بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 1
الٓمَّٓۙ
الٓٓمَّ : الف لام میم
الم
ربط آیات
یہ قرآن کریم کی تیسری سورت (آل عمران) کا پہلا رکوع ہے پہلی سورت یعنی فاتحہ جو پورے قرآن کا خلاصہ ہے اس کے آخر میں صراط مستقیم کی ہدایت طلب کی گئی تھی اس کے بعد سورة بقرہ الم ذلک الکتاب سے شروع کر کے گویا اس طرف اشارہ کردیا گیا کہ سورة فاتحہ میں جو سیدھے راستے کی دعا کی گئی ہے وہ اللہ تعالیٰ نے قبول کر کے یہ قرآن بھیج دیا، جو صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے پھر سورة بقرہ میں اکثر احکامات شرعیہ کا جمالی اور تفصیلی بیان آیا ہے، جس کے ضمن میں جابجا کفار کی مخالفت اور ان سے مقابلہ کا بھی ذکر آیا آخر میں اس کو (فانصرنا علی القوم الکافرین) کے جملہ دعائیہ پر ختم کیا گیا تھا، جس کا حاصل تھا کفار پر غلبہ پانے کی دعا، اس کی مناسبت سے سورة آل عمران میں عام طور پر کفار کے ساتھ معاملات اور ہاتھ اور زبان سے ان کے مقابلہ میں جہاد کا بیان ہے، جو گویا (فانصرنا علی القوم الکافرین) کی تشریح و تفصیل ہے۔
خلاصہ تفسیر
سورة آل عمران کی ابتدائی پانچ آیتوں میں اس مقصد عظیم کا ذکر ہے جس کی وجہ سے کفر و اسلام اور کافر و مومن کی تقسیم اور باہمی مقابلہ شروع ہوتا ہے، اور وہ اللہ جل شانہ کی توحید ہے، اس کے ماننے والے مومن اور نہ ماننے والے کافر وغیر مسلم کہلاتے ہیں، اس رکوع کی پہلی آیت میں توحید کی عقلی دلیل مذکور ہے، اور دوسری آیت میں نفلی دلیل بیان فرمائی گئی ہے اس کے بعد کی آیت میں کفار کے کچھ شبہات کا جواب ہے۔
معارف و مسائل
توحید کی طرف دعوت تمام انبیاء کا وظیفہ رہا ہے
دوسری آیت میں جو نقلی دلیل توحید کی پیش کی گئی ہے، تشریح اس کی یہ ہے کہ جس بات پر بہت سے انسان متفق ہوں، خصوصاً جبکہ وہ مختلف ملکوں کے باشندے اور مختلف زمانوں میں پیدا ہوئے ہوں، اور درمیان میں سینکڑوں ہزاروں برس کا فاصلہ، اور ایک کی بات دوسرے تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ بھی نہیں، اس کے باوجود جو اٹھتا ہے وہی ایک بات کہتا ہے جو پہلے لوگوں نے کہی تھی، اور سب کے سب ایک ہی بات اور ایک ہی عقیدہ کے پابند ہوتے ہیں تو فطرت اس کے قبول کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کا وجود اور اس کی توحید کا مضمون انسانوں میں سب سے پہلے حضرت آدم ؑ لے کر آئے اور ان کے بعد ان کی اولاد میں تو مسلسل اس بات کا چلنا کچھ بعید نہ تھا، لیکن زمانہ دراز گزر جانے اور اولاد آدم کے وہ تمام طریقے بدل جانے کے بعد پھر حضرت نوح ؑ آتے ہیں، اس چیز کی دعوت دیتے ہیں جس کی طرف آدم ؑ نے لوگوں کو بلایا تھا ان کے زمانہ دراز گزرنے کے بعد ابراہیم، اسماعیل، اسحاق اور یعقوب (علیہم السلام) ملک عراق و شام میں پیدا ہوتے ہیں، اور ٹھیک وہی دعوت لے کر اٹھتے ہیں، پھر موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ اور ان کے سلسلہ کے انبیاء آتے ہیں، اور سب کے سب وہی ایک کلمہ توحید بولتے ہیں اور وہی دعوت دیتے ہیں، ان پر زمانہ دراز گزر جانے کے بعد عیسیٰ ؑ وہی دعوت لے کر اٹھتے ہیں، اور آخر میں سید الانبیاء سیدنا محمد مصطفیٰ ﷺ وہی دعوت لے کر تشریف لاتے ہیں۔ اب اگر ایک خالی الذہن انسان جس کو اسلام اور توحید کی دعوت سے کوئی بغض اور بیر نہ ہو سادگی کے ساتھ ذرا اس سلسلہ پر نظر ڈالے کہ آدم ؑ سے لے کر خاتم الانبیاء ﷺ کے زمانہ تک ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء (علیہم السلام) مختلف زمانوں میں مختلف زبانوں میں، مختلف ملکوں میں پیدا ہوئے، اور سب کے سب یہی کہتے اور بتلاتے چلے آئے، اکثر ایک کو دوسرے کے ساتھ ملنے کا بھی اتفاق نہیں ہوا، زمانہ تصنیف و تالیف اور کتابت کا بھی نہ تھا، کہ ایک پیغمبر کو دوسرے پیغمبر کی کتابیں اور تحریریں مل جاتی ہوں، ان کو دیکھ کر وہ اس دعوت کو اپنا لیتے ہوں، بلکہ انہی میں ہر ایک دوسرے سے بہت قرنوں کے بعد پیدا ہوتا ہے، اس کو اسباب دنیا کے تحت پچھلے انبیاء کی کوئی خبر نہیں ہوتی، البتہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی پاکر ان سب کے حالات و کیفیات سے مطلع ہوتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے اس کو اس دعوت کے لئے کھڑا کیا جاتا ہے۔ اب کوئی آدمی ذرا سا انصاف کے ساتھ غور کرے کہ اگر ایک لاکھ چوبیس ہزار انسان مختلف زمانوں میں اور مختلف ملکوں میں ایک ہی بات کو بیان کریں تو قطع نظر اس سے کہ بیان کرنے والے ثقہ اور معتبر لوگ ہیں یا نہیں، اتنی عظیم الشان جماعت کا ایک ہی بات پر متفق ہونا ایک انسان کے لئے اس بات کی تصدیق کے واسطے کافی ہوجاتا ہے اور جب انبیاء (علیہم السلام) کی ذاتی خصوصیات اور ان کے صدق و عدل کے انتہائی بلند معیار پر نظر ڈالی جائے تو ایک انسان یہ یقین کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان کا کلمہ صحیح اور ان کی دعوت حق اور فلاح دنیا و آخرت ہے۔
شروع کی دو آیتوں میں جو مضمون توحید کا ارشاد فرمایا گیا ہے اس کے متعلق حدیث کی روایات میں ہے کہ بعض نصاری آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ان سے مذہبی گفتگو جاری ہوئی، آنحضرت ﷺ نے اللہ جل شانہ کی توحید کے ثبوت میں یہی دو دلیلیں باذن خدا وندی پیش فرمائی جن سے نصاری لاجواب ہوئے۔
اس کے بعد تیسری اور چوتھی آیت میں بھی اسی مضمون توحید کی تکمیل ہے تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ کے علم محیط کا بیان ہے جس سے کسی جہان کا کوئی ذرہ چھپا ہوا نہیں۔
اور چوتھی آیت میں اس کی قدرت کاملہ اور قادر مطلق ہونے کا بیان ہے کہ اس نے انسان کو بطن مادر کے تین اندھیریوں میں کیسی حکمت بالغہ کے ساتھ بنایا، اور ان کی صورتوں اور رنگوں میں وہ صنعتکاری فرمائی کہ اربوں انسانوں میں ایک کی صورت دوسرے سے ایسی نہیں ملتی کہ امتیاز نہ رہے، اس علم محیط اور قدرت کاملہ کا عقلی تقاضا یہ ہے کہ عبادت صرف اسی کی کی جائے اس کے سوا سب کے سب علم وقدرت میں یہ مقام نہیں رکھتے اس لئے وہ لائق عبادت نہیں۔
اس طرح توحید کے اثبات کے لئے حق تعالیٰ شانہ کی چار اہم صفات ان چار آیتوں میں آگئیں پہلی اور دوسری آیت میں صفات حیات ازلی و ابدی اور قیامیت کا بیان ہوا تیسری سے چھٹی آیت تک علم محیط اور قدرت کاملہ مطلقہ کا اس سے ثابت ہوا کہ جو ذات ان چار صفات کی جامع ہو وہی عبادت کے لائق ہے۔
Top