سوبتلاؤ کیا اب بھی ان گندی چیزوں سے باز آؤگے جو تمہاری دنیا اور آخرت کی خرابی کا ذریعہ ہیں یعنی اب عقل کا مقتضی یہ ہے کہ ان گندی اور ناپاک چیزوں سے باز آجاؤ جو تم کو مولائے برحق کو یاد سے روکتی ہیں عرب میں شراب غایت درجہ مرغوب تھی اس لیے اللہ نے اس کو تدریجا حرام فرمایا اول یہ آیت نازل ہوئی، یسئلونک عن الخمر والمیسر،۔۔ الی۔۔ للناس۔ آیت۔ جس میں صراحت کے ساتھ ممانعت نہ تھی اس لیے بعض نے شراب پی اور بعض نے اس کو ترک کردیا اس کے بعد دوسری آیت نازل ہوئی جو پہلی آیت سے زیادہ سخت تھی وہ آیت یہ تھی یا ایھا الذین آمنو لاتقربوالصلوۃ۔۔۔ الی۔۔ تقولون۔ آیت۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ نے بوقت صلوۃ شراب کا استعمال ترک کردیا حضرت عمر کو جب پہلی آیت سنائی گئی تو یہ کہا اللھم بین لنا فی الخمر بیانا شافیا۔ اے اللہ شراب کے بارے میں کوئی شافی اور واضح حکم نازل فرما پھر جب دوسری آیت نازل ہوئی اور عمر کے سامنے پڑھی گئی تو عمر نے پھر وہی کہا کہ، سب سے اخیر میں سورة مائدہ کی یہ آیت نازل ہوئی، یا ایھالذین آمنو۔۔۔ الی۔۔۔ والمیسر۔ آیت۔ نازل ہوئی اور نبی نے حضرت عمر کو پڑھ کر سنائی جب آپ اس لفظ یعنی فھل انتم منتہون۔ پر پہنچتے تو حضرت عمر نے کہا انتھینا انتھینا یعنی ہم باز آگئے ہم باز آئے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد تمام صحابہ شراب سے باز آگئے اور یہ حکم سنتے ہی لوگوں نے شراب کے مٹکے توڑ دیے حتی کہ شراب مدینہ کی گلیوں اور نالیوں میں گندے پانی کی طرح بہنے لگی اور مدینہ منورہ اور تمام بلاد اسلام اس ام الخبائث سے یک لخت پاک ہوگئے۔ لطائف ومعارف۔ (1) ۔ شروع آیت میں اللہ نے چار چیزوں کا ذکر کیا اور اس آخری آیت میں صرف شراب اور جوئے کا ذکر کیا کیونکہ اصل مقصود انہی دوچیزوں کی حرمت بیان کرنا تھی باقی شروع آیت میں شراب اور جوئے کے ساتھ بت پرستی اور فال کے تیروں کا ذکر اس لیے کیا کہ مسلمانوں کے دلوں میں شراب اور جوئے کی برائی خوب راسخ ہوجائے کہ شراب خواری بمنزلہ بت پرستی کے ہے۔ (2) ۔ خمر ماخوذ ہے، خمر الشئی بمعنی سترہ وغطاہ۔ سے جس کے معنی ہیں اس نے اس کو ڈھانک لیا شراب بھی چونکہ عقل کو ڈھانک لیتی ہے اور اس پر پردہ ڈال دیتی ہے اس لیے عربی میں اس کو خمرکہتے ہیں۔ اور میسر قمار (جوئے) کو کہتے ہیں جو یسر بمعنی سہولت سے ماخوذ ہے چونکہ جوئے میں مال آسانی سے مل جاتا ہے اور محنت اور مشقت نہیں اٹھانی پڑتی اس لیے اس کو میسر کہتے ہیں ان دونوں چیزوں میں اگرچہ کچھ نہ کچھ فوائد اور منافع ہیں لیکن مفاسد اور مضرتیں بہت زیادہ ہیں اس لیے شریعت اسلامیہ نے ان دونوں چیزوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرام قرار دیا اور دنیا کے لیے روحانی اور اخلاقی اور مادی اور جسمانی مضرتوں سے حفاظت کا سامان مکمل کردیا۔ (3) ۔ خمر کی سب سے بڑی مضرت یہ ہے کہ مے خوار کی عقل نشہ کی حالت میں بالکل جاتی رہتی ہے اور آہستہ آہستہ کم ہوتی جاتی ہے یہاں تک کہ چند روز بعد ہوش و حواس کی حالت میں بھی اس سے دیوانہ وار حرکتیں سرزد ہونے لگتیں ہیں۔ اس کی زبان اس کے اختیار اور قابو سے باہر ہوجاتی ہے اور اس کو اپنے اقوال وافعال کے عواقت اور انجام کا ہوش نہیں رہتا۔ دوسرے یہ کہ شراب بہیمی خواہشوں کو بڑھاتی ہے اور بسا اوقات اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ عصت وعفت کو جڑا (بنیاد) سے اکھاڑ کر پھینکتی ہے یا کم ازکم متزلزل کردیتی ہے اور زنا اور بدکاری اور بےحیائی پر آمادہ کرتی ہے۔ تیسرے یہ کہ آدمی عبادت اور ذکر الٰہی سے غاف ہوجاتا ہے بلکہ فرائض زندگی کی بھی کوئی قدروقیمت اس کی نگاہ میں نہیں رہتی۔ چوتھے یہ کہ شراب مال و دولت کی بربادی کا ذریعہ ہے شرابی کی دولت و ثروت سب شراب کی نذر ہوجاتی ہے اور بسا اوقات اس قدرت تنگ آجاتا ہے کہ زندگی سے تنگ آکر خودکشی کرلیتا ہے، پانچواں یہ کہ شراب خوری باہم دشمنی اور عداوت پیدا کرتی ہے اور باہمی تعلقات کو توڑ ڈالتی ہے چھٹے یہ کہ شرابی کا مزاج اعتدال سے منحرف ہوجاتا ہے اور صحت بدنی میں فرق آجاتا ہے اور اس کی تمام جسمانی قوتیں کمزور پڑجاتی ہیں اس لیے کہ شراب میں غذائیت نہیں ہے کہ وہ ہضم ہوسکے شراب چونکہ معدہ میں جا کر تحلیل نہیں ہوتی اس لیے دن بدن معدہ کو کمزور کرتی جاتی ہے اور قے کا مرض لگ جاتا ہے اور قلت غذا کی وجہ سے بدن میں اتنا خون نہیں پیدا ہوتا کہ جو تقویت بدن کا باعث بن سکے۔ اور جس قدر خون پیدا ہوتا ہے اس میں شراب کی سمت موجود ہوتی ہے جو بدن کروز بروز گھلاتی رہتیہ ہے اور دن بدن نظام عصبی میں فرق آجاتا ہے عضلات اور عروق بھی بگڑتے جاتے ہیں پھیپھڑا گلنے لگ جاتا ہے اور کھانسی اور سل شروع ہوجاتی ہے اکثر اطباء کا بیان ہے کہ اگرچہ سل کی بیماری بغیر شراب پینے کے بھی ہوجاتی ہے لیکن 95 فی صد مریض سل کے شرابی ہی ہوتے ہیں اور شاذ وناذ ہی بچتے ہیں۔ ساتویں یہ کہ شرابی قوی کے ضعیف ہوجانے کی وجہ سے اکثر کام سے جی چرانے لگتا ہے بغیر نشہ کے کام نہیں کرسکتا کام کرنے کے لیے بھی اسے شراب پینی پڑتی ہے یہاں تک کہ اس کے قوی بالکل جواب دے جاتے ہیں اسلیے قرآن پاک نے شراب کو نجس اور عمل شیطان اور حرام قرار دیا ہے اور اس کے پینے والے پر حد مقرر کی یورپ کی متمدن قوموں پر شراب خوری کے مفاسد خوب واضح ہوچکے ہیں اور شراب کی وجہ سے نظام تمدن کی خرابیاں ان کی نظروں کے سامنے ہیں اور اس کے معترف ہیں کہ یہ چیز حرام ہونے کے قابل ہے مگر قانونا اس کو جرم نہیں قرار دیا اسلامی تعلیم جہاں پہنچی اس نے شراب اور شراب خوری کا قلع قمع کردیا اور پورے ملک کو اس لعنت سے محفوظ کردیا۔ (4) ۔ اور اسی طرح میسر یعنی قمار کو سمجھو کہ وہ بھی حرام اور باطل ہے قمار لوگوں کے مال چھین لینے اور اچک لینے کا ایک خاص طریقہ ہے جو وہمی حرص اور طمع اور آرزو پر مبنی ہے جوئے میں مال چونکہ بےمشقت مل جاتا ہے اس لیے جواری عموما کاہل اور آرام طلب اور فکر معاش سے غافل ہوتے ہیں اور وہمی اور خیالی منصوبوں میں پڑجاتے ہیں ہار جیت کے چکر میں رہتے ہیں اور قرض لیتے رہتے ہیں اور جب قرض نہیں ملتا تو چوری اور چکاری اور لوٹ کھسوٹ پر کمر باندھ لیتے ہیں علاوہ ازیں قمار باہمی بغض وعناد پیدا کرتا ہے اس لیے کہ ہارنے والوں کو ہار کر غیظ وغضب آتا ہے اور کینہ اور انتقام پر آمادہ کرتا ہے اور چونکہ ہار جیت کسی خاص نہیں رہتی اس لیے جواری ایک دوسرے کے دشمن بن جاتے ہیں اور ذرا بھی ان کو دوسرے پر رحم نہیں آتا اور مال کے ساتھ ان کے جان کے بھی لاگو ہوجاتے ہیں اور خون ناحق کے مرتکب ہوجاتے ہیں پھر یہ کہ جس جواری کو بھی دیکھیے وہ کنگال ہی نظر آئے گا جو اریوں کاروپیہ ہر وقت گھومتا رہتا ہے اور جواری جوئے کے چکر میں