Dure-Mansoor - Al-Israa : 29
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا
وَ : اور لَا تَجْعَلْ : تو نہ رکھ يَدَكَ : اپنا ہاتھ مَغْلُوْلَةً : بندھا ہوا اِلٰى : تک۔ سے عُنُقِكَ : اپنی گردن وَ : اور لَا تَبْسُطْهَا : نہ اسے کھول كُلَّ الْبَسْطِ : پوری طرح کھولنا فَتَقْعُدَ : پھر تو بیٹھا رہ جائے مَلُوْمًا : ملامت زدہ مَّحْسُوْرًا : تھکا ہوا
اور تو اپنے ہاتھ کو اپنی گردن کی طرف باندھا ہوا مت رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دو ورنہ تو ملامت کیا ہوا خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ رہے گا
1:۔ سعید بن منصور اور ابن منذر نے یسار بن حکم (رح) سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس عراق سے کپڑا لایا گیا اور آپ ﷺ بہت عطا فرمانے والے اور شریف تھے آپ نے وہ کپڑا لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دیا یہ بات عرب کی ایک قوم کے پاس پہنچی تو انہوں نے کہا کہ ہم نبی کریم ﷺ کے پاس جاکر سوال کریں گے (جب یہ لوگ آئے) تو انہوں نے آپ کو اس حال میں پایا کہ آپ کپڑا تقسیم کرنے سے فارغ ہوچکے تھے اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائی (آیت) ” ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک “ یعنی بندھا ہوا (آیت) ” ولا تبسطھا کل البسط فتقعد ملوما “ اور نہ بالکل کشادہ کردو ورنہ لوگ ملامت کریں گئے ” محسورا “ یعنی آپ کے ہاتھ میں کوئی چیز بھی نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے میں اعتدال : 2:۔ ابن ابی حاتم نے منھال ابن عمر وؓ سے روایت کیا کہ ایک عورت نے اپنے بیٹے کو نبی کریم ﷺ کے پاس بھیجا اور کہا کہ آپ سے عرض کردوں کہ مجھے کپڑا پہناؤ آپ ﷺ نے فرمایا اب میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے ؟ عورت نے کہا واپس جاؤ اور ان سے کہو مجھے اپنی قیمص ہی پہنا دو آپ ﷺ لوٹ کر آئے اور اپنی قمیص کو اتار کر اس کو دے دی اس وقت یہ آیت نازل ہوئی (آیت) ” ولا تجعل یدک مغلولۃ “۔ 3:۔ ابن جریر نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ ایک لڑکا نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور کہا کہ میری ماں نے آپ سے فلاں فلاں چیز کا سوال کیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا آج کے دن تو ہمارے پاس کوئی چیز نہیں ہے اس نے کہا میری ماں آپ سے کہہ رہی ہے کہ اپنی قیمص ہی مجھے پہنا دیجئے آپ ﷺ نے اپنی قمیص اتار کر اس کو دے دی اور آپ گھر میں ننگے بند بیٹھ گئے اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا (آیت) ” ولا تجعل یدک مغلولۃ “۔ 4:۔ ابن مردویہ نے ابوامامہ ؓ سے روایت کیا کہ نبی کریم ﷺ نے عائشہ ؓ سے فرمایا جو کچھ میرے ہاتھ میں ہو اسے خرچ کردیا کرو اور اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا عائشہ ؓ نے فرمایا تب تو کچھ باقی نہیں رہے گا آپ ﷺ نے اس کو تین مرتبہ فرمایا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (آیت) ” ولا تجعل یدک مغلولۃ “ 5:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا تجعل یدک مغلولۃ “ سے یعنی اس سے بخل مراد ہے۔ 6:۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک “ یہ آیت نفقہ کے بارے میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو خرچ میں تنگی اور کنجوسی کرو اور نہ بالکل کشادہ کرو یعنی فضول خرچی سے کام نہ لو (آیت) ” ولا تبسطھا کل البسط “ یعنی فضول خرچی نہ کرو (آیت) ” فتقعدملوما “ یعنی ایک دن تم خود اپنے مال کے ختم ہونے پر اپنے آپ کو ملامت کرو گے (آیت) ” محسورا “ یعنی جس کا سارا مال ختم ہوگیا ہو۔ 7:۔ ابن ابی حاتم نے حسن (رح) سے روایت کیا کہ (آیت) ” ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک ولا تبسطھا کل البسط “ سے مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسراف سے اور بخل سے ہم کو منع فرمایا ہے۔ 8:۔ ابن منذر نے ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ (آیت) ” فتقعد ملوما محسورا “ سے مراد ہے کہ لوگوں کے نزدیک ملامت کیا ہوا اور مال سے خالی ہاتھ ہوگا۔ 