Tafheem-ul-Quran - Al-Israa : 29
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا
وَ : اور لَا تَجْعَلْ : تو نہ رکھ يَدَكَ : اپنا ہاتھ مَغْلُوْلَةً : بندھا ہوا اِلٰى : تک۔ سے عُنُقِكَ : اپنی گردن وَ : اور لَا تَبْسُطْهَا : نہ اسے کھول كُلَّ الْبَسْطِ : پوری طرح کھولنا فَتَقْعُدَ : پھر تو بیٹھا رہ جائے مَلُوْمًا : ملامت زدہ مَّحْسُوْرًا : تھکا ہوا
نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ رکھو اور نہ اسے بالکل ہی کُھلا چھوڑ دو کہ ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاوٴ۔29
سورة بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْل 29 ہاتھ باندھنا ہی استعارہ ہے بخل کے لیے، اور اسے کھلا چھوڑ دینے سے مراد ہے فضول خرچی۔ دفعہ 4 کے ساتھ دفعہ 6 کے اس فقرے کو ملا کر پڑھنے سے منشاء صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں میں اتنا اعتدال ہونا چاہیے کہ وہ نہ بخیل بن کر دولت کی گردش کو روکیں اور نہ فضول خرچ بن کر اپنی معاشی طاقت کو ضائع کریں۔ اس کے برعکس ان کے اندر توازن کی ایسی صحیح حس موجود ہونی چاہیے کہ وہ بجا خرچ سے باز بھی نہ رہیں اور بیجا خرچ کی خرابیوں میں مبتلا بھی نہ ہو۔ فخر اور ریاء اور نمائش کے خرچ، عیاشی اور فسق و فجور کے خرچ، اور تمام ایسے خرچ جو انسان کی حقیقی ضروریات اور مفید کاموں میں صرف ہونے کے بجائے دولت کو غلط راستوں میں بہا دیں، دراصل خدا کی نعمت کا کفران ہیں۔ جو لوگ اس طرح اپنی دولت کو خرچ کرتے ہیں وہ شیطان کے بھائی ہیں۔ یہ دفعات بھی محض اخلاقی تعلیم اور انفرادی ہدایات تک محدود نہیں ہیں بلکہ صاف اشارہ اس بات کی طرف کر رہی ہیں۔ کہ ایک صالح معاشرے کو اخلاقی تربیت، اجتماعی دباؤ اور قانونی پابندیوں کے ذریعہ سے بےجا صرف مال کی روک تھام کرنی چاہیے۔ چناچہ آگے چل کر مدینہ طیبہ کی ریاست میں ان دونوں دفعات کے منشاء کی صحیح ترجمانی مختلف عملی طریقوں سے کی گئی۔ ایک طرف فضول خرچی اور عیاشی کی بہت سی صورتوں کو ازروئے قانون حرام کیا گیا۔ دوسری طرف بالواسطہ قانونی تدابیر سے بےجا سرف مال کی روک تھام کی گئی۔ تیسری طرف معاشرتی اصلاح کے ذریعہ سے ان بہت سی رسموں کا خاتمہ کیا گیا جن میں فضول خرچیاں کی جاتی تھیں۔ پھر حکومت کو یہ اختیارات دیے گئے کہ اسراف کی نمایاں صورتوں کو اپنے انتظامی احکام کے ذریعہ سے روک دے۔ اسی طرح زکوة و صدقات کے احکام سے بخل کا زور بھی توڑا گیا اور اس امر کے امکانات باقی نہ رہنے دیے گئے کہ لوگ زراندوزی کر کے دولت کی گردش کو روک دیں۔ ان تدابیر کے علاوہ معاشرے میں ایک ایسی رائے عام نے بخیلوں کو ذلیل کیا۔ اعتدال پسندوں کو معزز بنایا۔ فضول خرچوں کو ملامت کی اور فیاض لوگوں کو پوری سوسائٹی کا گِل سرِ سَبَد قرار دیا۔ اس وقت کی ذہنی و اخلاقی تربیت کا یہ اثر آج تک مسلم معاشرے میں موجود ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہیں کنجوسوں اور زر اندوزوں کو بری نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور سخی انسان آج بھی ان کی نگاہ میں معزز و محترم ہے۔
Top