ھنس کر ایسا اندھا ہوجاتے ہیں کہ اس جوئے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا اور نہ وہ دین کا رہتا ہے اور نہ دنیا کا نہ طاعت و عبادت کا اور نہ زن و فرزند اور عزیز اور قرباء کا اس کی ساری دنیا قمار خانہ ہوتی ہے غرض یہ کہ شراب کی طرح جوا بھی دشمن عقل اور دشمن مال اور دشمن اخلاق ہے جو اریوں کو طرح طرح کے جرائم پر آمادہ کرتا ہے اور نظام تمدن کا مخرب ہے ان مفاسد کی بناء پر اللہ نے اپنی رحمت سے اس ناپاک اور پلید چیز کو اپنے بندوں پر حرام فرمادیا تاکہ فلاح کو پہنچیں۔ حکم بامتثال جمع احکام گذشتہ آیت میں ایک خاص حکم کے امتثال کا حکم تھا اب اس آیت میں تمام احکام میں اطاعت کا حکم دیتے ہیں چناچہ فرماتے ہیں اور اے ایمان والو تم تمام احکام میں اللہ اور رسول اللہ کی اطاعت کرتے رہو اور اللہ اور رسول کی نافرمانی سے ڈرتے رہو لہذا شراب اور جوئے سے بھی بچتے رہو پس اگر تم اطاعت سے اعراض کرو گے تو ہمارا ہمارے رسول کا کچھ نقصان نہ کرو گے اپنا ہی نقصان ہی کرو پس خوب جان لو کہ ہمارے رسول کے ذمہ صرف حکم کا واضح طور پر پہنچا دینا ہے نہ کہ تم کو مجبور کرنا سو وہ پہنچا چکے اس پر بھی نہ مانو تو تم جانو۔ عدم تاثیم براستعمال خمرومیسر قبل از تحریم۔ جب شراب کی حرمت کا حکم نازل ہوا تو صحابہ نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ یارسول اللہ ہمارے جو بھائی تحریم سے پہلے شراب پیتے ت ہے اور جوئے کا مال کھاتے رہے اور مرگئے ان کا کیا حال ہوگا اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ جن لوگوں نے تحریم سے پہلے شراب پی یا جوا کھیلا ان پر کوئی گناہ نہیں جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے ان پر کوئی گناہ نہیں اس چیز میں کہ جو وہ حرام ہونے سے پہلے کھاچکے ہیں یعنی حرام ہونے سے پہلے شراب اور جوئے کا مال کھاچکے ہیں اس پر کوئی گناہ اور مواخذہ نہیں بشرطیکہ وہ خدا سے ڈرتے رہے اور ان چیزوں کے استعمال سے بچتے رہے جو اس وقت حرام تھیں اور خدا پر ایمان لائے اور نیک عمل کیے یعنی اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اللہ کو اختیار ہے کہ جس چیز کو جس وقت چاہے حلال کردے اور جس وقت چاہے حرام کردے پھر ان لوگوں نے مدارج تقوی اور ایمان میں ترقی کی اور ان چیزوں سے پرہیز کیا کہ جو بعد میں حرام کی گئیں ان کی حرمت پر ایمان لائے خدا کے بندے ہیں جو حکم آتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں پھر تقوی اور ایمان میں اور ترقی کی اور غایت درجہ کے پرہیزگار اور نیکو کار بن گئے کہ شبہات سے بھی تورع اور احتیاط برتی یعنی مدارج تقوی اور ایمان میں ترقی کرتے کرتے مرتبہ احسان تک جاپہنچے جو مرد مومن کے لیے ترقی کا آخری مقام ہے جیسے کہ حدیث جبرائیل میں ہے، الاحسان ان تعبد اللہ کانک تراہ۔ اور مرتبہ احسان روحانی ترقیات کا آخری مقام اس لیے ہے کہ اللہ محسین کو اپنا محبوب بنالیتا ہے اور ظاہر ہے کہ محبوبیت خداوندی روحانی ترقی کا آخری مقام ہے۔ فائدہ۔ ایمان اور تقوی کے تکرار اور لفظ ثم کے باربار لانے سے اشارہ ہے کہ ایمان اور تقوی میں مراتب اور درجات ہیں آخری مرتبہ مقام احسان ہے جہاں بندہ پہنچ کر خدا تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے۔ ہمینت بس کہ داند ماھرویم۔۔۔۔ کہ من نیز از خریداران اویم۔
Top