Ahsan-ut-Tafaseer - Ar-Ra'd : 12
هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَۚ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : وہ جو کہ يُرِيْكُمُ : تمہیں دکھاتا ہے الْبَرْقَ : بجلی خَوْفًا : ڈرانے کو وَّطَمَعًا : اور امید دلانے کو وَّيُنْشِئُ : اور اٹھاتا ہے السَّحَابَ : بادل الثِّقَالَ : بوجھل
اور وہی تو ہے جو تم کو ڈرانے اور امید دلانے کے لئے بجلی دکھاتا اور بھاری بھاری بادل پیدا کرتا ہے۔
12۔ اس آیت میں اللہ پاک نے یہ ذکر کیا کہ بجلی بھی خدا کے حکم کے تابع ہے وہی جب چاہتا ہے بڑے بڑے ابر کے ٹکڑوں کے ساتھ بجلی کو بھیج دیتا ہے جس کو تم لوگ دیکھتے ہو اور بعضے خوف کرنے لگتے ہیں اور بعضے طمطع کرتے ہیں مطلب یہ ہے کہ مسافر جو راستہ چلتا ہوا ہوتا ہے رعد کی کڑک اور بجلی کی چمک دیکھ کر ڈر جاتا ہے کہ اب رستہ کیوں کر طے ہوگا کس طرح منزل پر پہنچیں گے اور جو لوگ اپنے گھروں میں ہوتے ہیں ان کو ایک گو نہ خوشی ہوتی ہے کہ بادل اگر برس گیا تو بڑا فائدہ ہے غلہ خوب پیدا ہوگا رزق میں زیادتی ہوجائے گی۔ غرض اللہ تعالیٰ ہوا کے ذریعہ سے پانی کے بھرے ہوئے بادل پیدا کردیتا ہے اور جہاں حکم ہوتا ہے وہاں مینہ برستا ہے۔ سورت الروم میں آوے گا کہ پہلے اللہ کے حکم سے ہوا چلتی ہے جو بادلوں کو ابھارتی اور پھیلاتی ہے اور ان کو تہ برتہ کردیتی ہیں۔ پھر ان بادلوں میں سے مینہ برستا ہے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے زیاد بن خالد جہنی ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ ایک دفعہ رات کو مینہ برسا اس پر آنحضرت ﷺ نے کہا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ صبح اٹھ کر یہ کہویں گے کہ اللہ نے اپنے فضل سے یہ مینہ برسایا وہ اللہ کی نعمت کی شکر گزاری ادا کریں گے اور جو لوگ یہ کہویں گے کہ تاروں کی گردش کے اثر سے یہ مینہ برسا وہ اللہ کی نعمت کے ناشکر گزار ہیں 1 ؎ اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جسکا حاصل یہ ہے کہ یہ منکرین حشر کچھ فقط حشر کے باب میں ہی اللہ کی قدرت کے منکر نہیں ہیں بلکہ اللہ کی قدرت کی اور باتوں میں بھی ان کو شیطان نے بہکا رکھا ہے۔ مثلاً مینہ تو اللہ کی قدرت سے برستا ہے اور یہ لوگ اس کو تاروں کی گردش کا اثر بتلاتے ہیں یہ نہیں جانتے کہ تاروں کو اور ان کی گردش کو آخر کس نے پیدا کیا ہے بغیر اس کے حکم کے تاروں میں اثر کہاں سے آسکتا ہے۔ 1 ؎ صحیح بخاری ص 141 ج 1 باب قول اللہ عزوجل و تجعلون رزقکم انکم تکذبون۔
Top