Tafseer-e-Baghwi - Al-Israa : 29
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا
وَ : اور لَا تَجْعَلْ : تو نہ رکھ يَدَكَ : اپنا ہاتھ مَغْلُوْلَةً : بندھا ہوا اِلٰى : تک۔ سے عُنُقِكَ : اپنی گردن وَ : اور لَا تَبْسُطْهَا : نہ اسے کھول كُلَّ الْبَسْطِ : پوری طرح کھولنا فَتَقْعُدَ : پھر تو بیٹھا رہ جائے مَلُوْمًا : ملامت زدہ مَّحْسُوْرًا : تھکا ہوا
اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن سے بندھا ہوا (یعنی بہت تنگ) کرلو (کہ کسی کو کچھ دو ہی نہیں) اور نہ بالکل ہی کھول دو (کہ سبھی کچھ دے ڈالو اور انجام یہ ہو کہ) ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جاؤ
29۔” ولا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک “ حضرت جابر ؓ کا قول ہے کہ ایک لڑکے نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ اے اللہ کے رسول (ﷺ) میری ماں آپ سے پہننے کے لیے ایک کرتہ مانگ رہی ہے۔ حضور ﷺ کے پاس سوائے اس کرتے کے جو پہنے ہوئے تھے اور کوئی کرتہ نہ تھا۔ فرمایا امید ہے کہ فلاں وقت سے فلاں وقت کچھ آجائے ، تم کسی اور وقت آنا ، لڑکا لوٹ کر اپنی ماں کے پاس چلا گیا ، پھر لوٹ کر آیا اور عرض کیا میری ماں کہتی ہے جو کرتہ آپ ﷺ پہنے ہوئے ہیں وہی مجھے دے دیجئے ۔ یہ درخواست سن کر رسول اللہ ﷺ گھر کے اندر تشریف لے گئے اور کرتہ اتار کر اس لڑکے کو دے دیا اور برہنہ ہونے کے سبب گھر میں بیٹھے رہے۔ پھر نماز کے لیے حضرت بلال نے اذان دی اور صحابہ کرام ؓ نبی کریم ﷺ کا انتظار کرتے رہے لیکن آپ نہ آئے ۔ صحابہ کرام ؓ کے دلوں میں کوئی بےچینی پیدا ہوئی اور کچھ لوگ حاضر بارگاہ ہوئے تو آپ کو برہنہ پایا ، اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ ” ولا تعجل یدک مغلولۃ الی عنقک “ اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ حق کے راستے میں خرچ کرنے سے ہاتھ کونہ روکو جیسے وہ شخص ہوتا ہے جس کے ہاتھ گلے میں بندھے ہوئے ہیں اور وہ ہاتھوں کو پھیلا نہ سکتا ہو۔” ولا تبسطھا “ ان کو عطا کرنے کے ساتھ ۔” کل البسط “ تم سب کچھ ان کو دے دو جو کچھ تمہارے پاس موجود ہے۔ ” فتقعد ملوما ً “ سائل کو ملامت نہ کرو اس سے روک کر کیونکہ جب تم اس کو عطا نہیں کرو گے تو اس کو ملامت ہوگی ۔ ملامت یہ کہ فضول خرچ کرو گے تو اپنے نفس پر ملامت ہوگی اور اگر سائل کو کچھ نہ دو گے تو اس کو ملامت کرو گے۔ ” محسورا ً “ خالی ہاتھ ہو کر بیٹھ جائو گے جس کے پاس خرچ کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ہو ۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے ” حسرتہ بالمسئلۃ “ تو نے سوال کرنے سے اس کو تنگ کردیا ، تو نے اس سے لٹ چمٹ کر مانگا۔ حسرۃ السفر اس کو سفر نے چور کردیا یا شکستہ کردیا۔ قتادہ کا قول ہے انہوں نے اس کا ترجمہ پشیمان سے کیا ہے اور اس کا تعلق دونوں سے قرار دیا ہے یعنی انتہائی کنجوسی پر پشیمان ہو جائو گے اور برباد کئی پر بھی ۔
Top