9:۔ طستی سے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ نافع بن ازرق نے ان سے اللہ تعالیٰ کے اس قول (آیت) ” ملوما محسورا “ کے بارے میں پوچھا کہ اس کے بارے میں مجھے بتائیے انہوں نے فرمایا کہ اس سے مراد ہے نادم اور شرمندہ ہونے والا پوچھا کیا عرب کے لوگ اس سے واقف ہیں ؟ فرمایا ہاں کیا تو شاعر کا یہ قول نہیں سنا : مافادمن منی یموت جو ادھم الا ترکت جو ادہم محسورا : ترجمہ : وہ خواہشات کو حاصل نہیں کرپاتے جن کے گھوڑے مرجاتے ہیں یہ ان کے گھوڑے انہیں شرمندہ کرکے چھوڑ تے ہیں۔ 10:۔ بیہقی نے الشعب میں جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا معیشت میں نرمی (یعنی میانہ روی) بہتر ہے تجارت کے سکون سے۔ 11:۔ ابن عدی اور بیہقی نے عبداللہ ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ آدمی کی سمجھداری میں سے یہ ہے کہ اپنی معیشت کی اصلاح کرے اور فرمایا یہ تمہاری دنیا سے محبت شمار نہیں ہوگی کہ تم وہ چیز طلب کرو جو تمہاری اصلاح کا ذریعہ بنے۔ 12:۔ ابن عدی اور بیہقی نے ابو درداء ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تیرا زندگی گذارنے میں نرمی اختیار کرنا تیری سمجھداری میں سے ہے۔ 13:۔ بیہقی نے ابن عمر ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرنا آدھی زندگی ہے۔ 14:۔ ابن ابی شیبہ احمد اور بیہقی نے ابن مسعود ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ شخص کبھی محتاج نہیں ہوا جس نے میانہ روی اختیار کی۔ 15:۔ ابن عدی اور بیہقی نے ابن عبا سؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میانہ روری اختیار کرنے والا کبھی محتاج نہیں ہوتا۔ 16:۔ بیہقی نے عبداللہ بن شبیب (رح) سے روایت کیا کہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ کم آمدنی کے ساتھ حسن تدبیر بہتر ہے ایسی مالداری سے جو فضول خرچی کے ساتھ ہو۔ 17:۔ بیہقی نے مطرف (رح) سے روایت کیا کہ کاموں میں سے بہتر درمیانی کام ہے۔ 18۔ دیلمی نے انس ؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تدبیر آدھی زندگی ہے اور لوگوں سے دوستی لگانا آدھی عقل ہے اور رنج وغم آدھا بوڑھاپا ہے اور اہل و عیال کا تھوڑا ہونا دو آسانیوں میں سے ایک آسانی ہے۔ 19:۔ احمد نے زہد میں یونس بن عبید (رح) سے روایت کیا کہ یہ بات کہی جاتی ہے کہ لوگوں سے دوستی لگانا آدھی عقل ہے اور اچھا سوال کرنا آدھا علم ہے اور معیشت میں میانہ روی اختیار کرنا تجھ سے آدھی مشقت کو دور کردے گی۔ 20:۔ ابن ابی حاتم نے ابن زید (رح) سے فرمایا کہ پھر ہم کو خبر دی گئی کہ وہ (یعنی اللہ تعالیٰ ) ہمارے ساتھ کیا کرتا ہے (فرمایا) (آیت) ” ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر “ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو خبر دی اگر وہ اپنے بندوں پر رزق کے دروازے کھول دے تب بھی اس پر کوئی بوجھ نہیں ہے لیکن اس نے ان کو دیکھتے ہوئے فرمایا (آیت) ” وبسط اللہ الرزق لعبادہ لبغوا فی الارض ولکن ینزل بقدر ما یشاء انہ بعبادہ خبیر بصیر “ (الشوری 27) ابن زید فرماتے ہیں کہ جب عرب کے لوگوں کو شادابی نصیب ہوتی اور خوشحالی کا دور آتا تو ایک دوسرے کو قید کرتے اور بعض بعض کو قتل کرتا اور فساد مچاتے اور جب قحط سالی شروع ہوتی تو پھر اس (قتل و غارت سے) باز رہتے۔ 21:۔ ابن ابی حاتم نے حسن ؓ سے (آیت) ” ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ اس بندے کی کیفیت کو دیکھتا ہے اگر اس کے لئے مالداری بہتر ہوتی ہے تو اس کو مالدار بنادیتے ہیں اور اگر اس کے لئے فقیری بہتر ہوتی ہے تو اس کو فقیر بنادیتے ہیں۔ 22:۔ ابن ابی حاتم نے حسن ؓ سے (آیت) ” ان ربک یبسط الرزق لمن یشاء ویقدر “ کے بارے میں روایت کیا کہ اللہ تعالیٰ ایک کے لئے روزی کشادہ فرماتا ہے اس کے لئے خفیہ تدبیر کرنے کے لئے اور دوسرے کے لئے روزی تنگ کرتا ہے اس کو دیکھنے کے لئے صبر کرتا ہے یا نہیں۔ 23:۔ ابن ابی حاتم نے زید (رح) سے روایت کیا کہ قرآن میں جہاں بھی یقدر استعمال ہوا ہے اس کا معنی (آیت) ” یقلل “ (یعنی کم کرتا ہے )
Top