Maarif-ul-Quran (En) - Al-Maaida : 46
قَالُوا ادْعُ لَنَا رَبَّكَ یُبَیِّنْ لَّنَا مَا هِیَ١ۙ اِنَّ الْبَقَرَ تَشٰبَهَ عَلَیْنَا١ؕ وَ اِنَّاۤ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ لَمُهْتَدُوْنَ
اے مسلمانو ! بلاشبہ شراب ، جوا ، معبودان باطل کے نشان اور پانسے شیطانی کاموں کی گندگی ہے تم ان سے اجتناب کرو (اور اس گندگی کے قریب مت جاؤ ) تاکہ تم کامیاب ہو
جوئے ، شراب ، الانصاب اور دوسرے شیطان کاموں سے بچنے کی تاکید : 216: ” خمر اور میسر “ دونوں توام ہیں ایک بیماری جس فردو قوم کو لگ جائے دوسری یقینی ہے اور یہ دونوں بیماریاں عربوں میں عام تھیں اور انہی کی دیکھا دیکھی اہل کتاب میں بھی یہ پھیل چکی تھی حالانکہ اہل کتاب کے دونوں گروہوں کو اس کی سختی کے ساتھ ممانعت تھی۔ جو آج بھی باوجود تحریف کے تورات وانجیل کے صفحات میں موجود ہے۔ نبی اعظم و آخر ﷺ کی بعثت کے وقت عربوں میں ان کا رواج عام تھا ۔ گنتی کے چند آدمیوں کے علاوہ سب کے سب اس کے متوالے تھے۔ اگرچہ ان دونوں کی ممانعت اہل کتاب کے ہاں بھی مسلم تھی لیکن اس کے باوجود وہ ان احکام کو بالکل پیٹھ پیچھے پھینک چکے تھے اور عربوں کے وہ ہم پیالہ وہم نوالہ تھے۔ لیکن اسلام کے پاکیزہ نظام حیات میں اس کی کیونکر گنجائش ہو سکتی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی حرمت قرآن کریم میں بھی نازل فرمادی لیکن یہ حکم بہت سے دوسرے احکام کی طرح بتدریج نازل ہوا۔ چونکہ ” خمر اور میسر “ کے الفاظ پیچھے سورة بقرہ کی آیت 219 میں گزر چکے ہیں اس لئے ان کی پوری وضاحت اس جگہ کردی گئی ہے ملاحظہ ہو عروۃ الوثقیٰ جلد اول تفسیر سورة البقرہ کی آیت 219۔ ” الانصاب “ جمع ہے ” النصب “ کی جس سے وہ سب مقامات مراد ہیں جن کو غیر اللہ کی نذر ونیاز چڑھانے کیلئے لوگوں نے رواجا یا عقید تاً مخصوص کر رکھا ہو خواہ وہاں کوئی قبر بنائی گئی ہو یا نہ بنائی گئی ہو ۔ وہاں کوئی پتھر یا لکڑی کی مورت بنا کر رکھی گئی ہو یا نہ رکھی گئی ہو جس کو ہماری زبان میں لفظ ” آستانہ “ یا لفظ “ استھان “ سے ادا کیا جاتا ہے مگر جو کسی بزرگ یا دیوتا کی طرف منسوب ہو کر متبرک سمجھی جاتی ہو اور لوگ اس پر منت وچڑھاوا چڑھانے کا اعتقاد رکھتے ہوں ۔ اس کو جوئے اور شراب کے ساتھ بیان فرما کر یہ وضاحت فرمادی کہ جس طرح شراب اور جوا ایک شیطانی عمل ہے بالکل اسی طرح ” الانصاب “ جس کی تشریح دوسری جگہ خود قرآن کریم نے مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ (المائدہ 5 : 3) سے کردی ہے یعنی آستانوں پر منت وچڑھاوا چڑھانا بھی شیطانی عمل ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے جوئے اور شراب سے منع فرمایا ہے اسی طرح اس سے بھی ممانعت فرمائی ہے لیکن افسوس کہ آج مسلمان اگرچہ شراب اور جوئے جیسی بیماریوں میں بھی مبتلا نظر آتے ہیں تاہم اس کی حرمت سے وہ انکار نہیں کرسکتے لیکن اس ” الانصاب “ والی بیماری کو بیماری نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کا نام ” تبرک “ رکھ دیا گیا ہے اور غیر اللہ کی نذر ونیاز ” تبرک “ کے نام پر تقسیم کی جاتی ہے لیکن جس طرح جوئے کو ” منافع “ شراب کو ” شربت انار “ کے نام سے وہ منافع اور شربت انار نہیں بن جاتے بالکل اسی طرح غیر اللہ کی اس نذر و نیاز کو ” تبرک “ کے نام سے یاد کرلینے سے وہ ” تبرک “ نہیں ہوجاتا ہے بلکہ اس کو ” الانصاب “ ہی کے حکم میں رکھا جائے گا۔ ” الازلام “ اس وقت ان کے تراشیدہ تیر تھے جن پر کام کرنے یا نہ کرنے کے احکام کندہ تھے۔ کوئی کام کرنے سے پہلے ان تیروں کی مدد سے اس کو کرنے یا نہ کرنے۔ کسی چیز کے حاصل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کیا جاتا تھا اور اس وقت اس قسم کے وہ سارے کھیل اور کام جن میں اشانء کی تقسیم کا مدار حقوق اور خدمات اور عقلی فیصلوں پر رکھنے کی بجائے محض کسی اتفاقی امر پر رکھ دیا جائے ۔ مثلاً یہ کہ لاٹری میں اتفاقافلاں شخص کا نام نکل آیا ہے لہٰذا ہزرہا آدمیوں کی جیب سے نکلا ہوا روپیہ اس ایک شخص کی جیب میں چلا جائے یا یہ کہ علمی حیثیت سے تو ایک معمہ کے بہت سے حل صحیح ہیں مگر انعام وہ شخص پائے گا جس کا حل کسی معقول کوشش کی بناء پر نہیں بلکہ محض اتفاق سے اس حل کے مطابق نکل آیا ہو جو صاحب معمہ کے صندوق میں بند ہے۔ یہ بات اس لئے کہی جا رہی ہے کہ اس طرح کیا جا رہا ہے ورنہ اگر معقول کوشش کے مطابق بھی ہو تو بھی سب کی رقم اکٹھی کر کے کسی ایک کے کھاتے میں ڈال دینا ” الازلام “ ہی میں داخل ہیں۔ ا س کی ساری صورتیں حرام قراردے کر قرعہ اندازی کی وہ سادہ صورت اسلام میں جائز رکھی گئی ہے جس میں دو برابر کے جائز کاموں یا دو برابر کے حقوق کے درمیان فیصلہ کرنا ہو۔ مثلاً ایک چیز پر دو آدمیوں کا حق ہر حیثیت سے برابر ہے اور فیصلہ کرنے والے کے لئے ان میں کسی کو ترجیح دینے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے اور خود ان دونوں میں سے بھی کوئی اپنا حق خود چھوڑ دینے کے لئے تیار نہیں ہے اس صورت میں ان کی رضامندی سے قرعہ اندازی پر فیصلہ کا مدار رکھا جاسکتا ہے اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ دو کام یکساں درست ہیں اور عقلی حیثیت سے آدمی ان دونوں کے درمیان مذبذب ہوگیا ہو کہ ان میں سے کس کو اختیار کرے اور کس کو چھوڑدے اس صورت میں بھی چاہے تو وہ قرعہ اندازی سے کام لے سکتا ہے۔ یہ صورت احادیث کی روشنی میں جائز اور درست ہے ۔ ” الازلام “ کی مزید تشریح کے لئے اسی جلد اور اسی سورت المائدہ کی آیت نمبر 3 کی تشریح دیکھیں۔ رہی یہ بات کہ ” الازلام “ بھی جوئے ہی کی ایک قسم نظر آتی ہے اس میں فرق کیا ہوا۔ عربی زبان میں ” الازلام “ فال گیری اور قرعہ اندازی کی اسی صورت کو کہتے ہیں جو مشرکانہ عقائد اور وہم سے آلودہ ہو اور ” میسر “ کا اطلاق ان کھیلوں اور ان کاموں پر ہوتا ہے جن میں اتفاقی امور کو کمائی اور قسمت آزمائی اور اس طرح ساری چیز کو ایک ہی کے لے جانے کے لئے ایک طرح کی کوشش کی جائے اور دوسرے اس سے کلی طور پر محروم رہ جائیں یا ایک گروہ لے جائے اور دوسرا محروم رہے جب کہ محنت اور خرچہ سب کا برابر ہو اور اس کو قمار بازی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ۔ فرمایا کہ ان سارے کاموں سے جو ” شیطانی اعمال ہیں ان کی گندگی سے اجتناب کرو تاکہ تم کامیاب ہوجاؤ ۔ “ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ہدایت ہی میں کامیاب و کامرانی ہے۔
Top