Ahkam-ul-Quran - Al-Israa : 29
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا
وَ : اور لَا تَجْعَلْ : تو نہ رکھ يَدَكَ : اپنا ہاتھ مَغْلُوْلَةً : بندھا ہوا اِلٰى : تک۔ سے عُنُقِكَ : اپنی گردن وَ : اور لَا تَبْسُطْهَا : نہ اسے کھول كُلَّ الْبَسْطِ : پوری طرح کھولنا فَتَقْعُدَ : پھر تو بیٹھا رہ جائے مَلُوْمًا : ملامت زدہ مَّحْسُوْرًا : تھکا ہوا
اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا (یعنی بہت تنگ) کرلو (کہ کسی کو کچھ دو ہی نہیں) اور نہ بالکل ہی کھول دو (کہ سبھی کچھ دے ڈالو اور انجام یہ ہو کہ) ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جاؤ
اخراجات میں میانہ روی ہونی چاہیے قول باری ہے (ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولاتبسطھا کل البسط فتفعد ملوما محسوراً اور نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو) یعنی …… واللہ اعلم …… ان حقوق کی ادائیگی میں بخل سے کام نہ نوجوان کے لئے واجب ہیں۔ یہ بطور مجاز بیان ہوا ہے اور اس سے مراد تر ک انفاق ہے۔ جائز خرچ سے ایک شخص ہاتھ روک کر گویا اسے اپنی گردن سے باندھ لیتا ہے اور اس طرح اپنے مال میں سے کسی کو کچھ دے نہیں سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عرب کے لوگ نجیل انسان کو ہاتھ کی تنگی کے وصف سے موصوف کرتے تھے اور کہتے فلان جعد الکفین “ (فلاں شخص کے بازو بہت چھوٹے ہیں) اس کے بالمقابل سخی اور فیاض شخص کے لئے یہ فقرے کہے جاتے ” فلان رحب الذراع “ (فلاں شخص کے بازو بڑے کشادہ ہیں)” فلان طویل الیدین (فلاں شخص کے ہاتھ بڑے لمبے ہیں) حضور ﷺ نے ازواج مطہرات سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا (اسرعکن بی لحاقاً اطوالکن یداً تم میں سب سے پہلے میرے پاس پہنچنے والی وہ ہے جس کے بازو سب سے زیادہ دراز ہیں) اس سے آپ نے صدقہ و خیرات کی کثرت مراد لی تھی۔ وہ ام المومنین حضرت زینب بنت حجش ؓ نکلیں، وہی سب سے بڑھ کر صدقہ و خیرات کرنے والی تھیں اور حضور ﷺ کے بعد امہات المومنین میں سب سے پہلے ان کی وفات ہوئی تھی۔ شاعر کا قول ہے۔ وما ان کان اکثر ھم سواما ولکن کان ارحیھم ذراعاً میرا ممدوح اگرچہ ہونے والے مویشیوں کا سب سے بڑھ کر مالک نہیں تھا لیکن اس کے بازو سب سے زیادہ کشادہ تھے۔ یعنی وہ سب سے بڑھ کر سخی اور فیاض تھا۔ قول باری ہے (ولا تیسطھا کل البسط اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑ دو ) یعنی تمہارے ہاتھ میں جتنا مال ہے وہ سارے کا سارا خرچ نہ کر ڈالو کیونکہ تمہیں اور تمہارے اہل و عیال کو اس کی ضرورت رہے گی اگر ایسا کرو گے تو ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو گے یعنی جو مال تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا اس کی تمہیں حسرت رہے گی۔ یہ خطاب حضور ﷺ کے سوا باقی ماندہ تمام لوگوں کو ہے۔ آپ آئندہ کے لئے کسی چیز کا ذخیرہ نہیں کرتے تھے۔ آپ فاقہ کرتے یہاں تک کہ بھوک کی شدت کو کم کرنے کے لئے پیٹ سے پتھر باندھ لیتے۔ اسی طرح بعض جلیل القدر صحابہ کرام بھی اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کردیتے تھے لیکن حضور ﷺ انہیں کچھ نہ کہتے اس کی وجہ تھی کہ اللہ کی ذات پر انہیں پورا یقین ہوتا اور وہ بڑے روشن ضمیر ہوتے۔ اللہ تعالیٰ نے انفاق میں افراط سے کام لینے اور سارا مال دے دینے سے صرف ان لوگوں کو روکا ہے جن کے بارے میں یہ خطرہ ہو کہ مال خرچ کرلینے کے بعد انہیں ہمیشہ اس کا افسوس اور مال کی حسرت لاحق ہوجائے گی لیکن جو لوگ اللہ کے وعدے پر یقین رکھتے ہوں اور ثواب عظیم کے امیدوار ہوں وہ اس آیت میں مراد نہیں ہیں۔ روایت ہے کہ ایک شخص حضور ﷺ کی خدمت میں آیا۔ اس کے پاس انڈے کے برابر سونے کا ٹکڑا تھا۔ کہنے لگا :” اللہ کے رسول ﷺ ! مجھے یہ ٹکڑا ایک کان سے دستیاب ہوا ہے، بخدا میرے پاس اس کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے، آپ ﷺ مجھ سے یہ لے لیجیے۔” حضور ﷺ نے اس کی یہ بات سن کر اپنا رخ دوسری طرف پھیرلیا۔ اس شخص نے دوسری مرتبہ یہی بات عرض کی، آپ ﷺ نے پھر اپنا رخ بدل لیا۔ جب اس نے تیسری مرتبہ یہ کہا تو آپ ﷺ نے اس کے ہاتھ سے سونے کا وہ ٹکڑا لے کر اتنے زور سے پھینکا کہ اگر اس شخص کو لگ جاتا تو وہ زخمی ہوجاتا، پھر فرمایا : تم میں سے ایک شخص اپنا سارا مال میرے حوالے کرنے کے لئے لے آتا ہے اور پھر بیٹھ کر لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا رہتا ہے۔ “ ایک اور روایت ہے کہ ایک شخص مسجد نبوی میں آیا اس کے جسم پر پھٹے پرانے کپڑے تھے۔ اس وقت حضور ﷺ منبر پر تشریف فرما تھے۔ آپ نے اس شخص کو کھڑے ہوجانے کا حکم دیا۔ وہ کھڑا ہوگیا۔ لوگوں نے صدقہ کے طور پر اس کے لئے کپڑوں کے جوڑے جمع کردیئے، آپ نے ان میں سے دو کپڑے لے کر اسے دے دیئے، اس کے بعد خطبہ دیتے ہوئے آپ ﷺ نے لوگوں کو صدقہ کرنے کی تلقین فرمائی جسے سن کر اس شخص نے اپنا ایک کپڑا صدقہ میں دے دیا یہ دیکھ کر حضور ﷺ نے فرمایا : لوگو ! اس شخص کو دیکھو، میں نے اسے کھڑا ہونے کے لئے کہا تھا تاکہ لوگوں کو اس کی بدحالی کا احساس ہوجائے اور اس طرح اس کی کچھ امداد ہوجائے۔ میں نے اسے دو کپڑے دیے تھے اور اب دیکھو اس نے ایک کپڑا صدقہ کے طور پر جمع کرا دیا ہے۔ یہ کہہ کر آپ نے اس شخص کو حکم دیا گیا کہ کپڑا واپس لے لو۔ آیت میں دراصل ایسے ہی لوگوں کو اپنا سب کچھ دے دینے سے روکا گیا ہے۔ لیکن جو حضرات صاحب بصیرت اور روشن ضمیر تھے۔ انہیں حضور ﷺ اس سے نہیں روکتے تھے۔ حضرت ابوبکر کے پاس کافی مال تھا آپ نے سارا مال حضور ﷺ کی ذات پر اور اللہ کی راہ میں خرچ کردیا حتی کہ جسم پر صرف ایک چادر رہ گئی تھی جس میں آپ گزارہ کرتے تھے لیکن حضور ﷺ نے اس مسئلے میں آپ کے ساتھ نہ کوئی سختی کی اور نہ ہی اس پر آپ کو ٹوکا۔ آیت میں خطاب حضور ﷺ کو نہیں ہے بلکہ آپ ﷺ کے سوا باقی ماندہ لوگ مخاطب ہیں اس کی دلیل یہ قول باری ہے (فتقعد ملوماً محسوراً ) حضور ﷺ کی ذات اقدس ایسی نہیں تھی کہ اللہ کی راہ میں سب کچھ خرچ کردینے کے بعد آپ کو افسوس ہوتا یا دل میں مال کی حسرت پیدا ہوجاتی۔ اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آیت میں آپ ﷺ کے سوا دوسرے تمام لوگ مراد ہیں۔ اس کی مثال یہ قول باری ہے (لئن اشرکت لیحبطن عملک اگر تم شرک کرو گے تو تمہارے سال اعمال حبط ہوجائیں گے) آیت میں اگرچہ خطاب حضور ﷺ کو ہے لیکن مراد آپ ﷺ کے سوا دوسرے تمام لوگ ہیں اسی طرح قول باری (فان کنت فی شک مما انزلنا الیک۔ اگر تمہیں اس کتاب کے بارے میں کوئی شک ہے جو ہم نے تم پر اتاری ہے) میں حضور ﷺ مراد نہیں ہیں اس لئے کہ آپ کو اللہ کی نازل کردہ کتاب کے بارے میں کوئی شک نہیں تھا۔ قول باری (وقضی ربک) سے لے کر آیت زیر بحث تک جتنی آیات درج ہیں وہ مندرجہ ذیل امور کی مقتضی ہیں۔ اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے، والدین کے ساتھ حسن سلوک ، ا ن کے سامنے نیاز مندی کے اظہار اور ان کی فرمانبرداری نیز رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں کو ان کے حقوق ادا کرنے کا امر فرمایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بےجا طور پر مال خرچ کرنے اور اللہ کی نافرمانی میں مال لگانے سے روکا گیا ہے۔ یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ اخراجات میں میانہ روی اختیار کی جائے، فضول خرچی سے پرہیز کی جائے اور حقوق کی ادائیگی میں کتواہی نہ کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ تعلیم بھی دی گئی ہے کہ ہاتھ خالی ہونے کی صورت میں مسکین اور سائل کو کس طریقے سے ٹالا جائے۔
Top