Tafseer-e-Madani - Al-Israa : 29
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا
وَ : اور لَا تَجْعَلْ : تو نہ رکھ يَدَكَ : اپنا ہاتھ مَغْلُوْلَةً : بندھا ہوا اِلٰى : تک۔ سے عُنُقِكَ : اپنی گردن وَ : اور لَا تَبْسُطْهَا : نہ اسے کھول كُلَّ الْبَسْطِ : پوری طرح کھولنا فَتَقْعُدَ : پھر تو بیٹھا رہ جائے مَلُوْمًا : ملامت زدہ مَّحْسُوْرًا : تھکا ہوا
اور نہ تو تم اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے باندھ رکھو، اور نہ ہی اسے اس طرح پورا کھول دو کہ اس کے نتیجے میں تم الزام خوردہ اور تنگ دست ہو کر رہ جاؤ،2
55۔ بخل اور کنجوسی سے ممانعت :۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ” اور تم اپنے ہاتھ کو اپنی گردن سے باندھ کر نہیں رکھنا “۔ یعنی ایسے بخیل اور کنجوس نہیں بن جانا کہ ضروری امور میں بھی خرچ نہ کرو۔ کہ ضرورت مند اور سائل کو کچھ بھی نہ دو کہ ایسا کرنا برا اور مکارم اخلاق کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ نہایت خست ودناءت کی نشانی ہے جو کہ مومن صادق کے شایان شان نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ مومن صادق مکارم اخلاق کا اعلی اور عمدہ نمونہ ہوتا ہے اور انسان کی اصل قدر و قیمت اس کے مکارم اخلاق ہی سے ہے۔ جتنے کسی کے اخلاق صحیح اور اونچے ہوں گے اتنا ہی انسان اونچا اور سر بلند ہوگا۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید۔ 56۔ فضول خرچی سے ممانعت اور توسط واعتدال کی تعلیم و تلقین :۔ سو ارشاد فرمایا گیا ” اور نہ ہی اپنے ہاتھ کو پورے کا پورا کھول دینا “۔ اور یہ تعبیر ہے فضول خرچی کی پس ارشاد فرمایا گیا کہ تم ایسا نہیں کرنا کہ ایسا کرنا فضول خرچی کے زمرے میں آتا ہے۔ پس اس قدر اسراف اور فضول خرچی سے بھی کام نہیں لینا کہ خالی ہاتھ اور تنگدست ہو کر رہ جائے۔ بلکہ تو سط اور اعتدال کی راہ کو اپنایا کرو۔ پس نہ کنجوس اور بخیل بن جائے اور نہ ہی مسرف اور فضول خرچ۔ بلکہ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان توسط واعتدال کی راہ کو اپناؤ۔ اور اسی کو اپنا شعار بناؤ۔ وباللہ التوفیق۔ پس اپنی جائز ضروریات میں بھی خرچ کرو اور دوسروں کے حقوق بھی ادا کرو۔ اور اعتدال و کفایت شعاری کی روش کو اپناؤ۔ کہ یہی تقاضا ہے عقل ونقل دونوں کا اور یہی راہ ہے صحت و سلامتی کی۔
Top