Tafseer-e-Haqqani - Ar-Ra'd : 12
هُوَ الَّذِیْ یُرِیْكُمُ الْبَرْقَ خَوْفًا وَّ طَمَعًا وَّ یُنْشِئُ السَّحَابَ الثِّقَالَۚ
هُوَ : وہ الَّذِيْ : وہ جو کہ يُرِيْكُمُ : تمہیں دکھاتا ہے الْبَرْقَ : بجلی خَوْفًا : ڈرانے کو وَّطَمَعًا : اور امید دلانے کو وَّيُنْشِئُ : اور اٹھاتا ہے السَّحَابَ : بادل الثِّقَالَ : بوجھل
وہی تو ہے کہ جو تمہیں خوف امید دلانے کے لئے بجلی دکھاتا اور بھاری بھاری بادلوں کو اٹھاتا ہے
1 ؎ الثقال جمع ثقیلہ والسحاب جمع سحابۃ وقیل جنس 12 منہ قال الازہری المحال فعال من المحل بمعنی القوۃ والمیم اصلیۃ وقال ابن قتیبۃ اصلہ مقعل من الحول اذا لحیلۃ جعل المیم کمیم المکان واصلہ من الکون ومعناہ المکر والقوۃ والاخذ والحول والعداوۃ و ذھب الی کلوا حدذاہب 12 منہ تفسیر : ان آیات میں اپنی قدرت کے چند دلائل بیان فرماتا ہے۔ اول برق یعنی بجلی کا چمکنا کہ جس سے مینہ کی امید اور جل جانے کا خوف ہوتا ہے۔ بادلوں میں پانی بھرا ہوتا ہے۔ ان میں سے ایسی آگ اور یہ روشنی پیدا کرنا اسی کا کام ہے۔ دوم دہر میں پانی کے بھرے ہوئے بادلوں کا اٹھانا جو ہفتوں برستے ہیں حالانکہ پانی کا حیز طبعی پستی ہے۔ سوم رعد یعنی گرج اور کڑک بادل نرم اجسام ایسے نہیں کہ ان کے باہم گھسنے سے یہ ہیبت ناک آواز پیدا ہو مگر وہ پیدا کرتا ہے۔ بعض احادیث میں آیا ہے کہ رعد 1 ؎ فرشتہ ہے جو بجلی کے کوڑے سے بادلوں کو ہانکتا ہے اور کڑک اس کی آواز تسبیح ہے۔ یہ ممکن ہے۔ بعض اس کی یوں توجیہ کرتے ہیں کہ فرشتے سے مراد ان کے قوائِ محرکہ اور کڑک جو اپنی زبان حال سے تسبیح کر رہی ہے یعنی اس کی قدرت ویکتائی بیان کر رہی ہے۔ چہارم بجلی کا جہاں چاہنا گرا دینا جس مکان یا شخص یا پہاڑ کو چاہنا اس سے ٹکڑے ٹکڑے کرا دینا یہ تمام اس کی جبروت وقدرت کے نشان ہیں۔ پھر اللہ کے معاملہ میں شبہ کرنا کیا حمق ہے۔ یہ دلائل بیان فرما کر تمام عالم کا قضاء و قدر کے آگے مسخر ہونا بیان کرتا ہے جس کو سجدہ کرنے سے تعبیر کیا ہے۔ کافر ٗ مومن ٗ حیوان ‘ نباتات بےاختیار کسی فاعل مختار کے ہاتھ میں ہیں جو انی ‘ بڑھاپا ‘ تندرستی ‘ مرض گھٹنا ‘ بڑھنا مرضی کے موافق اور مخالف باتیں ‘ ان کے سفر کی منزلیں ہیں کہ جن میں بےاختیار کھچے چلے آتے ہیں خواہ دل چاہے یا نہ چاہے اور صبح و شام جو ہر چیز کا سایہ زمین پر زیادہ پڑا معلوم ہوتا ہے وہ بھی اللہ کے آگے سجدہ کرتا ہے۔ ظاہری سجدہ بھی آیت میں مراد ہوسکتا ہے کہ ایماندار اور ملائکہ خوشی سے کرتے ہیں اور منکرین مصائب کے وقت گردن پکڑ کر جھکائے جاتے ہیں۔ من فی السموات سے ارواح اور نفوس کی طرف اشارہ ہے جو انوار ذات کی تجلی سے شوق میں آکر اس کی طرف جھکتے ہیں اور ان کے ظلال سے اجسام 1 ؎ جس طرح نفوس انسانیہ ہیں اسی طرح نفوس ملکی و نفوس اجرام علوی بھی خدا نے پیدا کرکے ان اجسام کے مدبر و محرک بنائے ہیں۔ انہیں کو حکماء طبائعِ اجسام کہتے ہیں اور شرع میں یہ نفوس کبھی ملائکہ سے بھی تعبیر کئے جاتے ہیں۔ پس رعد کو فرشتہ کہنا اور بجلی کے کوڑے سے جو بوقت حرکت پیدا ہوتی ہے بادلوں کو ہانکنا فرمانا اعلیٰ درجہ کا فلسفہ ہے۔ 12 منہ مراد ہیں جو طبعا ً آفتاب وجود کے طلوع و غروب کے وقت سجدہ کرتے ہیں یا اعیان ثابتہ یعنی گرچہ کف پانی پر بھی ہوتے ہیں اور جو آگ میں پگھلایا جانا ہے اس پر بھی مگر دونوں میں فرق ہے۔ اسی طرح گو باطل بظاہر حق سے مشابہ ہو مگر جس طرح جھاگ اڑ جاتے ہیں اور پانی رہ جاتا ہے اسی طرح حق باقی رہتا ہے ملمع کاری چند روز میں کھل جاتی ہے کیونکہ قرآن آسمان سے ابر رحمت کی طرح نازل ہوا اس سے بھی نالے بہے۔ بڑے بڑے عالم اٹھے حسب استعداد فیض پایا مگر یہ ابد تک زمین پر نفع دینے کے لیے رہے گا۔ یہ ایک تمثیل ہے حق و باطل کے لئے۔
Top