Tafseer-e-Saadi - An-Nisaa : 167
اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ صَدُّوْا عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ قَدْ ضَلُّوْا ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو كَفَرُوْا : انہوں نے کفر کیا وَصَدُّوْا : اور انہوں نے روکا عَنْ : سے سَبِيْلِ اللّٰهِ : اللہ کا راستہ قَدْ ضَلُّوْا : تحقیق وہ گمراہی میں پڑے ضَلٰلًۢا : گمراہی بَعِيْدًا : دور
جن لوگوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) خدا کے راستے سے روکا وہ راستے سے بھٹک کر دور جا پڑے۔
آیت 167 اللہ تبارک و تعالیٰ نے انبیاء و رسل صلوات اللہ وسلامہ علیہم کی رسالت اور خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ کی رسالت کے بارے میں خبر دی ہے۔ اس رسالت پر خود بھی گواہی دی اور اس کے فرشتوں نے بھی گواہی دی اور اس سے مشہور بہ اور امر متحقق کا ثابت ہونا لازم آتا ہے۔ پس اس طرح انبیاء کی تصدیق، ان پر ایمان لانا اور ان کی اتباع کرنا واجب ہے، پھر جن لوگوں نے انبیائے کرام کا انکار کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو وعید سناتے ہوئے فرمایا : (آیت) ” جن لوگوں نے کفر کیا اور (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے روکا۔ “ یعنی انہوں نے خود اپنے کفر کرنے کو اور لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کو جمع کردیا۔ یہ لوگ ائمہ کفر اور گمراہی کے داعی ہیں۔ (قد ضلوا ضلاً بعیدا) ” وہ راستے سے بھٹک کر دور جا پڑے۔ “ جو شخص خود بھی گمراہ ہو اور اس نے دوسروں کو بھی گمراہ کردیا ہو اس سے بڑی گمراہی اور کیا ہوسکتی ہے۔ اس نے دو گناہ سمیٹے اور وہ دو خسارے لے کر لوٹا اور دو ہدایتوں سے محروم ہوگیا۔ بنا بریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا : (ان الذین کفروا وظلموا) ” جو لوگ کافر ہوئے اور ظلم کرتے رہے۔ “ اور یہ ظلم ان کے کفر پر اضافہ ہے ورنہ جب ظلم کا اطلاق کیا جاتا ہے تو کفر اس کے اندر شامل ہوتا ہے۔ یہاں ظلم سے مراد اعمال کفر اور اس کے اندر اشتغراق ہے۔ پس یہ لوگ مغفرت اور صراط مستقیم کی طرف راہنمائی سے بہت دور ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (آیت) ” اللہ ان کو بخشنے والا نہیں اور نہ انہیں راستہ ہی دکھائے گا، ہاں دوزخ کا راستہ۔ “ ان کے لئے مغفرت اور ہدایت کی نفی محض اس وجہ سے ہے کہ وہ اپنی سرکشی پر قائم اور اپنے کفر میں بڑھتے جا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی اور ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ان پر ہدایت کی راہ مسدود ہوگئی۔ (وما ربک بظلامہ للعبید) حم السجدہ :63/13) ” تیرا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔ “ (وکان ذلک علی اللہ یسیراً ) ” اور یہ بات اللہ کو آسان ہے۔ “ یعنی اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی پروا نہیں کیونکہ وہ بھلائی کی صلاحیت نہیں رکھتے اور وہ اسی حال کے لائق ہیں جس کو انہوں نے اپنے لئے منتخب کیا۔
Top