Tafseer-Ibne-Abbas - Al-Israa : 29
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا
وَ : اور لَا تَجْعَلْ : تو نہ رکھ يَدَكَ : اپنا ہاتھ مَغْلُوْلَةً : بندھا ہوا اِلٰى : تک۔ سے عُنُقِكَ : اپنی گردن وَ : اور لَا تَبْسُطْهَا : نہ اسے کھول كُلَّ الْبَسْطِ : پوری طرح کھولنا فَتَقْعُدَ : پھر تو بیٹھا رہ جائے مَلُوْمًا : ملامت زدہ مَّحْسُوْرًا : تھکا ہوا
اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا (یعنی بہت تنگ) کرلو (کہ کسی کو کچھ دو ہی نہیں) اور نہ بالکل ہی کھول دو (کہ سبھی کچھ دے ڈالو اور انجام یہ ہو کہ) ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جاؤ
(29) اور نہ تو خرچ اور عطیہ سے اس طرح جیسا کہ ہاتھ گردن میں باندھ لیا جائے ہاتھ روک لیا جائے اور نہ بالکل ہی خرچ اور عطیہ میں اسراف کرنا چاہیے یعنی کہ اپنا تمام مال ایک محتاج اور صرف ایک قرابت دار کو نہ دینا چاہیے کہ دوسروں کا بالکل ہی نظر انداز کردیا جائے ورنہ الزام خوردہ خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ رہو گے کہ دوسروے فقراء اور قرابت دار الزام دیں گے اور تم سے علیحدہ ہوجائیں گے اور جو تمہارے پاس مال ہوگا وہ سب دوسرے تم سے لے جائیں گے۔ کہا گیا ہے کہ یہ آیت ایک عورت کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ جس نے رسول اکرم ﷺ سے کرتہ مانگا تھا تو آپ نے کرتہ اتار کر اس کو دے دیا اور خود برہنہ ہو کر بیٹھ گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس چیز سے منع فرمایا کہ اپنا ہاتھ بالکل ہی نہیں کھول دینا چاہیے کہ اپنے بدن کا کرتہ تک اتار کر آپ دے دیں اور پھر آپ کرتہ بدن پر نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے سامنے باہر بھی نکل نہ سکیں۔ شان نزول : (آیت) ”۔ ولا تجعل یدک مغلولۃ“۔ (الخ) سعید بن منصور رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سیارابی الحکم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے پاس کپڑے وغیرہ مال آیا اور آپ بہت ہی بخشش کرنے والے تھے چناچہ آپ نے اس کو لوگوں میں تقسیم کردیا پھر دوسری قوم آپ کے پاس لینے کی امید سے آئی تو آپ کو دیکھا کہ آپ تقسیم کرچکے ہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ نہ اپنا ہاتھ گردن ہی سے باندھ لینا چاہیے اور نہ بالکل ہی کھول دینا چاہیے ورنہ الزام خوردہ اور خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ رہو گے۔ اور ابن مردویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ نے ابن مسعود رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت کیا ہے کہ ایک لڑکا رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میری والدہ آپ سے یہ مانگ رہی ہے، آپ نے فرمایا آج کے دن تو ہمارے پاس کچھ نہیں، وہ لڑکا کہنے لگا تو میری ماں کہتی ہے کہ پھر آپ اپنا کرتہ مبارک ہی مجھے دے دیں، چناچہ آپ نے فورا اپنا کرتہ اتار کر اس کو دیا دے اور گھر میں بغیر کرتہ کے بیٹھ گئے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، نیز ابوامامہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو کچھ میرے پاس مال ہے سب راہ اللہ میں خرچ کر دو ، حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اب کچھ باقی نہیں رہا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیا نازل فرمائی، اس حدیث کا ظاہر بتلا رہا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے۔
Top