Fi-Zilal-al-Quran - Al-Israa : 29
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا
وَ : اور لَا تَجْعَلْ : تو نہ رکھ يَدَكَ : اپنا ہاتھ مَغْلُوْلَةً : بندھا ہوا اِلٰى : تک۔ سے عُنُقِكَ : اپنی گردن وَ : اور لَا تَبْسُطْهَا : نہ اسے کھول كُلَّ الْبَسْطِ : پوری طرح کھولنا فَتَقْعُدَ : پھر تو بیٹھا رہ جائے مَلُوْمًا : ملامت زدہ مَّحْسُوْرًا : تھکا ہوا
نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کھلا چھوڑو دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جائو
اسلامی نظام زندگی میں توازن بنیادی اصول ہے ، تفریط کی طرح غلو بھی توازن میں خلل انداز ہوتا ہے۔ لیکن توازن کے بیان میں بھی تصویر کشی کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ بخیل کی تصویریوں کھینچی گئی کہ وہ ایک شخص ہے جس نے اپنے ہاتھ گردن کے ساتھ باندھ رکھے ہیں اور مسرف اور مبذر کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ ایک شخص ہے جس نے اپنے دونوں ہاتھ اور بازو کھول رکھے ہیں۔ اور وہ کسی چیز کو اپنی گرفت میں نہیں لیتا۔ اور بخیل اور مسرف دونوں کی تصویر کشی یوں کی گئی ہے کہ ایک شخس ہے جو ہر طرف سے مسترد شدہ ملامت کردہ ہے۔ اور عاجز و ناتواں اور لاچار ہے۔ محسور خیبر سے ہے اور خیبر اس سواری کو کہتے ہیں جو جعف و ناتوانی کی وجہ سے بیٹھ جائے اور اس میں چلنے کی سکت ہی نہ رہے۔ بخیل ملامت زدہ ہوتا ہے اور مبذر عاجز ہوجاتا ہے اور دونوں ملامت زدہ ہوتے ہیں۔ جبکہ شریعت کا حکم ہے۔ خیر الاموراوسطھا (میانہ روی بہترین طریق کار ہے) یہ حکم دینے کے بعد کہ میانہ روی اختیار کو جائے ، یہ بتایا جاتا ہے کہ حقیقی رزاق اللہ ہے ، وہی ہے جو کسی کو رزق فراواں دیتا ہے اور کسی پر رزق کے سلسلے میں تنگی کرتا ہے چونکہ رزاق دہی ہے اس لئے وہ میانہ روی کا حکم دیتا ہے۔
Top