Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 174
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ : اے لوگو ! قَدْ جَآءَكُمْ : تمہارے پاس آچکی بُرْهَانٌ : روشن دلیل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب وَاَنْزَلْنَآ : اور ہم نے نازل کیا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف نُوْرًا : روشنی مُّبِيْنًا : واضح
لوگو ! تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان آگئی اور ہم نے تمہاری طرف چمکتی ہوئی روشنی بھیج دی
اے لوگو ! تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ” برہان “ آچکی 276: برھان کیا ہے ؟ برہان دلیل کو کہتے ہیں جس سے ہر طرح کا شک و شبہ زائکل ہوجائے اور کسی طرح کا کوئی شک باقی نہ رہے اور نہ ہی کوئی شک ڈالنے والا شک ڈال سکے۔ ہاں وہ مانے یا نہ مانے تسلیم کرے یا نہ کرے یہ اس کی مرضی رہی لیکن اس کے پاس نہ ماننے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو۔ یہاں اس برہان سے کیا مراد ہے ؟ نبی اعظم و آخر ﷺ کی ذات اقد س مراد ہے۔ جن کی آمد کی گواہی اور شہادت تورات و انجیل میں موجود ہے اور باوجود اس کے کہ ان دونوں ہی کتابوں میں بیشمار تحریف ہوچکی لیکن اس ” برہان “ کی پیش گوئیاں اسی طرح قائم ودائم رہیں او اب تک ہیں اور تا قیامت رہیں گی۔ خصوصاً بنی اسرائیل کے ” بھائیوں “ میں سے آنے کی دلیل جو ابھی پیچھے گزری کتنی صاف اور واضح ہے اور پھر یہ بات کہ وہ ” ابد تک “ رہے گا آپ کی ختم نبوت کی کھلی نشانی کے طور پر ہے ” سارے انسانوں “ کے لئے آنے کی پیش گوئی جو کسی دوسرے نبی کے لیے ممکن ہی نہیں ” بھائیوں “ میں سے ہونے سے کتنی بڑی وضاحت کی کہ وہ بھی بنی اسرائیل میں سے نہیں بلکہ ” بنی اسمعٰیل “ میں سے ہوگا۔ آپ ﷺ کا حسب ونسب اس کی کھلی نشانی موجود ہے پھر لطف یہ ہے کہ یہ سارے دعوے اہل کتاب کی الٰہی کتابوں میں موجود ہیں اور ان کے سارے شارحین اپنے درمیان سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں اختلافات رکھنے کے باوجود اس پیشگوئی پر متفق ہیں اور اس طرح گویا مخالفین کی دعویٰ پر آپ ﷺ بذاتہ دلیل وبرہان ہیں اور پھر دلیل وبرہان بھی ایسی کہ اس کا انکار مخالفین بھی نہیں کرسکے۔ جنہوں نے تسلیم نہی کیا وہ بھی اس بات کا رد نہ کرسکے۔ یہ تو مخالفین کی شہادت تھی جو آج بھی حرف بحرف موجود ہے۔ آپ ﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا اور مکہ والوں نے آپ ﷺ کی مخالفت کی مدت تک آپ ﷺ کی نبوت کو تسلیم نہ کیا آپ ﷺ کے دعویٰ کی تردید نہ کرسکے۔ آپ ﷺ نے وہ کلام پیش کیا جو آپ کے سینہ اقدس پر نازل کیا گیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ اس جیسی صرف ایک سورة بنا کرلے آئو اور پھر سورة کی نشاندہی کی تو صرف تین آیتوں کی سورة جو چند جملوں پر مشتمل ہے اور قرآن کریم کی ساری سورتوں میں سے چھوٹی ہے۔ کوئی مقابلہ پر آیا ؟ عیسیٰ (علیہ السلام) کی امت کہلانے والے میدان میں اترے کتنے طمطمراق سے آئے اور باعث نزاع بھی صرف عیسیٰ (علیہ السلام) کی ” الوہیت “ تھی لیکن اس طرح ذلیل و خوار ہو کر بھاگے کہ واپس آنے کی ہمت نہ ہوئی اور جو دعویٰ لے کر آئے تھے اپنی زبانوں میں اس کی تردید کر گئے۔ پھر ان سے زیادہ ڈھیٹ مقابلہ پر اترے جنہوں نے ماننے کی قسم کی کھائی تھی اور قوم سے وعدہ کر کے آئے تھے کہ ہم ” ہاں “ نہیں کریں گے وہ ڈٹ گئے لیکن انہوں نے ہاں بھی فی الواقع نہ کی پیغمبر اسلام ﷺ نے دعوت دی کہ دلیل نہ ماننے والوں کے لئے بھی ہم ایک دلیل رکھتے ہیں آئو خودبھی اور اپنے بال بچوں کو بھی لے آئو ہم بھی آتے ہیں اور ایک جگہ اکھٹے ہو کر اللہ سے جس کو ایک لحاظ سے تم بھی مانتے ہو دعا کرتے ہیں کہ ” اے اللہ ! ہم میں سے جو جھوٹا ہے اس کے جھوٹ کو واضح فرما “ ہاں یہ قسم کھانے والے اس پر ” نہیں “ کہہ کر بھاگ گئے اور یہ آخری دلیل ان پر بھی کامیاب ہو کر رہی ۔ اب بھی رسول اللہ ﷺ کے ” برہان “ ہونے میں کوئی شک رہا۔ مدت سے سنتے آرہے تھے کہ لاتوں کے بھوت باتوں ستے نہیں مانتے۔ قربان جائیں پیغمبر اسلام ﷺ کی شخصیت پر کہ لات بھی نہیں اٹھائی اور سچ کو منوا کر دکھادیا تو ہاں سچ سچ ہے اس کا مقابلہ کوئی جھوٹ بھی نہیں کرسکتا۔ اس لئے کی یہ اتنا کھرا سچ ہے کہ جھوٹ کو قریب ہی نہیں جانے دیتا۔ موسیٰ (علیہ السلام) بھی سچ لے کر میدان میں اترے تھے لیکن کم از کم ان کے مقابلہ کے لئے فرعون اور اس کے ساتھی میدان میں تو اترے لیکن یہاں تو میدان میں کوئی اترنے کے لئے تیار ہی نہ ہوا۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہاں سچ اور جھوٹ کا نکھار تھا اور یہاں جھوٹ کو جان ہی سے ہاتھ دھونا تھے۔ اس لئے سچ کو دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ بھاگ جانے میں پھر بھی امان ہے یہاں سے تو بھاگ کر جا ہی نہیں سکیں گے۔ وہاں تو اژدھا ان کے بنائے ہوئے جادو کو کھا گیا لیکن نبی اعظم وآخر ﷺ کا اژدھا صرف جادو اور جھوٹ ہی کو نہیں نگلے گا بلکہ وہ سارے جادو گروں اور سارے جھوٹوں کو بھی ساتھ ہی نگل جائے گا۔ موسیٰ و ہاروں دو نبی تھے اور قرآن نے فرمایا ہے کہ ان کو ” برہانان “ یعنی دو دلیلیں دی تھیں لیکن یہاں ایک ہی ” دلیل “ اور ایک ہی ” برہان “ ایسی ہے جو ساری دنیا پر چھا گئی اور کسی کو مقابلہ میں اترنے کی جرات نہ ہوئی۔ کمال معجزہ ہے نبی اعظم و آخر ﷺ کا جو اللہ نے عطا فرما یا اور رہتی دنیا تک وہ اپنا کام کرتا رہے گا کہ آپ ﷺ کی نبوت کے بعد جو بھی آیا اور جس نے بھی دعویٰ کیا خواہ وہ کتنے ہی بکھیڑے کرتا رہا کہ میں بروزی ہوں ۔ ظلی ہوں۔ نبی نہیں ہوں مہدی موعود ہوں لیکن ” برہان “ الٰہی نے اس طرح نکال پھینکا جس طرحمکھن سے بال نکالا جاتا ہے کہ اس کا اس جگہ کیا کام۔ یہاں تو وہ ذات اقدس جس کی تعلیم نے ہر مشکل کو آسان اور ہر پتھر کو پانی کردیا اس کے بعد کسی نئے یا پرانے کی قطعاً ضرورت نہیں اور ” نور مبین “ سے مراد قرآن کریم ہے اور یہ کہہ کر اس کے عملی پہلوکو واضح کردیا ہے کہ وہ زندگی کے تما م نشیب و فراز میں حق و باطل کو واضح کر کے صراط مستقیم کی طرف راہنمائی کرتا ہے او تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لاتا ہے اور اس نور اور روشنی کی بدولت انسان کو غلط بینی ، غلط اندیشی اور غلط کاری سے بچاتا ہے اس لئے کہ ان کے نتائج سے محفوظ رہتا ہے۔ جو شخص اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی زندگی سے روشنی حاصل کرتا ہے اسے فکروعمل کے چورا ہے پر یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کس طرح ان غلطیوں سے محفوظ رہے۔ چناچہ ارشد الٰہی ہوا کہ : ” اے اہل کتاب ! ہمارا رسول تمہارے پاس آگیا ہے جو کتاب الٰہی کی بہت سی ان باتوں کو تمہارے سامنے کھول رہا ہے جن پر تم پردہ ڈالا کرتے تھے اور بہت سی باتوں سے درگزر بھی کرجاتا ہے تمہارے پاس اللہ کی طرف سے روشنی آگئی اور ایک ایسی حق نما کتاب جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو اس کی رضا کے طالب ہیں سلامتی کے طریقے بتاتا ہے اور اپنے اذن سے ان کو اندھیروں سے نکال کر اجالے کی طرف لاتا ہے اور راہ راست کی طرف ان کی راہنمائی کرتا ہے۔ “ ا (المائدہ 5:15 ، 5) ایک جگہ ارشاد الٰہی ہے کہ : ” اے پیغمبر اسلام ! یہ ایک کتاب ہے جس کو ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائو ، ان کے رب کی توفیق سے اس خدا کے راستے پر جو زبردست ہے اور اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ “ (ابراہیم 14:1) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” ہم اس سے پہلے موسیٰ کو بھی اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیج چکے ہیں اسے بھی ہم نے حکم دیا تھا کہ اپنی قوم کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائو۔ “ (ابراہیم 14:5) ایک جگہ ارشاد فرمایا : ” اے پیغمبر اسلام ! ان سے پوچھو کہ کیا اندھا اور آنکھوں والا برابر ہوا کرتا ہے ؟ کیا روشنی اور تاریکیاں یکساں ہوتی ہیں ؟ “ (الرعد 13:16)
Top