Urwatul-Wusqaa - Al-Israa : 29
وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا
وَ : اور لَا تَجْعَلْ : تو نہ رکھ يَدَكَ : اپنا ہاتھ مَغْلُوْلَةً : بندھا ہوا اِلٰى : تک۔ سے عُنُقِكَ : اپنی گردن وَ : اور لَا تَبْسُطْهَا : نہ اسے کھول كُلَّ الْبَسْطِ : پوری طرح کھولنا فَتَقْعُدَ : پھر تو بیٹھا رہ جائے مَلُوْمًا : ملامت زدہ مَّحْسُوْرًا : تھکا ہوا
اور نہ تو اپنا ہاتھ اتنا سکیڑ لو کہ گردن میں بندھ جائے اور نہ بالکل پھیلا دو دونوں کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ہر طرف سے ملامت پڑے گی اور درماندہ ہو کر رہ جاؤ گے
فضول خرچی سے بچو اور جائز اخراجات سے مت گھبراؤ ‘ فضول خرچی نری ملامت ہے : 39۔ زیر نظر آیت جامع مواعظ میں سے ہے فرمایا مال و دولت خرچ کرنے اور دوسری ساری باتوں میں اعتدال کی راہ اختیار کرو کسی ایک ہی طرف کو جھک نہ پڑو مثلا خرچ کرنے پر آئے تو سب کچھ اڑا دیا ‘ احتیاط کرنی چاہی تو اتنی کی کنجوسی پر اتر آئے ، دراصل تمام محاسن کی بنیادی حقیقت توسط و اعتدال ہے اور جتنی برائیاں بھی پیدا ہوتی ہیں افراط وتفریط سے پیدا ہوتی ہیں ۔ زیر آیت میں (ملوما) کا لفظ آیا ہے لوم ملامت کرنے کو کہتے ہیں اور لائم ملامت کرنے والا ہے اس کی وضاحت عروۃ الوثقی جلد سوم کی آیت 54 میں ملے گی ۔ ” نہ تو اپنا ہاتھ اتنا سکیڑ لو کہ گردن سے بندھ جائے “ دراصل مغلولہ الید سے مراد بخل کرنا ہے یعنی جائز اخراجات سے بھی مال ہونے کے باوجود کترا جانا اور ” ہاتھ زیادہ ہی پھیلا دینا “ سے مراد اسراف ہے یا فضول خرچی اور فرمایا یاد رکھو کہ بخل کا نتیجہ ملامت ہے اور اسراف کا درماندگی ، اصل راہ میانہ روی ہے جس کا ذکر آگے آ رہا ہے ۔
Top